بلاگزفیچرز اور انٹرویو

حلالہ کیا ہے اور شریعت میں اس کا جائز طریقہ کیا ہے؟

رانی عندلیب

میاں بیوی میں لڑائی اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان بن تو ضرور ہوتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ بات طلاق تک پہنچ جائے۔ اس کے علاوہ خاوند کو چاہیے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بیوی کو یہ نہ کہے کہ میں تمہیں چھوڑ دوں گا یا میں تمہیں طلاق دے دوں گا کیونکہ شیطان کسی بھی وقت انسان پر حاوی ہو سکتا ہے اور قبولیت کا وقت کسی کو معلوم نہیں کہ کب اور کون سی بات قبول ہو جائے۔

ایسے ہی چند سال پہلے کا ایک سچا واقعہ بیان کرتی ہوں جو غلط طریقہ سے حلالہ کرنے کے باوجود ساتھ رہ رہے ہیں۔

کمال اور سمیرا (فرضی نام) ایک دن کسی چھوٹی بات پر آپس میں تیز ہو گئے، بات لڑائی تک پہنچ گئی، خاوند نے شیطان کے بہکاوے میں آ کر بیوی کو تین طلاقیں دے دیں وہ بھی بچوں کے سامنے، بچے ہک دھک رہ گئے کہ یہ ان کے والد نے کیا کیا؟ لیکن اگلے ہی لمحے جب کمال کو ہوش آیا اور اس کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو کمال پشیمان تھا اور ساتھ میں اسے اپنی غلطی کا احساس بھی ہوا لیکن اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔

کمال کے تمام بچوں نے اپنی امی کی سائیڈ لی، اگر غلطی ماں کی بھی ہو تب بھی بچے ماں کی سائیڈ لیتے ہیں، یہ تو غلطی بھی والد نے کی تھی تو تمام بچے ماں کی سائیڈ پہ تھے اور کمال سے لڑنے لگے کہ یہ کیا کر دیا لیکن کمال اور جو بچے بڑے تھے انہوں نے مشورہ کیا اور اس بات کا یہ حل نکالا کہ حلالہ کیا جائے تاکہ گھر کی بات گھر میں رہ جائے
لیکن کمال اور سمیرا کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ دونوں میں طلاق کے باوجود ایک چھت کے نیچے رہنا، دوسری غلطی یہ کہ سمیرا نے طلاق کے بعد عدت بھی پورری نہیں کی، اب انہوں نے خاندان والوں سے یہ بات چھپائی تھی کہ بدنامی ہو گی اس لیے وہ ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہتے تھے کہ دوبارہ نکاح بھی ہو جائے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہونے پائے۔

اس لیے حلالہ کا طریقہ اختیار کیا لیکن شاید یہ لوگ ناسمجھ ہیں یا مسلمان ہو کر اسلام سے بے خبر، اس بات کا اندازہ اپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ کمال نے اپنے ایک قریبی اور اعتباری دوست کو اپنے طلاق کی پوری کہانی سنائی اور ساتھ میں اس دوست سے درخواست کی کہ حلالہ میں اس کی مدد کرے لیکن انہوں نے شاید حلالہ کا نام سنا تھا. تفصیل سے بے خبر تھے (حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ سابقہ شوہر سے طلاق کے بعد عدت کا دورانیہ مکمل کرنے کے بعد دوسرا نکاح کرنا اور دوسرے شوہر کے ساتھ حقوق زوجیت استوار کرنا لازمی ہیں اس کے بعد دوسرے شوہر کے مرنے یا اس کی مرضی سے طلاق ملنے کی صورت میں اپنے عدت کا دورانیہ مکمل کرنے کے بعد واپس سابقہ خاوند سے نکاح جائز ہو جاتا ہے) لیکن اسلام سے انجان لوگوں کو اللہ ہی سمجھے، چنانچہ اگلے ہی دن کمال کی بیوی سمیرا اور کمال کے دوست کا نکاح ہو گیا اور نکاح کے دس منٹ بعد کمال کے دوست نے سمیرا کو طلاق دے دی. سمیرا نے غلطی کے اوپر ایک اور غلطی کی اور اس نکاح کے بعد عدت نہیں کی اور اپنے سابقہ شوہر سے دوبارہ نکاح کیا:

حلالہ کیا ہے اور شریعت میں اس کا جائز طریقہ کیا ہے؟

اس بارے میں جب مفتی ضیاءاللہ سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ حلالہ کے بارے میں مکمل ایک کتاب موجود ہے جس میں حلالہ کے بارے میں تفصیل بیان کی گئی ہے، حلالہ عام علماء کے اصطلاح میں موجود ہے اور قرآن میں دوسرے نکاح کا باقاعدہ ذکر ہے لیکن یہ صرف حلت کے لیے ہے اگر کوئی اس نیت سے کرے کہ یہ پہلے خاوند کے لیے جائز ہو جائے تو اللہ اور رسول اس پر لعنت بھیجتا ہے۔

حلالہ شرعی اصطلاح نہیں ہے اس کا مطلب ہے کہ دوسرا نکاح کرنا، دوسرے نکاح کو حلالہ کہا جاتا ہے شریعت کے لحاظ سے کسی بھی خاتون کو تین طلاق ہو جائے تو جب تک کسی مرد سے دوسرا نکاح نہ کرے اور اس مرد کے ساتھ حقوق زوجیت ادا نہ کیے جائیں. پھر وہ مرد اس عورت کو طلاق دے یا مر جائے اور عورت عدت کا دورانیہ تین ماہ دس دن صحیح طریقے سے پورے کر لے.تو اس کے بعد وہ عورت پہلے شوہر سے شادی کر سکتی ہے۔

حلالہ کے بارے میں قرآن مجید اور حدیث میں واضح طور پر آیا ہے کہ ترجمہ.. پھر اگر خاوند تیسری طلاق دے دے تو اس (مغلظہ عورت) اس کے لیے وقت تک حلال نہیں ہو گی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے۔

ہاں اگر میاں بیوی کے درمیان صحیح اور جائز طریقے سے حلالہ ہو جائے اور جائز طریقہ اپنایا جائے یعنی حقوق زوجیت استوار کرے تو ٹھیک ہیں اور اگر صرف برائے نام حلالہ کرے اور جائز طریقے سے اسے نہ اپنائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ نہ صرف بچوں کی طرح خود کو بہلا رہے ہیں .بلکہ میاں بیوی کے جائز تعلقات ان پر حرام ہو جاتے ہیں اس کو حرام کاری کہتے ہیں، وہ سب سے بڑا گناہ ہے۔

حلالہ کرنے کے لیے پاکستان میں کوئی قانون ہے اور اسلامی قانون کیا کہتا ہے؟

اس بارے میں پشاور ہائی کورٹ کی ایڈوکیٹ عذرا سیلمان کہتی ہیں کہ حلالہ کی وضاحت سے پہلے وہ طلاق کی تھوڑی سی وضاحت کرتی ہیں کہ طلاق مرد کی طرف سے ہوتی ہے اور خلع عورت کی طرف سے اس لیے مرد کسی بھی وقت عورت کو طلاق دے سکتا ہے اور جب عورت خلع لیتی ہیں تو وہ عدالت ضرور جائے گی تب ہی اسے خلع ملے گی۔

عذرا سیلمان کا کہنا ہے کہ اگر عورت اپنے شوہر سے خلع لیتی ہیں تو وہ دوبارہ اپنے شوہر سے شادی کر سکتی ہیں اور اس کے لیے حلالہ کی ضرورت نہیں اور اگر شوہر نے طلاق دی تو دوبارہ اپنی بیوی سے رجوع کرنے کے لیے وہ حلالہ کرے گی۔

طلاق کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں اور اسلام میں ہر جگہ واضح ہے کہ دو حالتوں میں طلاق نہیں دینی چاہیے۔

1۔ ایک غصے کی حالت میں

2۔ ایک نشے کی حالت میں

حضرت محمدﷺ اور حضرت عمر کے دور میں تین طلاقے ایک طلاق تصور کیا جاتا تھا اور اب بہت سے فرقے بن گئے ہیں.تو اب تین طلاق دینے پر اسی وقت طلاق ہو جاتی ہیں لیکن پہلے ایسے نہیں ہوتا تھا.سورۃ البقرہ کی آیت 228 میں جس میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں دینی چاہیے تاکہ سوچنے سمجھنے کا وقت ملے۔

حلالہ اللہ کی طرف سے ایک سزا ہے یعنی اللہ نے ان کے لیے سزا تجویز کی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ حلالہ مرد کے لیے سزا ہے لیکن مردکی نسبت یہ عورت کے لیے سزا ہے۔

عذرا سیلمان کا کہنا ہے کہ ان کی پوری پریکٹس میں انھوں نے حلالہ کرتے ہوئے لوگ نہیں دیکھے کیونکہ کوئی مرد یہ نہیں چاہتا کہ حلالہ کرنے کے لیے وہ اپنی بیوی کو ایک رات کے لیے کسی دوسرے مرد کے ساتھ نکاح میں دے اور رات گزارے اور اگلے دن اس کے لیے دوسرے مرد سے طلاق لے کر اس سے نکاح کرے۔

عذرا سیلمان کا مزید کہنا ہے کہ جن لڑکیوں کا نکاح ہوا ہے لیکن رخصتی نہیں ہوئی تو ان کے لیے حلالہ ضروری نہیں، لیکن جن کے درمیان ازدواجی تعلقات قائم ہوئے تو ان کے لیے حلالہ ضروری ہے۔

پاکستان میں حلالہ سنٹر بھی قائم کیے گئے ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو دوبارہ ایک کرنے کے لیے حلالہ کرواتے ہیں، سپشل ان کا یہ کام ہوتا ہے کہ لوگوں کو کالز کرتے ہیں کہ آپ آئیں اور ہم آپ کا حلالہ کرتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button