”اگر میرے دوست نہ ہوتے تو آج شاید میں بھی نہیں ہوتا”
مصباح الدین اتمانی
”پاکستان میں نفسیاتی بیماریوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے، اس پر یہاں بہت کم بات ہوتی ہے، نفسیاتی مریض بدنامی کی خوف سے ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے کہ لوگ پاگل کہنا شروع کر دیں گے۔” یہ کہنا تھا کلینیکل سائیکلوجسٹ اور ٹرینر سارہ خان کا جو ذہنی بیماریوں کا شکار مریضوں کی مفت کونسلنگ کرتی ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ خودکشی کی روک تھام کے عالمی دن کی مناسبت سے خصوصی گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ خودکشی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے رحجان میں اضافہ ہو رہا پے جس کی مختلف وجوہات ہیں۔
سارہ خان کے مطابق لوگ درد سے بھاگنے یا نکلنے کی کوشش میں خودکشیاں کرتے ہیں، دیکھا گیا ہے کہ خودکشی کرنے والے افراد میں 58 فیصد وہ افراد شامل ہیں جن کے تعلقات کے مسائل ہوتے ہیں، دوسری بڑی وجہ جو دیکھی گئی ہے وہ گھریلو مسائل ہوتے ہیں، تیسری وجہ کام کا زیادہ بوجھ ہے اور چوتھی جو وجہ دیکھنے میں آئی ہے تو وہ منشیات اور الکوحل کا زیادہ استعمال ہے۔
خود کشی سے بچاؤ کا عالمی دن یعنی World Suicide Prevention Day عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے دنیا بھر میں ہر سال 10 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال دنیا میں تقریباً 1 ملین افراد خودکشی کرتے ہیں۔خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن منانے کا مقصد بین الاقوامی سطح پر خودکشی سے بچاؤ کا شعور اجاگر کرنا ہے۔
کلینکل سائیکلوجسٹ سارہ خان نے بتایا کہ ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ 80 فیصد لوگ خودکشیاں اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ذہنی بیماریوں سے گزرے ہوتے ہیں جیسے ڈیپریشن، پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر جسے ہم پی ٹی ایس ڈی کہتے ہیں وغیرہ۔
انہوں نے کہا کہ جب ایک شخص خودکشی کرتا ہے، تو وہ اکیلا نہیں مرتا، وہ اپنے ساتھ پورے خاندان کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیتا ہے، اس کا سب سے زیادہ برا اثر بچوں پر پڑتا ہے، ان کو بھی یہ لگتا ہے کہ درد سے نکلنے کا یہی ایک طریقہ ہے، ”اس چیز کو ہمیں روکنا چاہیے جس میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔”
اعداد و شمار کے لحاظ سے دیکھا جائے تو خیبر پختون خوا میں خودکشیوں کی شرح ضلع چترال میں سب سے زیادہ ہے جبکہ دوسرے نمبر پر مانسہرہ ہے۔ خودکشی کی شرح خواتین کے مقابلے میں مردوں میں زیادہ پائی گئی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختون خوا کے ضلع پشاور میں سال 2020 کے دوران خودکشی کے 65 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ سال 2021 کے دوران یہ تعداد 18 تک محدود رہی۔ سال 2020 میں اقدام خودکشی کے 21 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ سال 2021 میں یہ تعداد 16 رہی۔
سارہ خان کہتی ہیں کہ وہ اس رحجان کو کم کرنے کیلئے جی آر اے سی ای ای (Gender Response Advocacy Centre Ensuring Equality) کے پلیٹ فارم سے مختلف آگاہی سیمینارز منعقد کروا رہی ہیں تاکہ نفسیاتی بیماریوں کا شکار افراد اس کا کھل کر اظہار کریں، ”نفسیاتی صحت کو یہاں نظر انداز کیا جاتا ہے، پاکستان میں اس پر بہت کم بات ہوتی ہے، سائیکلوجسٹ یا سائیکاٹرسٹ کے پاس جانا اس بات کی علامت نہیں کہ بندہ پاگل پن کا شکار ہے۔”
انہوں نے کہا کہ آگاہی سیمینارز کافی فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں، آپ ایک سیشن میں 20 لوگوں کو آگاہ کر رہے ہیں، وہ آگے جا کر 20 مزید لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں، اور اگر ان 20 بندوں میں 10 کو بھی آپ کی بات سمجھ آ گئی تو آپ کا مقصد پورا ہو جاتا ہے، "میں سمجھتی ہوں کہ اس حوالے سے آگاہی سیمینارز شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں ضروری ہیں، کیونکہ نفسیاتی صحت ہر جگہ نظرانداز ہے، اگر میں شہری علاقوں کی بات کروں تو وہاں نفسیاتی عوامل کو کچھ حد تک سمجھا جاتا ہے لیکن جو دیہی علاقے ہیں وہاں پر گراس روٹ پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ان لوگوں سے بات کرنی چاہیے، زیادہ تر مسائل وہاں ہوتے ہیں، اور اگر ان مسائل پر بات نہیں کی گئی تو یہ کیسز بڑھتے جائیں گے اور معاشرہ تباہی کی طرف جائے گا، ہم جسمانی صحت کو جتنا اہمیت دیتے ہیں اتنی ہی اہمیت نفسیاتی صحت کو بھی دینا ہو گی کیوں کہ ذہنی صحت کے بغیر جسمانی صحت نامکمل ہے، دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔”
نفسیات کے ماہرین کے مطابق گزشتہ 2 برسوں کے دوران پاکستان میں خودکشی کی شرح 3 سے بڑھ کر 8 فیصد ہو گئی جبکہ خیبر پختون خوا کے ضلع پشاور میں یہ شرح گذشتہ سالوں کی نسبت واضح طور پر کم ہوئی ہے۔
عمارہ اقبال آر اے سی ای ای ( Gender Response Advocacy Centre Ensuring Equality) کی چیئرپرسن ہیں، انہوں نے بلیو وینز کے اشتراک سے رواں سال "ہیپی کے پی” کے نام سے ایک ہیلپ لائن لانچ کی ہے جس کا مقصد نفسیاتی بیماریوں کے شکار افراد کو مفت سروسز فراہم کرنا ہے۔
اس پراجیکٹ کے حوالے سے عمارہ اقبال کہتی ہیں کہ یہ ایک مفت ٹیلی فونک ہیلپ لائن ہے جس کے ذریعے لوگ ٹیلی فون پر سیشنز لیتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ آن لائن اور فزیکل سیشنز بھی منعقد ہوتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ٹیلی فون یا آن لائن رابطہ کر کے متاثرہ افراد اپوئنٹمنٹ لیتے ہیں، ہمارے پاس موجود سائیکالوجسٹ ان کی کونسلنگ اور رہنمائی کرتے ہیں، ان کو مشورے دیتے ہیں، جن کو فزیکلی کونسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے وہ آفس آ جاتے ہیں، جن کو آن لائن کونسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے ان کے ساتھ آن لائن سیشن ہوتے ہیں اور یہ تمام سروسز مفت ہیں تاکہ خودکشی کے بڑھتے پوئے رحجان کو کم کیا جا سکے۔
عمارہ اقبال نے بتایا کہ ہمیں نہ صرف خیبر پختونخوا سے بلکہ زیادہ لوگ اسلام آباد اور پنجاب سے رابطہ کرتے ہیں، اس کے علاوہ باہر ممالک سے سے بھی کونسلنگ کیلئے لوگ کالز کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہیپی کے پی کو بنانے کا ایک ہی مقصد تھا، پاکستان میں اور بالخصوص خیبر پختون خوا میں نفسیاتی صحت ایک سٹیگما ہے، لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہم ماہر نفسیات کے پاس جائیں گے تو ہم سٹیگماٹائزڈ ہوں گے، ہمیں لوگ پاگل کہیں گے، تو اس لئے ہم نے آن لائن سروس شروع کر دی، تاکہ لوگ بلا جھجک اپنے نفسیاتی مسائل شیئر کر سکیں، یہ سروس فری اس لئے رکھی ہے کہ ذہنی دباؤ کا شکار جو غریب لوگ ہیں تاکہ وہ اس سے استفادہ کریں۔
ہیپی کے پی ہیلپ لائن سے اب تک ہزاروں لوگ مسفید ہوئے ہیں جن میں پشاور یونیورسٹی کے ایک طالب علم بھی شامل ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ میں نے حالات سے تنگ آ کر خودکشی کرنے کا ارادہ کیا تھا کیوں کہ پہلے میری زندگی خافی اچھی گزر رہی تھی، لیکن کالج میں داخلہ لینے سے پہلے مجھے میرے والدین نے پریشرائز کرنا شروع کر دیا، کہ آپ نے فلاں فلاں مضامین لینے ہیں اور ان میں اچھے نمبرز بھی لینے ہیں، ”میں نے والدین کی خواہشات پوری کرنے کی خاطر سخت محنت کی لیکن میرے اوپر اتنا ذہنی دباؤ تھا کہ پڑھنا ناممکن ہو گیا تھا، تب میرے ذہن میں خیال آیا کہ اس پریشر کو برداشت کرنے سے زیادہ آسان خودکشی ہے، یہ بڑا مشکل فیصلہ تھا لیکن موت سے زیادہ ماں باپ اور باقی گھر والوں کی فکر تھی کہ وہ کیا کریں گے، پھر سوچتا تھا کہ ان کے ساتھ تو میری کوئی فکر ہی نہیں۔”
یونیورسٹی کے اس طالب علم نے بتایا کہ ہاسٹل کے ساتھیوں کو میرے پریشانی اور ارادوں کا اندازہ ہو گیا تھا، وہ مجھے حوصلہ دیتے رہے پھر انہوں نے میرے والدین سے بھی بات کی،جو مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے، جہاں سے میری زندگی بدلنا شروع ہو گئی، ”ہیپی کے پی ہیلپ لائن پر کونسلنگ کا سلسلہ مسلسل جاری رہا اور اب میری زندگی پہلے سے زیادہ بہتر گزر رہی ہے، میں نے دباؤ کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا، لوگوں کو میرا پیغام ہے کہ زندگی خوبصورت نعمت ہے، خودکشی مسائل کا حل نہیں، اگر کسی کو کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے تو وہ اپنے دوستوں کے ساتھ یا اپنے والدین کے ساتھ بروقت شیئر کرے، کیونکہ اگر میرے دوست نہ ہوتے تو آج شاید میں بھی نہیں ہوتا۔”