لیلیٰ مجنوں، جن کا ذکر ایک ہزار سے زائد زبانوں میں ملتا ہے
مولانا خانزیب
دنیا کی ہر زبان و ادب اورر وایات میں ایسے بہت سی داستانوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو اس مخصوص زبان، ثقافت اور اس کے وطن کی تاریخ و جغرافیہ کے ساتھ مخصوص ہوتی ہیں جبکہ بہت سی داستانیں واقعی ہونے کے بجائے فرضی بھی ہوتی ہیں۔
لوک داستانیں، جیسے پشتو ادب میں شیر عالم میمونہ، تاج محمد نمرو، آدم خان درخانے وغیرہ وغیرہ، صرف اس زبان کا ایک ادبی سرمایہ ہوتی ہیں۔ پشتو کی اولسی داستان (یوسف خان شیربانو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک فرضی داستان ہے) پشتو ادب کا دامن بھی بہت سی لوک داستانوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ لوک داستانیں صرف تفریح طبع کیلئے نہیں ہوتیں بلکہ اساطیری روایات کے ساتھ یہ لوک داستانیں اس پوری قوم وجغرافیہ کی تاریخ و شواہد اپنے اندر سموئے ہوتی ہیں جن کو تحقیق کی نظر سے جب پرکھا جاتا ہے تو ماضی بعید کے اس نامعلوم وقت کے حقائق کے حوالے سے بہت کچھ ہاتھ آ جاتا ہے۔
بات کرتے ہیں ایک ایسے داستان کے حوالے سے جن کا ذکر دنیا کے ایک ہزار سے زائد زبانوں کے ادب میں ملتا ہے اور شائد یہ دنیا کی معروف ترین لوک داستان ہے۔
لیلی مجنوں کی داستان حقیقی اور خالص، عربی جغرافیہ اور ادب کی داستان ہے مگر بہت بڑی تعداد میں دیگر زبانوں میں اس کی موجودگی نے اس کو عربی ادب کی صف سے نکال کر ایک عالمگیر صورت دے رکھی ہے۔
پہلی دفعہ اس داستان کا ذکر چوتھی صدی ھجری کے عربی ادیب علامہ ابوالفرج اصفہانی نے اپنی کتاب "الآغانی” میں کیا، ابوالفرج اصفہانی اپنے وقت کے ایک بہت بڑے شاعر و ادیب تھے جو 897ء کو پیدا ہوئے تھے اور 20 نومبر 967ء کو وفات پائی تھی۔ نام علی ابن الحسین تھا۔ ابوالفرج کنیت تھی، اصفہان میں پیدا ہوا۔ بغداد میں تعلیم پائی تھی۔ سیف الدولہ کے دربار کے پروردہ تھے۔ ان کی تالیف کتاب الاغانی عربی ادب کا لافانی شاہکار ہے۔ یہ کتاب 1868ء میں مصر سے بیس جلدوں میں شائع ہوئی۔ بعد میں یورپ کے ایک کتب خانے میں ایک اور جلد دستیاب ہوئی۔ کتاب الاغانی میں لیلی مجنوں کی داستان کے ساتھ زیادہ تر شعر و نغمہ کی ان مجلسوں کا تذکرہ ہے جو عباسی خلفاء خصوصا ہارون الرشید کے محل میں منعقد ہوتی تھیں جبکہ ایک اور عربی ادیب، علامہ جاحظ نے بھی لیلی مجنوں کے اس داستان کا تذکرہ کیا ہے۔
اس داستان کو سب سے زیادہ شہرت فارسی میں ملی ہے اور اس کی وجہ سے ایسا تاثر پیدا ہوا کہ جیسے یہ داستان فارسی ادب کی تخلیق ہو مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہے، فارسی ادب میں سب سے پہلے اس کا ذکر نظام گنجوی نے کیا ہے، نظامی گنجوی چھٹی صدی ہجری میں شہر گنجہ میں پیدا ہوئے ان کی تاریخ ولادت 520 ہجری سے 525 ہجری قمری تک بتائی گئی ہے۔ ان کا نام الیاس اور کنیت ابو محمد، لقب نظام الدین اور تخلص نظامی تھا۔ نظامی کی وجہ شہرت ان کی مثنویاں ہیں جن میں مخزن الاسرار، خسرو شیریں اور لیلیٰ مجنوں نمایاں ہیں۔
وہ اپنے زمانے کے رائج علوم میں عبور رکھتے تھے، شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں حکیم کا لقب دیا گیا ہے، وہ علم نجوم اور فارسی، عربی اور دیگر زبانوں پر کامل عبور رکھتے تھے، انہوں نے تاریخ یہود و نصاری اور پہلوی کا مطالعہ کیا تھا، ان علوم کے علاوہ انہیں طب سے سب سے زیادہ لگاؤ تھا شاید اسی لگاؤ کی وجہ سے ان کے اشعار میں طب کی اصطلاحات اور دواؤں نیز امراض کے نام دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کے اشعار کا مجموعہ پنج گنج نظامی یا خمسہ نظامی کے نام سے موجود ہے مگر ڈاکٹر ابراہیم کے بقول عربی اور فارسی ادب کا امتیاز اس لیلی مجنوں کے داستان کے حوالے سے یہ ہے کہ یہ عرب کے "بادیہ” کے خالص بدوی ماحول کی داستان ہے مگر فارسی ادب میں اسے خضریت کی شکل دے کر ایک شہری ماحول کا داستان بنایا گیا ہے جو کہ خلاف حقیقت ہے۔
مجنون کا اپنا نام قیس ابن ملوح تھا، سن 24 ھجری کو نجد (موجودہ سعودی عرب) میں پیدا ہوئے تھے، بنو عامر کے قبیلے کے سردار کے بیٹے تھے۔ مجنون بمعنی دیوانہ کا لقب لیلی کے ساتھ شدت محبت کی وجہ سے پایا کیونکہ لیلی کے ساتھ شدت پیار کی وجہ سے اس کی حالت دیوانوں کی طرح ہو گئی تھی جبکہ بعض روایات میں اسے یہ لقب حضرت حسن کی طرف سے دیا گیا تھا۔ نیز عربی لغت میں جس لفظ میں "ج” اور "ن” کا مادہ موجود ہو تو وہ چھپنے اور پردہ کا معنی دیتا ہے جیسے جنت کو جنت اس لئے کہتے ہیں کیونکہ وہ گھنے جنگلوں سے ڈھکا چھپا ہوتا ہے، جنات کو جنات اس لئے کہتے ہیں کیونکہ وہ انسانی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں، مجنون کو مجنوں اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی عقل شدت پیار کی وجہ سے غیرارادی طور پر پردے میں جا کے چھپ گئی تھا۔
لیلی کو بعض مصنفین نے اپنے نام کی وجہ سے سانولی رنگت کی کالی رنگت سے مشبہ قرار دیا ہے، لیلی کا پورا نام لیلی بنت مہدی بنت سعد تھا، مجنون کا جنون لیلی کے حسن کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے پیار کی وجہ سے تھا۔ بقول نظام گنجوی لیلی مجنون کی پڑوسی یا بعض روایات کے مطابق ان کی چچا کی بیٹی تھی۔
بچپن سے اکٹھے بکریاں چراتے تھے۔ قیس کو لیلی کے ساتھ بچپن سے عشق ہوا تھا۔ جب لیلی بڑی ہوئی تو وہ گھر سے کم نکلتی تھی، قیس چونکہ شاعر بھی تھا تو وہ لیلی کے عشق میں اشعار بھی کہتا تھا۔
قیس نے شدت محبت کی وجہ سے اس وقت کی روایات کے مطابق لیلی کے حق مہر کے لئےستر اونٹوں کا بندوبست بھی کیا تھا مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا کیونکہ اگر لیلی کا رشتہ مجنون سے ہو جاتا تو ایک محبت اپنے انجام کو تو پہنچ جاتی مگر ہزاروں زبان و ادب کو یہ داستان نہ ملتی۔ لیلی کا رشتہ بنو ثقیف قبیلے کے ایک اور لڑکے سے کر دیا گیا۔ وہ لیلی کو بیاہ کر طائف لے گیا۔ مجنوں ایک مالدار نجدی قبیلے بنو عامر کے سردار کا بیٹا تھا۔ وہاں ایک گورا چٹا، خوب صورت اور خوش گفتار نوجوان تھا، شاعر تھا، قیس نے لیلی کے اوپر شاعری کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے،
وہ ایک چاند ہے جو ایک سرد رات میں آسمان کے وسط میں چمک رہا ہے
وہ نہایت حسین ہے، اس کی آنکھیں اس قدر سیاہ ہیں کہ انھیں سرمے کی ضرورت نہیں
قیس کے والدیں اپنے خاندان کے ساتھ لیلیٰ کے والد کے پاس گئے۔ اور لیلیٰ کا رشتہ مانگا۔
لیلیٰ کے ماں باپ کو داغ بدنامی گوارا نہ ہوا کیونکہ قیس لیلی کی محبت میں اشعار کہتا تھا اور عربوں کے ہاں ایک روایت مشہور تھی کہ اگر کوئی شخص کسی خاتون پر اشعار کہتا ہے تو پھر کبھی اس سے شادی نہیں کر سکتا۔ انھوں نے رشتہ دینے سے انکار کر دیا۔
اس دوران قبیلہ ثقیف کے ایک نوجوان نے بھی جس کا نام ورد تھا، لیلیٰ کو شادی کا پیغام دیا، لیلیٰ کے والدین نے یہ رشتہ قبول کر لیا۔ قیس اس قدر مضطرب ہوا کہ وہ بیمار ہو گیا، اس کے والدین نے چاہا کہ وہ اپنے قبیلے کی کسی اور خوبصورت لڑکی سے شادی کر لے مگر اب قیس لیلیٰ کی محبت میں اتنی دور نگل گیا تھا کہ واپسی ممکن نہ تھی۔
اس کے بعد مجنون کی حالت مکمل دیوانوں جیسی ہونے لگی۔ جب مجنون کی حالت بالکل پاگلوں کی طرح ہو گئی تو مجنون کا باپ بیٹے کو اس دیوانگی سے شفایابی کیلئے خانہ کعبہ لے گیا اور اپنے بیٹے سے کعبہ کے اندر کہا کہ کعبے کے پرودوں سے لٹک کر یہ دعا مانگ کہ اےخدا میرے دل کو لیلی کی محبت سے خالی کر دے۔ مگر مجنون نے کعبہ کے پردوں سے لٹک کر دعا مانگی کہ اے خدا میرے دل میں لیلیٰ کی محبت اور بڑھا! راستے میں اس نے ایک جگہ پہاڑی پر اپنے آپ کو گرانے کی بھی کوشش کی مگر لوگوں نے پکڑ لیا۔ اپنے قبیلے میں واپس پہنچ کر قیس کا باپ ایک بار پھر لیلیٰ کے باپ کے پاس گیا تاکہ اسے لیلیٰ کی اپنے بیٹے سے شادی پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے۔
قیس کا باپ بیٹے کو واپس گھر لے آیا مگر قیس روز روز شدت غم سے دیوانہ ہو رہا تھا۔ ایک دن وہ گھر سے خاموشی کے ساتھ نکلا اور پھر چوتھے دن صحراء کے پتھروں میں مجنون مردہ حالت میں ملا۔ اس کا سن وفات 68 ھجری ہے۔ سعودی عرب کا شہر لیلی دنیا بھر میں محبت کی لازوال داستان کا حامل یہ شہر سعودی دارالحکومت ریاض سے 300 کلومیٹر جنوب میں الافلاج ضلعے میں واقع ہے۔
مذکورہ شہر کا نام عرب تاریخ کی ایک مشہور پریم داستان میں قیس کی محبوبہ لیلی کے نام سے منسوب ہے۔ مؤرخین کے مطابق قيس اور ليلى کا واقعہ پہلی صدی ہجری میں یعنی 24 ھ سے 68 ھ (645ء سے 688ء) کے درمیان پیش آیا۔ اس وقت اموی دور میں مروان بن الحکم اور عبدالملک بن مروان کی حکومت کا زمانہ تھا۔
عرب تاریخ میں قیس نام کے دو عاشق ملتے ہیں۔ ان میں پہلا قیس بن الملوح تو لیلی کا عاشق تھا جس کا ان سطور میں ذکر ہو رہا ہے جب کہ دوسرا قیس بن ذریح کسی اور خاتون لبنی کی محبت میں گرفتار تھا۔
قیس بن الملوح کو جن خطابات سے نوازا گیا ان میں مجنوں سب سے زیادہ مشہور ہے۔ درحقیقت وہ مجنوں یعنی پاگل نہیں تھا بلکہ اپنی محبوبہ لیلی العامریہ سے دیوانگی کی حد تک محبت کے سبب اسے یہ نام دے دیا گیا۔
سعودی عرب کے شہر لیلی کے قریب وادی الغیل میں واقع جبلِ توباد، قیس بن الملوح کے سبب تاریخ میں امر ہو گیا هے۔ اس پہاڑ میں ایک غار ہے جس کا نام غارِ قیس ہے۔ یہ عاشقوں کی ملاقات کا مقام تھا۔ نئے دور کے پریمیوں نے اس کی دیواروں پر اپنے نام لکھ رکھے ہیں۔
عرب کے کئی مشہور شعراء نے اس جبلِ توباد کا ذکر اپنی شاعری میں کیا ہے۔ لیلی کے بارے میں مجنون کے عربی میں یہ مشہور اشعار ہیں۔
امر علی الدیار دیار لیلی
اقبل ذالجدار وذالجدار
وما حب الدیار شغفن قلبی
ولکن حب من سکن الدیار
میں لیلی کے گھر کے پاس سے گزرتا ہوں
ان مٹی کے گھروں سے میرا کوئی قلبی لگاؤ نہیں ھے
نہ ہی کسی گھر کی محبت میرے دل میں ھے
اصل محبت تو میرے دل میں ان گھروں میں رہنے والوں کی ھے
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم المصری لکھتے ہیں کہ لیلیٰ مجنوں کے شدید عشق و محبت کی کہانی کوئی فرضی داستان نہیں ہے جیسا کہ ڈاکٹر طحہٰ حسین نےخیال ظاہر کیا ہے، یہ پہلی صدی ہجری کا سچا واقعہ ہے جو نجد کے علاقے میں رونما ہوا اور لازوال بن گیا۔