طعنوں نےمعصوم بچی کی جان لے لی
زاہد جان
پشتون معاشرے میں طعنے ملنا انتہائی برا سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان طعنوں کی وجہ سے اکثر لوگ یا تو مارے جاتے ہے یا خودکشی کرلیتے ہیں۔ دشمنیاں جنم لینا بھی ان طعنوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ماضی میں ایسے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں طعنوں کی وجہ سے ایک واقعہ ضلع باجوڑ کے تحصیل سلارزئی علاقہ تلی میں پیش اۤیا۔
20 جون 2024 بروز جمعرات کو مسمیٰ وحید شاہ کی بیٹی نے اُس وقت زہریلی دوا کھالی جب مقامی لوگوں نے ان پر اۤوازیں کسنا شروع کردی۔ والد وحید شاہ نے بتایا کہ میری 13 سالہ بیٹی اۤسیمہ اپنی سہیلی کیساتھ تلی ڈیم گئے تھے۔ وہاں پر ایک کالے فیلڈر گاڑی میں بیٹھے افراد نے زورزبردستی گاڑی میں ڈال کر ہراساں کرنے کی کوشش کی تاہم وہ ناکام رہے۔
جس کے بعد وہاں پر موجود چند افراد نے میری بیٹی اور دوسری سہیلی کو طعنے دینا شروع کردیئے۔ جس کے بعد میری بیٹی نے طیش میں اۤکر زہریلی دوا کھالی اور وجہ یہ تھی کہ وہ طعنے برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ زہریلی دوا کھانے کے بعد اُس کی حالت غیر ہوگئی جس کے بعد علاج کے لئے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال خار باجوڑ اور پھر پشاور بھی منتقل کردیا تھا تاہم وہ پشاور میں رات 9 بجے خالق حقیقی سے جاملی۔
والد کا کہنا ہے کہ انتہائی غربت کے باوجود بھی میں نے بھرپور کوشش کی کہ اُس کی جان بچ جائے مگر نہ بچ سکی۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس والوں نے نماز جنازہ کے موقع پر اۤکر کہا کہ ہم ایف اۤئی اۤر درج کرنا چاہتے ہیں اۤپ ہمیں نام بتادیں کہ کون کون اس میں ملوث ہیں۔ میں نے بتایا کہ مجھے نہیں معلوم یہ تو حکومت اور پولیس کا کام ہے کہ ملزمان کو تلاش کریں۔
اس حوالے سے چائلڈ پروٹیکشن پر کام کرنے والی سماجی شخصیت عمران ٹکر نے بتایا کہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جب بھی اس طرح کا کوئی واقعہ رونما ہوجائے تو دو باتیں نہایت قابل ذکر ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے ورثا کی جانب سے ایف آئی آر کا اندراج اور ایف آئی آر میں دفعات لگانا۔ جس میں جنسی زیادتی ، چائلڈ پروٹیکشن وغیرہ کی شقیں لگائی جائیں۔
اس کے علاوہ ہراسمنٹ اور ریپ وغیرہ کی شقیں بھی لگائی جاسکتی ہیں ۔ اس کے بعد ملزم کا پھانسی کے علاوہ خلاصی کا کوئی راستہ نہیں بچتا ، اگر صحیح طریقے سے ایف آئی آر اور شقوں کا اندارج ہو تو ملزم کی خلاصی کا کوئی تصور باقی نہیں رہتا ۔
دوسری بات یہ ہےکہ بچی نے خودکشی کی ہے تو اس کیلئے خودکشی کی ایف آئی آر بھی درکار تھی، لاش کا پوسٹ مارٹم ایف آئی آر کی روشنی میں کیا جانا ضروری تھا۔ باقی یہ کہ ایف آئی آر دیکھنا ہوگی کہ کون کونسے دفعات لگائے گئے ہیں۔
ایسے واقعات کے خاتمے میں سب سے بڑی روکاوٹ مقامی کلچر اور والدین کی سست روی ہے ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی تو واقعہ کو رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ اگر ان واقعات کو ہائی لائٹ کیا جائے تو اس سے بچنا با آسانی ممکن ہوگا۔ اس کیس کو خیبرپختونخوا چائلڈ پروٹیکشن کے پاس ضرور رپورٹ کیا جانا چاہئے۔
دوسری جانب تھانہ سلارزئی کے ایس ایچ او سعیدالرحمن نے اس حوالے سے بتایا کہ ہم نے دفعہ 174 پی سی سی کے تحت پرچہ کاٹ دیا ہے اور مذکورہ علاقے کے تمام لوگوں کو شامل تفتیش کیا جائیگا۔ جس میں اصل ملزم تک پہنچا جا سکے گا۔ پھر بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرسکتے ہیں۔ اور والد صاحب سے بھی معلومات کرکے شامل تفتیش کیا جائیگا۔
نماز جنازہ کے موقع پر علاقے کے لوگوں نے انتہائی افسوس اور دکھ کا اظہار کیا اور واقعہ کو انتہائی دردناک قرار دیا ہے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ بچی کیساتھ بہت ظلم ہوا ہے اسلئے ملزمان کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ سے علاقے کی بدنامی ہوئی ہے۔
ایک مقامی شخص نے بتایا کہ علاقے کے بااثر افراد اور سماجی کارکنان اس بات پر خاموش ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس سے علاقائی دشمنیاں جنم لے سکتی ہیں اسلئے انہوں نے اس واقعہ پر خاموشی اختیار کی ہے۔