بلاگزفیچرز اور انٹرویو

سوات کا منفرد ریستوران جہاں کھانے کو ملے دیسی خوراک!

جنید ابراھیم

پرونہ گاؤں، جو کہ مینگورہ شہر سے کچھ 8 سے 9 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، علاقہ کوکارئی میں شامل ہے جو کہ اپنے سرسبز باغات اور پہاڑوں کی وجہ سے سوات اور بونیر سمیت پورے خیبر پختونخواہ میں مشہور ہے۔

یہاں کے لوگوں کی معیشت کا دارومدار زیادہ تر زراعت پر ہے۔ کچھ مقامی باشندے پاکستان سے باہر بھی کام کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہاں سیاحت کی صنعت سے بھی کافی لوگ اپنا رزق کماتے ہیں، جن میں ٹورسٹ گائیڈز، لوکل چائے ڈھابے، ریستوران اور جنرل سٹورز شامل ہیں۔

امیر سید بھی اپنا ایک ریستوران چلاتے ہیں لیکن ان کا ہوٹل اپنی مختلف نوعیت کی وجہ سے سے کافی مقبول ہے۔

ہوٹل کے مالک امیرسید گاہک سے آرڈر لیتے ہوئے

ٹی این این کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے کہا کہ پچھلے سال 2020 کے اوائل میں جب لاک ڈاون نافذ کیا گیا تو لوگ اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے اور سوات مینگورہ کے لوگ مقامی سطح پر سیاحت کو ترجیح دینے لگے، سوات اور بونیر بارڈر پر جتنے بھی گاؤں ہیں ان کے لوگ بھی یہاں کا رخ کرنے لگے، میں پہلے ایک ہتھ گاڑی میں ابلے ہوئے انڈے بیچتا تھا، مگر سیاحوں کی تعداد کو بڑھتے دیکھ کر میں نے اپنے ہی حجرہ میں ریستوران کھولنے کا سوچ لیا اور آہستہ آہستہ سیاح یہاں انے لگے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ہاں لوگ زیادہ اس لئے آتے ہیں کیونکہ یہاں ساری خوراک دیسی اور مقامی ملتا ہے، جس میں دیسی گھی میں تلے پراٹے، سادہ جو روٹیاں، دیسی گھی، دودھ، لسی، دہی، دیسی انڈے، سوات کے چاول، جس کو ہم مختلف طریقوں سے پکاتے ہیں، ملتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ یہ سارا پروگرام گھر کا ہے اور ہماری عورتیں یہ سب تیار کرتی ہیں۔، ہم گھر میں دس لوگ رہتے ہیں اور ہماری گزر بسر اسی سے ہوتی ہے۔

امیرسید ٹی این این کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے

ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں سیدو شریف سے اپنے دوستوں کے ہمراہ آئے ہوئے ایک سیاح نے بتایا وہ ہر چھٹی کے دن گھومنے نکلتے ہیں اور یہاں زیادہ آتے ہیں، یہاں کی خوبصورتی کا اپنا مزہ ہے، گرمیوں میں موسم بہت اچھا رہتا ہے، اور ساتھ ہی یہاں ہر قسم دیسی خوراک ملتی ہے جو ہمیں بہت عزیز ہے۔

مینگورہ سے آئے ہوئے ایک صحافی نے کہا کہ یہ ہوٹل یا ریستوران کم اور گھر حجرہ زیادہ ہے، کیونکہ یہاں ہمیں بہت پیار ملتا ہے، ہم کو یہاں کسٹمر کم اور مہمان زیادہ تصور کیا جاتا ہے، یہاں ان گھنے درختوں اور ندی کے کنارے بیٹھ کر بہت سکون ملتا ہے۔

امیر سید مہمانوں سے آرڈر لیتے ہیں اور ان کا آرڈر اچھی طرح سے پیش کیا جاتا ہے، انہوں نے کہا، ”میری یہی خواہش ہے کہ ہماری پرانی روایات اور کلچر جدید دور میں بھی زندہ رہیں اور جدیدیت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھیں۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button