وہ سال جب ایک بھی مسلمان حج نا کر سکا
مولانا خانزیب
مرآۃ الزمان میں 321ھ ۔ 330ھ۔ 331ھ کے حج کے بارے میں ان لوگوں کی گفتگو ذکر کی گئی ہے جنہوں نے کہا کہ ان سالوں میں بھی حج نہیں ہوا لیکن ساتھ ہی اس گفتگو کے ضعف کی طرف اشارہ بھی کیا ہے اور اس بات کی تصریح بھی کی کہ ان سالوں میں حج اداء کیا گیا تھا۔ یونہی 338ھ کے بارے میں دونوں قسم کے اقوال ذکر کیے۔ حافظ ذہبی نے 335ھ اور 337ھ کے بارے میں صاف الفاظ میں کہا: ولم يحج أحد۔ یعنی ان دو سالوں میں کسی نے حج نہیں کیا۔
لیکن 335ھ سے 339ھ تک کے تمام سالوں کے بارے میں اتحاف الوری اور شفاء الغرام وغیرھما میں ہے؛ وحج بالناس في سنة خمس وثلاثين، وست وثلاثين، وسبع وثلاثين، وثمان وثلاثين، وتسع وثلاثين، عمر بن يحيى العلوي۔ یعنی (تین سو) پینتیس، چھتیس، سینتیس، اڑتیس، انتالیس میں عمر بن یحیی علوی نے لوگوں کو حج اداء کروایا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی ایک مؤرخ کا کوئی ایک مجمل جملہ لے کر یہ زور دینا کہ فلاں فلاں سالوں میں حج بالکلیہ معطل رہا بالکل نامناسب ہے اور تاریخی بھول ہے۔
فریضہ حج عظیم شعائرِ اسلام سے ہے، اس کا تعطل معمولی بات نہیں کہ اس سلسلے میں ہر کس و ناکس کی بات پر کان دھرے جائیں۔ بلکہ اگر تاریخی حقائق سے ایسا ثابت ہو بھی جائے کہ فلاں فلاں سالوں میں فریضہ حج معطل رہا تو اس سے یہ بات کہاں سے ثابت ہو جائے گی کہ حج کی معطلی جائز بھی ہے۔
تاریخی اعتبار سے حجاج کے لیے 317ھ جیسا کٹھن سال کبھی نہ آیا۔ بدبخت قرامطہ کی جانب سے 7 یا 8 ذو الحجہ کو حجاج کرام پر حملہ ہوتا ہے، مسجدِ حرام کی حرمتوں کی پامالی کی جاتی ہے، ہزاروں لوگ مکہ کی گلیوں اور عین مسجدِ حرام میں شہید کئے جاتے ہیں، اندازاً تیس ہزار تک شہید ہوتے ہیں، مقتولین کو چاہِ زمزم میں ڈال دیا جاتا ہے، میزابِ رحمت اکھاڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، بابِ کعبہ اکھاڑ دیا جاتا ہے، غلافِ کعبہ اتار کر اس کے ٹکڑے کر دیے جاتے ہیں، حجرِ اسود نکال کر بحرین لے جایا جاتا ہے، آیاتِ الہیہ کا مذاق اڑایا جاتا ہے، مسجدِ حرام کی حرمتوں کی ایسی پامالی کی جاتی ہے کہ کبھی یہود ونصاری کی طرف سے نہ ہوئی۔
تاریخ کے اوراق میں صرف یہی ایک سال ایسا ملتا ہے جس کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے کہ شاید اس سال حج کی ادائیگی مکمل طور پر معطل رہی ہو گی۔ حتی کہ شفاء الغرام میں بھی ھے: ولم يقف أحد تلك السنة بعرفة، ولا وافى نسكا۔ اس سال کسی شخص نے نہ تو وقوفِ عرفات کیا اور نہ ہی افعالِ حج میں سے کوئی فعل اداء کیا۔ التاريخ المعتبر میں ہے: فلم يحج أحد سنة سبع عشرة وثلاث مئه۔ تین سو سترہ میں کسی نے حج نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں:
100 خوش نصیب پاکستانی اور 1984 کا شاہی حج
حج سے پہلے عید منانا جائز یا ناجائز، علماء کی رائے بٹ گئی
اسلامی حج کی تاریخ میں یہی ایک ایسا سال آیا جس کے بارے میں یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس سال مکمل طور پر حج موقوف رہا ہو گا، ورنہ وباء کا اندیشہ، دشمن کا خوف، اسلامی حکومتوں کے باہمی تنازعات اور دیگر اسی قسم کے امور حجاج کی تعداد پر تو اثر انداز ہوتے رہے لیکن حج کا ایقافِ کلی یعنی مکمل تعطل کبھی بھی نہیں ہوا۔
لیکن قرامطہ کا یہ سانحہ چونکہ عین ایامِ حج میں مسجدِ حرام کے اندر ہوا اور قرامطہ کا حملہ حاجیوں پر ہی تھا اور ان بدبختوں کا مقصد حج ہی کو روکنا تھا۔ اس لیے اس سال کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے کہ اس سال حج مکمل طور پر معطل ہوا ہو گا لیکن اس ایک سال کے علاوہ کسی دوسرے سال کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مسعودی نے التنبيه والإشراف میں کہا: ولم يبطل الحج منذ كان الإسلام غير تلك السنة۔ جب سے اسلام کی روشنی نمودار ہوئی، اس سال یعنی 317ھ کے علاوہ کبھی حج نہ رکا۔
سنہ 1831 میں بھارت سے ایک وباء کا آغاز ہوا جس نے مکہ میں تقریباً تین چوتھائی زائرین کو شہید کر دیا تھا۔ یہ لوگ کئی ماہ کا خطرناک سفر کر کے حج کیلئے مکہ آئے تھے۔ سنہ 1837 سے لے کر 1858 تک، ان دو دہائیوں میں 3 مرتبہ حج باھر کی دنیا کیلئے منسوخ ہوا جس کی وجہ سے زائرین مکہ کی جانب سفر نہ کر سکے۔ سنہ 1846 میں مکہ میں ہیضے کی وباء سے تقریباً 15 ہزار افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ یہ وباء مکہ میں سنہ 1850 تک پھیلتی رہی لیکن اس کے بعد بھی کبھی کبھار اس سے اموات ہوتی رہیں۔ رہزنی کا خوف اور حج کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے سبب سنہ 390 ہجری میں مصر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حج اخراجات میں بے پناہ اضافے کے باعث مسلمان فریضہ حج سے محروم رہے، اس کے علاوہ 430 ہجری میں عراق اور خراساں سے لے کر شام اور مصر کے لوگ حج پر نہ جا سکے تھے۔
سنہ 492 ہجری میں اسلامی دنیا میں جاری آپسی جنگوں کے باعث فریضۂ حج متاثر ہوا جبکہ 654 ہجری سے لے کر 658 ہجری تک حجاز کے علاوہ کسی اور ملک سے حاجی مکہ نہیں پہنچے۔ اس کے علاوہ 1213 ہجری میں فرانسیسی انقلاب کے دوران حج کے قافلوں کو تحفظ اور سلامتی کے باعث روک دیا گیا۔ سنہ 417 ہجری کو عراق میں شدید سردی اور سیلابوں کی وجہ سے زائرین مکہ کا سفر نہ کر سکے۔ اس طرح شدید سرد موسم کی وجہ سے حج کو منسوخ کرنا پڑا تھا۔
سنہ 1344 ہجری میں خانہ کعبہ کے غلاف، کسوہ کو مصر سے سعودی عرب لے جانے والے قافلے پر حملہ ہوا اور اس وجہ سے مصر کا کوئی حاجی بھی خانہ کعبہ نہ جا سکا۔ واضح رہے کہ 1932 میں سعودی عرب کے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک باھر کی دنیا کے مسلمانوں کیلئے خانہ کعبہ میں حج کبھی نہیں رکا یہ سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔
اقوام عالم کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ خانہ کعبہ اور حرم شریف اس سے پہلے بھی قدرتی سانحات سے متاثر ہوتے رہے ہیں۔ طوفان نوح کی وجہ سے سیدنا آدم علیہ السلام کی بنائی ہوئی بیت اللہ کی بنیادیں بھی غرق آب ہو گئیں۔ پانی کے ریلے نے خانہ کعبہ کی جگہ ریت اور مٹی اکٹھی کر دی۔ ریت اور مٹی کا یہی انبار بعد میں ایک ابھر ے ہوئے سرخ ٹیلے کی شکل میں مرجع عوام بن گیا۔ مظلوم اور بیمار لوگ اس ٹیلے پر آ کر دعا کرتے، حج کیلئے بھی لوگ اس ٹیلے پر آتے۔ یہ عمل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کعبہ تک جاری رہا۔
طوفان نوح کے بعد خانہ کعبہ کئی دفعہ بارشوں کے پانی اور سیلابی ریلوں کی زد میں آیا، یہاں تک بھی ہوا کہ کعبے کا چوتھا حصہ پانی میں ڈوب گیا۔ حجاج بن یوسف کی فوج نے خانہ کعبہ پر سنگ باری کی، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو یہاں محاصرے میں شہید کیا۔
کعبہ کی موجودہ تعمیر 1040 ہجری میں سلطان مراد عثمان کے دور میں ہوئی ہے جب مکہ میں ایک بڑا سیلاب آیا تھا اور اس میں کعبہ کی آبادی بھی گر گئی تھی۔ یہ تعمیر 966 سال بعد کی گئی تھی اور یہ آج تک برقرار ہے جو جاہلیت کے زمانے کے طرزِ تعمیر پر ہے۔
کعبہ کی دیواروں میں مجموعی طور پر 1614 پتھر لگائے گئے ہیں جن میں 419 باب کعبہ والی مشرقی دیوار میں 449، عقبی غربی دیوار میں 318، شمالی میزابی دیوار میں 428 جنوبی دیوار میں لگائے گئے ہیں۔ ان میں سے اکثر پتھروں کی موٹائی 90 سنٹی میٹر کے قریب ہے۔
بحرین سے قرامطہ آئے اور حجر اسود نکال کر لے گئے۔ بیس سال سے زائد عرصے تک کعبہ کا طواف حجر اسود کے بغیر ہوا۔ سن چونسٹھ ہجری میں حصین ابن نمیر کندی کے عبد اللہ ابن زبیر کیساتھ لڑائی کے دوران بیت اللہ پر سنگ باری کی وجہ سے حجر اسود تین تکڑے ہوا تھا جسکو چاندی کی مدد سے مرمت کیا گیا تھا۔ 363 ہجری میں ایک رومی شخص نے حجر اسود کو معمولی سا نقصان پہنچایا تھا ۔ 413 ہجری میں ایک مصری شخص نے حجر اسود پر مضبار سے ضربیں لگائی تھی جس وہ کئ تکڑے ہوا تھا۔ 990 ہجری میں ایک عراقی نے حجر اسود کو تھوڑا تھا۔ 1351 ہجری میں ایک افغانی نے حجر اسود سے ایک تکڑا تھوڑا تھا وہ اسے حج کے بعد اپنے ساتھ بطور تبرک لانا چاھتا مگر اسکو دیکھ لیا گیا اور ان سے وہ ٹکڑا واپس کرکے حجر اسود کیساتھ دوبارہ جوڑا گیا تھا۔
تاریخ ابن خلدون میں ہے کہ اموی جرنیل حصین بن نمیر نے کوہ ابو قبیس اور کوہ قیقعان پر منجنیقین نصب کر کے خانہ کعبہ پر سنگ باری کی۔ سنگ باری اتنی شدید تھی کہ کوئی شخص طواف نہ کرسکا۔ اس حملے میں خانہ کعبہ کی چھت اور پردے بھی جل گئے ۔ لڑائی جاری تھی کہ یزید مر گیا۔ اسکی موت کی خبر جب عبداللہ بن زبیر کو ملی توانہوںنے پکار کر کہا۔ ارے کم بختو اے عدواللہ!اب تم کیوں لڑ رہے ہو تمہارا گمراہ سردار تو مر گیا یہ لڑائی کوئی سات ماہ چلی تھی جبکہ حج کے دوران لڑائی روک دی گئی تھی۔
قرامطہ کی کعبہ پر چڑھا کی روداد یہ ہے کہ 929ء 217 ہجری میں قرامطہ شیعہ فرقے کے پیروکار ابو طاہر سلیمان بن الحسن نے ایک لشکر جرار کے ساتھ مکہ پر چڑھائی کی اور حرم شریف میں داخل ہو کر قتل عام شروع کر دیا۔ ابو طاہر قرامطہ فرقے کے بانی”ابو سعید کا بھائی تھا۔اس قتل عام میں مکہ شہر اور گرد ونواح میں تیس ہزار افرادشہید کئے گئے ۔جن میں طواف کرنیوالے سات سو افراد بھی شامل تھے۔بحرین کے شہر ہجر سے آنیوالے قرامطہ حجر اسود نکال کر ساتھ لے گئے۔ تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ بیس سال سے زائد عرصے تک کعبہ کا طواف حجر اسود کے بغیر ہوا۔ابو طاہر نے مکہ کا راستہ بھی بند کرنے کی کوشش کی تا کہ عازمین حج وہاں جانے کی بجائے ہجر آئیں لیکن اسے کامیابی نہ ہوئی۔
کعبہ کی حالیہ تاریخ ماضی قریب میں بھی ایک المناک سانحہ پیش آیا۔ کعبہ شریف پر مرتدین کا قبضہ ہو جانے کی وجہ سے چودہ دن تک طواف معطل رہا اس عرصے میں حرم کعبہ کے در و دیوار اذان اور جماعت کی سعادت سے محروم رہے۔ یکم محرم الحرام مطابق 20 نومبر 1979ء منگل کی صبح امام حرم شیخ عبد اللہ بن سبیل نے نماز فجر کا سلام پھیرا ہی تھا کہ چند آدمیوں نے امام صاحب کو گھیرے میں لے لیا ان میں سے کچھ لائوڈ سپیکر پر قابض ہو گئے اس وقت حرم شریف میں ایک لاکھ کے قریب نمازی موجود تھے۔ ان حملہ آوروں کا سرغنہ 27 سالہ محمد بن عبد اللہ قحطانی تھا جس نے چار سال تک مکہ یونیورسٹی میں اسلامی قانون کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کا دست راست جہیمان بن سیف العتیبہ تھا۔ ان لوگوں نے بڑی باریک بینی سے پلاننگ کر کے جنازوں کا بہروپ بنا کر چارپائیوں کے ذریعے اسلحہ کی بڑی مقدار تہہ خانوں میں جمع کر لی تھی۔
جب تمام تیاریاں مکمل ہو گئیں تو اچانک حرم کے تمام دروازے بند کر کے ان پر اپنے مسلح افراد کھڑے کر دئیے۔ایک آدمی نے عربی میں اعلان کیا کہ مہدی موعود جس کا نام محمد بن عبدا للہ ہے آ چکا ہے۔نام نہاد مہدی نے بھی مائیک پر اعلان کیا کہ میں نئی صدی کا مہدی ہوں میرے ہاتھ پر سب لوگ بیعت کرینگے۔اس گمراہ ٹولے نے مقام ابراہیم کے پاس جا کر گولیوں اور سنگینوں کے سائے میں لوگوں کو دھمکاتے ہوئے بیعت شروع کروا دی۔
سعودی فرمانروا شاہ خالد نے 32 علماء پر مشتمل سپریم کونسل کا اجلاس فوری طور پر طلب کر لیا۔ علماء کرام نے قرآن اور حدیث کی روشنی میں متفقہ طور پر فیصلہ دیا کہ مسلح گمراہ افراد کیخلاف کارروائی شریعت کے عین مطابق ہے۔ اس فتوے کی روشنی میں بیت اللہ کے تقدس کے پیش نظر بھاری اسلحہ استعمال کرنے سے گریز کیا گیا۔ مرتدین کا مکمل صفایا کرنے کے بعد 7 دسمبر 1979ء کو دوبارہ حرم شریف کو عبادت کیلئے کھولا گیا۔ اس لڑائی میں 75 باغی مارے گئے اور سعودی نیشنل گارڈز کے 60 فوجی شہید ہوئے۔ چار پاکستانیوں سمیت 26 حاجی شہید اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ مرتدین کی بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا۔سزائے موت پانے والے مرتدین میں 41 سعودی عرب، 10 مصر، 6 جنوبی یمن، 3 کویت سے جبکہ عراق ، سوڈان اور شمالی یمن کا ایک ایک مرتد شامل تھا۔
شاہ عبدالعزیز فاؤنڈیشن برائے تحقیق و آرکائیوز (درہ) کے ذریعے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق حج میں پہلی بار تعطل اس وقت ہوا جب 930 عیسوی 327 ہجری میں خلافت عباسی کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے سات اماموں کو ماننے والی اسماعیلی شیعہ اسلام کی قرامطہ شاخ نے حج کے آٹھویں دن حاجیوں پر حملہ کر دیا۔
اس رپورٹ کے مطابق قرمطیان نے جو اس بات پر قائل ہو گئے تھے کہ حج بت پرستی کا عمل ہے، 30 ہزار سے زیادہ حجاج کو شہید کر دیا، لاشوں سے چاہِ زمزم کی بے حرمتی کی اور حجرِ اسود لے کر اپنے دارالحکومت (موجودہ دور کے قطیف) فرار ہو گئے۔
حجر اسود ان کے ساتھ بیس سال پڑا رھا اور پھر 339 ہجری کو مسلمانوں نے ایک باری رقم دیکر حجر اسود کو ان سے صحیح سلامت واپس لیکر کعبہ کے ساتھ دوبارہ نصب کیا۔ اس خونی حملے کی وجہ سے آئندہ 10 سال تک حج جزوی طور پر ادا ہوتا رہا۔
حج کی ادائیگی میں دوسرا خلل 968 عیسوی میں ہوا۔ علامہ ابن کثیر کی کتاب ’البدایہ والنھایہ‘ کے مطابق مکہ میں ایک بیماری پھیل گئی جس نے بہت سے حجاج کرام کی جان لے لی ہے۔ اسی دوران حاجیوں کو مکہ لے کر جانے کے لیے استعمال ہونے والے بہت سے اونٹ بھی پانی کی قلت کے باعث ہلاک ہو گئے۔ بہت سے لوگ جو بچ کر مکہ مکرمہ پہنچ بھی گئے تھے وہ حج کے بعد زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکے۔ اس برس جو افراد مکہ حج کرنے آئے تھے ان میں بڑی تعداد مصری باشندوں کی تھی تھے لیکن 1000 عیسوی میں وہ اس سفر کے متحمل نہیں ہو سکے کیونکہ اس سال مصر میں مہنگائی بہت زیادہ تھی۔ اس مہنگائی کی وجہ سے 29 سال بعد بھی مشرق یا مصر سے کوئی حاجی حج کے لیے نہیں آیا۔ 1030 عیسوی میں صرف چند عراقی زائرین ہی حج ادا کرنے مکہ مکرمہ پہنچے۔
اس واقعے کے نو سال بعد عراقی مصری، وسط ایشیائی اور شمالی عربی مسلمان حج کرنے سے قاصر رہے۔ شاہ عبد العزیز یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے سربراہ ڈاکٹر عماد طاہر کے مطابق اس کی وجہ سیاسی بدامنی اور فرقہ وارانہ کشیدگی تھی۔
اسی طرح 1099 میں بھی جنگوں کے نتیجے میں پوری مسلم دنیا میں خوف اور عدم تحفظ کی وجہ سے حج کی ادائیگی عالمی سطح پر نہ کی جا سکی۔ سنہ 1099 میں صلیبی جنگجوؤں کے یروشلم پر قبضے سے پانچ برس قبل، خطۂ عرب میں مسلمان رہنماؤں میں اتحاد کے فقدان کے باعث مسلمان باھر کی دنیا سے حج ادا کرنے مکہ نہ آ سکے۔ سنہ 1168 میں مصریوں اور کرد کمانڈر اسد الدین (جو زنکیون حکومت کا دائرہِ کار مصر تک پھیلانا چاہتے تھے) کے درمیان تنازعے کی وجہ سے مصری مسلمانوں کو حج کی اجازت نہ مل سکی۔
13ویں صدی میں بھی حج ایک بار پھر تعطل کا شکار ہوا اور 1256 سے 1260 کے دوران کوئی بھی شخص حج کی ادا نہ کر سکا۔ سنہ 1798 سے 1801 کے دوران فرانسیسی لیڈر نیپولین بوناپارٹ نے مصر اور شام کے علاقوں میں فوجی کارروائیاں کیں جن کی وجہ سے مکہ کے راستے زائرین کے لیے غیر محفوظ ہو گئے۔
مصری مصنف ہانی نصیرہ کہتے ہیں کہ اگر کورونا کا مرض دنیا میں یونہی بڑھتا رہا تو اس سال بھی حج کی ادائیگی روکنے کا فیصلہ غیر متوقع نہیں ہوگا اور ایسا ہی کیا گیا۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا اگر یہ فیصلہ کرنا پڑا تو یہ فیصلہ دانائی پر مبنی ہوگا اور شریعتِ اسلامی کے عین مطابق بھی ہوگا جس کا بنیادی مقصد عوام الناس کی حفاظت ہے کیونکہ حج ایک عالمی عبادت ھے اور اس میں بیماری کے پھیلاؤ کے امکانات بہت زیادہ ہوسکتے ہیں۔
انھوں نے کہا قرآنِ پاک میں اللہ کا فرمان ہے کہ خود کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ اور پیغمبرِ اسلام نے بھی اپنے صحابہ کو وباؤں سے خبردار کیا ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف نے کہا ہے کہ حضرت محمد ص نے فرمایا تھا کہ اگر آپ کسی جگہ طاعون پھیلنے کی خبر سنیں تو وہاں داخل نہ ہوں۔ لیکن اگر یہ وبا کسی جگہ پر پھیل جاتی ہے جہاں آپ موجود ہیں تو اس جگہ کو نہ چھوڑیں۔
ان کے مطابق یہ حدیث طاعون سے بچنے کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔مصری ماہر تعلیم ہانی ناصرہ کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 پھیلنے سے پوری دنیا میں لاکھوں افراد کی جانیں چلی گئیں اور ان میں کمی کی کوئی علامت نظر نہیں رہی۔پوری دنیا کورونا وائرس کے تیز پھیلاؤ سے دوچار ہے جس نے ہر جگہ لوگوں کے دلوں میں وہ خوف بھر دیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔
ان کے بقول سائنسدانوں کو اس وائرس کے بارے میں بہت کم معلومات حاصل ہونے کی وجہ سے اس کا علاج جلد سامنے آنے کا امکان نہیں ہے، لہذا اس صورتِ حال کا جاری رہنا لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لیے حج کو معطل کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔
نصیرہ نے اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کروائی کہ کچھ مسلمان ممالک میں جن میں ایران اور ترکی شامل ہیں، وبا نے بہت زیادہ تعداد میں زندگیاں ختم کر دی ہیں۔ انہوں نے کہا ہم جلتی پر تیل نہیں چھڑکنا چاہتے، یہ غیر منطقی ہے اور اسلام کبھی بھی اسے قبول یا منظور نہیں کرتا، اگر میں مفتی ہوتا تو معطل کرنے کا مطالبہ کر دیتا۔
اسلامی علوم کے محقق احمد الغامدی نے اس بات کی نشاندہی کی کہ حج ایک محدود فرض نہیں ہے۔ انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ حج کی ادائیگی کسی خاص وقت تک محدود نہیں ہے، ایک بالغ مسلمان ہوش مندی کی عمر میں پہنچ جانے کے بعد جب بھی چاہے حج کر سکتا ہے۔
الغامدی نے، جو حدیث اور اسلامی علوم میں ماہر ہیں، کہا ہے کہ مثال کے طور پر حضرت محمدؐ نے پہلے سال حج نہیں کیا تھا جب حج فرض ہو چکا تھا بلکہ انہوں نے ایک سال بعد حج ادا کیا۔
نصیرہ کی طرح ان کا بھی کہنا ہے کہ اسلامی شریعت عوامی مفاد اور فلاح و بہبود کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ الغامدی نے کہا کہ شدید ضرورت کی صورت میں جیسے کورونا وائرس کا پھیلاؤ، سیاسی وجوہات یا حفاظتی مجبوریوں کی وجہ سے حج کو معطل کیا جا سکتا ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں ہے، ”خدا تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم خود کو خطرے میں نہ ڈالیں۔”
الغامدی نے مزید کہا کہ حج کی بنیاد استدلال اور منطق پر رکھی گئی ہے لہذا اگر صحت کے ذمہ دار حکام کو معلوم ہو کہ کوئی متعدی بیماری موت کا سبب بن سکتی ہے تو لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ حج سے زیادہ ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی شریعت میں اس استدلال میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔
نوٹ: اس سلسلے کا پہلا حصہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔