بارودی سرنگوں کا نشانہ بننے والی قبائلی خواتین
خالدہ نیاز
ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والی 30 سالہ مدینہ بی بی کی زندگی اس وقت تاریکی میں ڈوب گئی جب وہ ایک بارودی سرنگ کا نشانہ بن گئی۔ بارودی سرنگ کا نشانہ بننے کے بعد وہ ایک ٹانگ سے محروم ہوگئی۔ ٹی این این کے ساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران مدینہ بی بی نے بتایا کہ وہ 18 سال کی تھی جب مقامی پہاڑ پہ گئی اور راستے میں اس کا پاؤں بارودی سرنگ پر آگیا اور دھماکہ ہوگیا۔
اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے مدینہ بی بی نے بتایا ‘ میں اپنی بھابی کے ساتھ پہاڑ سے واپس آرہی تھی جب راستے میں میرا پاوں بارودی سرنگ سے ٹکرا گیا، اس دھماکے میں میرے ایک ہاتھ کی انگلیاں ٹوٹ گئی لیکن ہاتھ معذور ہونے سے بچ گیا جبکہ میری بھابھی کی آنکھوں کو نقصان پہنچا تھا اور وہ معمولی زخمی ہوئی تھی’
بارودی سرنگ کا نشانہ بننے کے بعد مدینہ بی بی کی زندگی
مدینہ بی بی کہتی ہے کہ بارودی سرنگ دھماکے کے بعد وہ سارا وقت چارپائی پر پڑے ہوئے گزارنے لگی اس کی خدمت اس کی والدہ کرتی تھی لیکن اب جب وہ بڑی ہوگئی ہے تو کوشش کرتی ہے کہ اپنے کام خود کریں لیکن اس کو کام کرنے میں بہت مشکلات درپیش ہے۔
مدینہ بی بی کہتی ہیں کہ ایک پیر سے معذور ہونے کی وجہ سے انکی شادی بھی نہ ہوسکی اور وہ اپنے والدین کے گھر میں ہی ہوتی ہے تاہم بہت سے ایسے کام ہوتے ہیں جس کی چاہ تو انکو ہوتی ہے لیکن وہ کرنہیں سکتی۔ وہ کہتی ہیں کہ انکے علاقے میں کئی ایسی خواتین موجود ہیں جو بارودی سرنگوں کا نشانہ بن چکی ہے۔
باجوڑ میں حالات کب خراب ہوئے؟
ضلع باجوڑ 10 لاکھ آبادی پرمشتمل قبائلی ضلع ہے جہاں 2008 میں 11/9 کے بعد حالات خراب ہونا شروع ہوئے۔ شروع میں لوگوں کو اٹھایا جانے لگا، پھر حجام کرنے والوں کو تنبیہہ کی گئی کہ وہ لوگوں کی داڑھی نہ بنوائے اور پھر لڑکیوں کے سکولوں کو بھی بند کردیا گیا اور حالات مزید خراب ہوئے۔ جگہ جگہ دھماکے ہونے لگے اور طالبان نے مختلف علاقوں پرقبضہ کرلیا۔ حالات خراب ہونے کے بعد سکیورٹی فورسز نے اسی سال باجوڑ میں شیر دل کے نام سے فوجی آپریشن شروع کیا جس میں مقامی لوگوں نے بھی ساتھ دیا 2010 میں فوج نے طالبان کو شکست دے دی۔ اس آپریشن میں سینکڑوں افراد بے گھر ہوئے۔ کئی گھر دھماکوں سے اڑا دیئے گئے۔ اس دوران کئی سکیورٹی اہلکار اور مقامی افراد جاں بحق ہوئے جبکہ جگہ جگہ پڑے لینڈ مائنز سے مدینہ بی بی کی طرح کئی خواتین متاثر ہوئیں۔
کوئی سرکاری ادارہ نہ ہونے کی وجہ سے لینڈ مائنز کے شکار افراد کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے تاہم انسٹی ٹیوٹ آف آرتھیٹک سائنسز کے ایک رپورٹ کے مطابق اس ادارے نے ایک لاکھ افراد کو مصنوعی اعضاء فراہم کئے ہیں جن میں 70 فیصد بارودی سرنگوں اور بم دھماکوں میں معذور ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر کا تعلق قبائلی اضلاع سے ہیں۔
قبائلی اضلاع میں جگہ جگہ لینڈ مائن پڑے ہوئے ہیں جن کی صفائی جاری ہے تاہم ان بارودی سرنگوں کی وجہ سے ابھی تک کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ سینکڑوں افراد معذور بھی ہوئے ہیں۔
قبائلی اضلاع سے بارودی سرنگوں کے خاتمے کا نہ صرف مقامی عمائدین مطالبہ کرتے آئے ہیں بلکہ کئی تنظیمیں بھی اس حوالے سے کافی سرگرم ہیں۔ جنوری 2018 میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب محسود کو کراچی میں پولیس نے ماورائے عدالت قتل کیا جس کے بعد پختون تحفظ موومنٹ وجود آئی میں جن کا پہلا مطالبہ یہی تھا کہ قبائلی اضلاع سے بارودی سرنگوں کا صفایا کیا جائے۔ پہلے اس تنظیم کا نام محسود تحفظ موومنٹ تھا جو بعد میں پی ٹی ایم کے نام سے مشہور ہوگیا۔
قبائلی اضلاع علاقے کو لینڈ مائنز سے پاک کیا جائے
نہ صرف مقامی تنظیمیں قبائلی اضلاع سے بارودی سرنگوں کے صفایا کا مطالبہ کرچکی ہیں بلکہ کئی اور لوگ بھی ہیں جو یہ مطالبہ کررہے ہیں۔ حال ہی میں پشاور ہائی کورٹ میں قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے پانچ وکلاء نے درخواست دی ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومت کو حکم دیا جائے کہ قبائلی اضلاع علاقے کو لینڈ مائنز سے پاک کیا جائے اور ان واقعات میں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ مالی امداد کی جائے۔
درخواست گزار وکیل سجاد احمد کے مطابق عدالت میں جمع کی گئی درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ قبائلی اضلاع اور بالخصوص جنوبی وزیرستان میں بارودی سرنگیں پھٹنے سے جاں بحق یا اپاہج افراد کے خاندانوں کے ساتھ مالی معاونت کی جائے اور ساتھ ہی علاقے میں شعور اُجاگر کرنے کیلئے سیمنارز اور ورکشاپس کا اہتمام کیاجائے۔
ان کا کہنا ہے کہ اُنکی معلومات کے مطابق گزشتہ 13 سالوں میں صرف جنوبی وزیرستان میں 178 واقعات میں 8 سو افراد ہاتھ سے جان دھو بیٹھے ہیں۔
ان واقعات میں 250 بچے اپاہج بن چکے ہیں، 77 افراد کی بینائی چلی گئی ہے جبکہ 4000 کے قریب جانور مرچکے ہیں۔
جب جمیلہ بی بی کے گھر پر جہاز سے بمباری ہوئی
نہ صرف باجوڑ دہشت گردی کی لپیٹ میں رہ چکا ہے بلکہ سابقہ فاٹا کے تمام اضلاع میں دہشت گردی کا دور گزر چکا ہے۔ ضلع کرم میں بھی افغان جنگ کے بعد اس وقت حالات خراب ہوئے جب وہاں افغان مہاجرین داخل ہوئے۔
ضلع کرم میں گزشتہ کئی سالوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ علی افضل افضال کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جنگ کے متاثرین کرم میں زیادہ تعداد میں اس لیے داخل ہوئے کیونکہ افغانستان کے تین صوبے اس ضلع سے منسلک ہے، شمال کی طرف صوبہ ننگرہار ہے، مغرب کی جانب صوبہ پکتیا ہے جبکہ جنوب کی جانب صوبہ خوست ہے جہاں سے افغان مہاجرین داخل ہوئے۔
علی افضل نے ٹی این این کو بتایا کہ اس دوران اکثر روس اور افغانستان کے جہازوں سے کھلونا نما بم نیچے پھینکے جاتے تھے جس سے کئی مقامی افراد یا تو جان کی بازی ہارگئے یا پھر معذور ہوگئے، اس کے علاوہ کرم میں شیعہ فسادات اور بدامنی کے باقی واقعات میں بھی 10 ہزار افراد معذور ہوچکے ہیں۔ ان کے مطابق لینڈ مائنز سے زیادہ متاثر ہونے والوں کا تعلق کرم اور باجوڑ سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2007 میں کرم میں شیعہ سنی فسادات کی وجہ سے بھی کافی حالات خراب ہوئے۔
ضلع کرم پاڑہ چنار سے تعلق رکھنے والی جمیلہ بی بی بھی انہیں افراد میں شامل ہیں جو اس وقت لاچاری زندگی گزار رہی ہیں، وہ کسی بارودی سرنگ کا نشانہ تو نہیں بنی تاہم اس کے گھر پر جہاز سے بمباری ہوئی تھی۔
45 سالہ جمیلہ بی بی اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس وقت ان کی عمر 12 سال تھی اور وہ اپنے گھر میں بیٹھی تھی کہ اس دوران جہاز سے بمباری ہوئی اور یوں لمحوں میں انکے گھر کا منظر کا بدل گیا، اس بمباری میں وہ خود اور اسے باقی گھر والے شدید زخمی ہوگئے اور اس کا گھر بھی ویرانے میں تبدیل ہوگیا۔
جمیلہ بی بی کہتی ہیں کہ بمباری میں اس کی بھابھی اور بھائی بھی زخمی ہوئے تھے اور وہ خود بھی زخمی ہوئی۔ ‘ اس بمباری نے مجھے سے میرا سب کچھ چھین لیا کیونکہ اس کے بعد میں اپاہج ہوگئی اب میں چل پھر نہیں سکتی اور یونہی چارپائی پہ پڑی ہوتی ہوں نہ کہیں جاسکتی ہوں نہ کچھ اور کرسکتی ہوں’
جمیلہ بی بی نے کہا کہ جب وہ کبھی بیمار ہوتی ہے تو انکو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ آنے جانے میں تکلیف ہوتی ہے اس کے علاوہ انکے گھر والے انکی دیکھ بھال کرتے ہیں جبکہ انہوں نے اس وجہ سے انکی شادی بھی نہیں ہوئی اور اکیلے زندگی گزار رہی ہے۔
جمیلہ بی بی نے کہا کہ ان کا خاندان غریب ہے جبکہ اس واقعے کے بعد حکومت نے انکے ساتھ کوئی مدد نہیں کی۔ بم دھماکوں اور باقی حادثات میں نقصان اٹھانے والے جمیلہ بی بی جیسے بہت سارے افراد ابھی حکومتی امداد سے محروم ہیں جس کے لیے مختلف لوگ آواز اٹھا رہے ہیں۔
اپاہج پکارنے سے خواتین کو ذہنی اذیت ملتی ہے
باردوی سرنگ کا نشانہ بننے والی خواتین جب اپاہج ہوتی ہیں یا پھر معذور ہوجاتی ہیں تو وہ معاشرے کے لوگوں کے روئیوں اور تنہائی کی وجہ سے ڈپریشن اور باقی ذہنی امراض میں بھی مبتلا ہوجاتی ہیں۔ کلینکل سائیکالوجسٹ عرشی ارباب کہتی ہیں کہ ایسی خواتین کو کچھ لوگ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں یا انکو ذہنی اذیت دیتے ہیں جس سے وہ نفسیاتی طور پر بہت متاثر ہوتی ہیں۔
عرشی ارباب نے بتایا کہ ایسی خواتین احساس کمتری کا شکار ہوجاتی ہیں اور ڈپریشن میں چلی جاتی ہیں اور وہ اکثر خودکشی کے بارے میں بھی سوچنے لگتی ہے کہ اس زندگی سے تو موت بہتر ہے۔
شادی نہ ہونے کے طعنے ملتے ہیں
عرشی ارباب کا کہنا ہے جن لڑکیوں کی شادی کسی معذوری کی وجہ سے نہیں ہوتی تو انکے الگ مسائل ہوتے ہیں، ایسی لڑکیوں کو بھابیوں کی جانب سے ہر وقت طعنے سننے کو ملتے ہیں کہ ہمارے شوہر کا کھاتی ہو جس سے وہ ڈپریشن اور باقی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت ان خواتین کے لیے کوئی عملی کام نہیں کررہی، سب سے پہلے انکو تعلیم دینے کی ضرورت ہے جس کے بعد وہ اس قابل ہوسکتی ہیں کہ معذوری کے ساتھ وہ کوئی نوکری کرسکے اور اپنا بوجھ خود اٹھا سکیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ایسی لڑکیوں کے لیے کوئی دستکاری سنٹر بنائے جہاں ایسی لڑکیوں اور خواتین کو سلائی کڑھائی، میک اپ اور باقی چیزیں سکھائی جائے اور پھر انکو قرضے بھی مہیا کئے جائے کہ وہ اس سے اپنا چھوٹا موٹا کام شروع کرسکیں۔
قبائلی اضلاع میں ذہنی علاج کا تصور تک نہیں
عرشی ارباب نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں ذہنی امراض کا علاج تو کوئی کرتا ہی نہیں ہے کیونکہ انکو لگتا ہے کہ اس پہ جن آگئے ہیں اور دم وغیرہ کروا دیتے ہیں اور یوں جو خواتین ذہنی امراض میں مبتلا ہوتی ہیں وہ ٹھیک ہونے کی بجائے مزید بگڑ جاتی ہیں۔
ماہر سماجیات ظفرخان کے مطابق ہمارے معاشرے میں خواتین پہلے ہی سے اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں اور پھر جب وہ معذور ہوجاتی ہیں تو انکی مشکلات میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں مردوں کو برتری حاصل ہے خواتین پر۔
معذور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے
ظفرخان نے کہا کہ اس کے علاوہ ہمارے معاشرے میں لوگوں کی ایسی تربیت نہیں ہوئی جس سے وہ ان لوگوں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آئے بلکہ ایسا ہوتا ہے کہ عموما ایسے لوگ معاشی لحاظ سے معاشرے پر بوجھ سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایسی خواتین کے ساتھ پھر گھر سے لے کر معاشرے کی سطح تک امتیازی سلوک کیا جاتا ہے نہ ہی گھر میں انکو خاص توجہ ملتی ہے اور نہ ہی معاشرے کی جانب اور یوں یہ لوگ مختلف مسائل سے دوچار ہوجاتے ہیں۔
سوشیالوجسٹ نے کہا کہ حکومتی سطح پر ایسے لوگوں کے لیے کوئی خاص ادارے موجود نہیں ہے کہ جہاں پر ان خواتین کو کارآمد شہری بنایا جاسکے البتہ کچھ غیرسرکاری ادارے ایسے ہیں جو قبائلی اضلاع میں کام کررہے ہیں لیکن ان اداروں کو بھی سکیورٹی اور باقی وجوہات کی وجہ سے کام کرنے میں مشکلات پیش آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے چاہے وہ ہنر کے لحاظ سے ہو یا پھر سماجی روئیوں کے حوالے سے ہو تاکہ یہ لوگ خود کو تنہا محسوس نہ کریں۔
جنوبی وزیرستان میں لینڈ مائنز سے متاثرہ خواتین کس حال میں ہیں؟
صحافی رضیہ محسود جو جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھتی ہیں کا کہنا ہے کہ ان کا علاقہ پہاڑی ہے جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے اور خواتین پہلے ہی سے مشکل سے زندگی گزار رہی ہیں کیونکہ پانی وہ سروں پر دور دراز کے علاقوں سے لاتی ہیں اس کے علاوہ جلانے کے لیے لکڑیاں بھی پہاڑوں سے لاتی ہیں ایسے میں اگر کوئی خاتون لینڈ مائن کا شکار ہوجائے تو اسکی زندگی مزید مشکل ہوجاتی ہے۔
جنوبی وزیرستان میں ایسی خواتین کا احوال بتاتے ہوئے رضیہ نے کہا کہ وہ ایسی خاتون کو جانتی ہیں جو بارودی سرنگ کا شکار ہوئی، خاتون کا خاوند پہلے سے چارپائی پر پڑا ہے اور اس کے بچے ابھی چھوٹے ہیں وہ نہیں کرسکتے کہ گھر کو سنبھال سکیں اور ایسے میں وہ خود بھی لینڈ مائن کا شکار ہوگئی تو اس کی زندگی بہت ہی مشکل ہوگئی ہے اسے سمجھ نہیں آتی کہ کیسے گھر کو اور خود کو سنبھالے، وہ کانٹوں پر جی رہی ہے۔
ایک دوسری لڑکی کا واقعہ سناتے ہوئے رضیہ محسود کہتی ہیں کہ سائرہ نامی ایک لڑکی لینڈ مائن کا شکار ہوئی جس سے وہ خود بھی انٹرویو لے چکی ہیں، رضیہ محسود کے مطابق دھماکے میں نہ صرف وہ لڑکی اپنے ہاتھوں سے معذور ہوئی بلکہ اس کا سارا چہرہ خراب ہوگیا ہے اس کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی ہے اور وہ بہت تکلیف میں ہے۔
ظفرخان سے اتفاق کرتے ہوئے رضیہ محسود کہتی ہیں کہ ایسی خواتین کے لیے روزگار کا بندوبست کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس سے کم از کم انکے معاشی مسائل حل ہو جائیں گے۔
لینڈ مائن کی شکار خواتین کے مسائل ایک طرف لیکن ان کے لیے پیراپلیجک سنٹرز امید کی ایک کرن ہے۔ مدینہ بی بی کا کہنا ہے انکے مشکلات کو دیکھتے ہوئے انکے گھر والے انکو پیراپیلیجک سنٹر حیات آباد لے آئے جہاں انکو مصنوعی ٹانگ لگائی گئی، اب گھر میں تھوڑا گھومتی پھرتی ہے اور مکمل طور پر خودمختار تو نہیں ہوئی لیکن زندگی کی طرف واپس ضرور آئی ہے تاہم حکومتی سرپرستی سے ہی انکے مسائل میں کمی آسکتی ہے۔