کیا کورونا وباء فریضہ حج کی ادائیگی میں پہلی رکاوٹ ہے؟
مولانا خانزیب
امسال پوری دنیا ایک عالمی وباء کی زد میں آئی ہے جس نے انسانی سماج سے متعلق ہر چیز کو متاثر کیا خواہ وہ دنیاوی معاملات ہوں یا مذہبی عبادات، اسلامی عبادات کے حوالے سے سب اھم عبادت حج بھی ان اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکا ہے۔ حج پر جانا اور مکہ مدینہ کے مقامات مقدسہ کی زیارت کرنا ہر مسلمان کی ایک دلی آرزو ہوتی ہے۔
پہلے زمانے میں جب ذرائع آمدورفت انتہائی پسماندہ تھے تو بہت کم لوگ، سمندر، پیدل یا اونٹ کی سواری کے ذریعے حج کیلئے پہنچ جاتے تھے مگر جب بیسویں صدی میں گاڑی اور ہوائی جہاز آئے تو پوری دنیا سے حج کیلئے مسلمانوں کا اژدھام بن گیا، اس انتہائی رش کو قابو کرنے اور لوگوں کی تعداد پوری دنیا سے ایک محدود انداز میں لانے کیلئے سعودی حکومت نے ہر ملک کیلئے مخصوص کوٹہ سسٹم متعارف کرایا جس میں ہر ملک سے ایک محدود تعداد میں ہر سال حجاج جاتے ہیں مگر اس سال سعودی عرب کے علاوہ باقی دنیا سے مسلمان فریضہ حج ادا نہیں کر سکیں گے۔
یہ سوال دنیا بھر میں بسنے والے لاکھوں مسلمانوں کے ذہنوں میں اس وقت سے بھی پہلے موجود تھا جب سعودی عرب کی جانب سے مسلمانوں سے سرکاری طور پر کہا گیا کہ وہ رواں سال جولائی میں اس فرض کی ادائیگی کے منصوبے کو روک کر رکھیں۔
سعودیہ کے وزیر برائے امورِ عمرہ اور حج ڈاکٹر محمد صالح بن طاہر نے 31 مارچ کو سرکاری ٹی وی ‘الاخباریہ’ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے دنیا بھر میں اپنے مسلمان بھائیوں سے کہا ہے کہ صورتِ حال واضح ہونے تک حج کی تیاریاں روک دیں اور پھر بعد میں سعودی عرب کے علاوہ باقی دنیا کے مسلمانوں سے اس سال حج پر نہ آنے کا باضابطہ طور پر کہہ دیا گیا۔ یہ الفاظ فوراً ہی دنیا بھر میں بہت غور سے سنے گئے اور ان پر گفتگو بھی ہوتی رہی۔
سعودی وزیرِ عمرہ و حج کے بقول ہم نے دنیا سے کہا ہے کہ حجاجِ کرام کی حفاظت اور صحتِ عامہ کو مدِنظر رکھتے ہوئے حج گروپ اس سال نہیں آ سکتے۔ سعودی عرب کی وزارت صحت نے مکہ اور مدینہ میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں۔ پھر بھی ان دونوں مقدس شہروں میں اب تک کورونا کے کافی زیادہ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
سعودی حکومت کی جانب سے گذشتہ ماہ تا اطلاعِ ثانی عمرہ معطل کر دیا گیا تھا، تمام بین الاقوامی پروازوں کو غیرمعینہ مدت کے لیے روک دیا گیا تھا اور مکہ اور مدینہ سمیت متعدد شہروں میں آنے اور جانے پابندی لگا دی گئی تھی۔
اس پس منظر میں حج کو معطل کرنے کا فیصلہ ناگزیر اور غیر معمولی لگ سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حج کی تاریخ کے حوالے سے یہ کوئی انہونی نہیں ہے نہ ہی پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے البتہ اس موجودہ صدی میں یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے اس لئے کچھ مسلمانوں کو اپنی عقیدت کی وجہ سے ذہنی کوفت بھی پہنچی ہے حالانکہ گذشتہ صدیوں کے دوران ایسے حالات کے باعث جو حج کا انتظام کرنے والوں کے اختیار سے باہر تھے، حج کی ادائیگی میں جزوی خلل اور رکاوٹ پہلے بھی کئی بار پڑی ہے جن میں سے ایک خللل وباؤں کی وجہ سے بھی آیا جبکہ دیگر رکاوٹوں میں جنگوں اور راستوں کی بدامنی وغیرہ شامل ہیں۔
فتح مکہ اور فرضیتِ حج کے بعد سب سے پہلے جناب عتاب بن اسید کو امیرِ حج بننے کا شرف ملا۔ نویں سالِ ہجرت حضرت ابو بکر صدیق اور دسویں سالِ ہجرت خود رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حج کی ادائیگی کے لیے تشریف لائے جسے حجۃ الوداع کا نام دیا جاتا ہے یعنی حج فقھاء کے نزدیک کوئی فی الفور فریضہ نہیں ہے بلکہ عمر میں وسائل و استطاعت کے ہوتے ہوئے صرف ایک بار فرض ہے، اگر اس سال نہیں تو انشاءاللہ اگلے سال لوگ جائیں گے مگر جان کی امان سب سے اولین شرط ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے وصال کے بعد عالمِ اسلام کے حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہے۔ دوسری قوموں کی طرح اتار چڑھاؤ تاریخِ اسلام کا حصہ رہے، ان ادوار میں مسلمانوں نے خود ایک دوسرےکو اقتدار کی کرسی کی خاطر خون میں نہلایا ہے، یہ سب کچھ سن تیس ہجری کے بعد ہوتا رہا جب خلافت کی جگہ ملوکیت نے لے لی۔ لیکن حالات کیسے ہی ناسازگار کیوں نہ ہوئے، فریضہ حج عملِ پیہم کی طرح ہر حالت میں برقرار رہا۔
حالات کی سنگینیوں کے سبب بارہا ایسا ہوا کہ کبھی شام والے فریضہ حج کی ادائیگی سے محروم ہو گئے تو کبھی عراق والے، کبھی خراسان والوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو کبھی مصری اور ھندوستانی حرمینِ طیبین کی زیارت سے محروم کئے گئے۔ کبھی اہلِ مشرق اس سعادت کو پانے میں ناکام رہے تو کبھی یہ حرماں نصیبی اہلِ بغداد کے حصے میں آتی رہی لیکن کبھی ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ فریضہ حج مکمل طور پر معطل ہوا ہو اور کسی ایک شخص نے بھی حج اداء نہ کیا ہو، صرف ایک سال 317 ہجری جب قرامطہ حج کے دوران کعبہ پر حملہ آور ہوتے ہیں، تاریخی حوالوں سے کچھ حد تک یہ ممکن لگ رہا ہے کہ صرف اسی سال حج موقوف ہوا تھا: کتبِ تاریخ میں کئی جگہ یہ جملہ ملتا ہے کہ ” کسی نے اس سال حج نہیں کیا۔
لیکن بالعموم یہ جملہ مجمل ہوتا ہے اور دیگر کتبِ تاریخ اور بعض اوقات وہی مصنف کسی دوسری جگہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہہ دیتا ہے کہ عراق والوں میں سے کسی نے اس سال حج نہیں کیا یا مصر والوں میں سے کسی نے اس سال حج نہیں کیا یعنی یہ ایک جزوی اجمال ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ جملہ محض وہم پر مبنی ہوتا ہے جس کا ازالہ دیگر کتب کی جانب مراجعت سے ہو جاتا ہے۔ مثلاً 326ھ کو لے لیں۔ حافظ ذہبی کہتے ہیں "لم يحجّ أحد۔” یعنی اس سال کسی نے حج نہیں کیا۔
شفاء الغرام وغیرہ میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے: في سنة ست وعشرين بطل الحج من العراق، على ما ذكره الذهبي۔ (تین سو) چھبیس ہجری میں عراق سے حج معطل ہوا۔ جیسا کہ ذہبی رحمہ اللہ تعالی نے ذکر کیا۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حافظ ذہبی کے کلام میں اجمال ہے، ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے اُس سال حج ہوا ہی نہیں لیکن ”شفاء الغرام” کی گفتگو نے واضح کر دیا کہ یہ بات صرف عراقیوں کی حد تک کی جا رہی ہے کہ وہ لوگ اس سال حج نہیں کر پائے، اس سے بالکلیہ حج کی تنسیخ مراد نہیں۔
پھر جب آپ ”شفاء الغرام” کے اگلے جملے دیکھتے ہیں جو ”الدرر الفرائد” میں بھی موجود ہیں تو بات مزید کھل کے سامنے آتی ہے کہ حافظ ذہبی نے مطلقاً حج کی نفی نہیں کی بلکہ صرف عراقیوں کی بات کی اور اس میں بھی عمومِ نفی مقصود نہیں بلکہ عمومی حالات کا سلب مقصود ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ عام حالات میں حج کا جیسا اہتمام ہوتا تھا اس لحاظ سے 326ھ میں نہ ہونے کے برابر تھا۔
درر الفرائد اور شفاء الغرام کی گفتگو ملاحظہ ہو:
وأما العتيقي فقال في أخبار هذه السنة: وخرج من بغداد نفر يسير من الحجاج رجالة، وقوم أكثروا من العرب، ونحروا في مكة، وحجوا وعادوا من طريق الشام ۔
عتیقی نے اس سال کی اخبار میں ذکر کیا۔ اس سال بغداد سے بہت تھوڑے حاجی پیدل نکلے۔ اور عرب سے بکثرت لوگوں نے مکہ میں قربانی کی، حج کیا اور شام کے راستے واپس ہوئے۔ (جاری ہے)