مردان کا منفرد ادارہ جہاں معذور بچوں کو تعلیم کے ساتھ ہنر بھی سکھایا جاتا ہے
سدرا آیان
‘ہم چاہتے ہیں کہ معذور بچے پڑھ لکھ کر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکے اور معاشرے پر بوجھ بننے کی بجائے ایک کارآمد شہری بنے اور ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں’
یہ کہنا ہے ضلع مردان کے نیشنل سپیشل ایجوکیشن سنٹر کی استانی ہما کا۔ انہوں نے ٹی این این کو بتایا کہ اس سنٹر میں انکے پاس سپیشل بچے موجود ہیں جن کو ڈیکوریشن, ہینڈ ایمبرائیڈری, کٹنگ , قریشہ ورک, پینٹنگ اور بہت سے ہنر سکھاتے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اور باقی اساتذہ کوشش کرتے ہیں کہ جتنے بھی ہنر ہیں وہ سب ان بچوں کو سکھائے تاکہ یہ بچے کسی کے محتاج نہ ہو اور معاشرے میں اپنا ایک مقام بنا سکے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین مرد حضرات کے مقابلے میں زیادہ پیسے کما سکتی ہے کیونکہ اس سنٹر میں ان کو بے شمار ہنر سکھائے جاتے ہیں پھر یہ کر سکتی ہیں گھر میں بیٹھ کر کام کریں اور پیسے کمائے۔
مسں ہماء کا کہنا تھا کہ یہ بچے عام بچوں کے مقابلے میں زیادہ وقت میں کام سیکھتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ان کو اچھے طریقے سے پڑھائے اور ہنر سکھائے۔
یہ سنٹر عبدالولی خان یونیورسٹی کے قریب موجود ہے جہاں پر معذور بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ بہت سے ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں۔ یہ وکیشنل سنٹر 1987 میں بنایا گیا تھا جو آج تک قائم ہے اور اس نے ابھی تک معاشرے کو بے شمار ہنر مند افراد دیے ہیں جس میں زیادہ تر خواتین شامل ہیں۔
مس ہما کے مطابق ان بچوں کے کورس کے لیے کوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا ان کو اتنا وقت دیا جاتا ہے جتنے وقت میں یہ سیکھ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں پر ایچ ای سی یا دوسرے سیکشن میں جب بچہ داخلہ لیتے ہیں تو ان کا داخلہ فری ہوتا ہے ان کا علاج معالجہ فری ہے ان کا کھانا پینا فری ہے ہاسٹل اور پک اینڈ ڈراپ دونوں فری ہے۔
موجودہ وقت میں اس سنٹر میں 255 بچے پڑھتے ہیں جن میں ایک سو بیس 120 لڑکیاں شامل ہیں۔ ادارے کے پرنسپل سید ریاض رحمان کا کہنا ہے کہ انکی کوشش ہے کہ یہ بچے اپنا کام خود کرنا سیکھ جائے اور اپنا کام خود کریں۔
ان کا نصاب یہ ہے کہ یہ بچے خود کو صاف ستھرا رکھنا سیکھ جائے کھانا پینا صحیح طرح سے سیکھ جائے واش روم اٹینڈ کرنا سیکھ جائے اپنے گھر کا پتہ جان جائے تاکہ ان کو اپنے گھر محلے کا پتا ہو اور اپنے گھر کا نمبر یاد ہو۔
انہوں نے کہا کہ پہلے ان کے پاس صرف ذہنی معذور بچے تھے لیکن اب سننے اور بولنے کی حس سے محروم بچے بھی شامل ہیں۔ ‘1987 میں جب یہ ادارہ بنا تو یہاں پر ہمارے پاس صرف ذہنی معذور بچے تھے پھر 2003 میں فیڈرل گورنمنٹ نے ہمارے لیے شیخ ملتون میں یہ عمارت بنائی، پھر ہائر اتھارٹی سے ہمیں انسٹرکشنز ملی کہ آپ اور ڈیسیبیلیٹیز بھی شامل کریں اس کے بعد ہم نے ذہنی معذوری کے ساتھ ساتھ جسمانی معذور جیسے سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم بچوں کو بھی بھی اپنے ادارے میں لینا شروع کیا’ ادارے کے پرنسپل نے بتایا۔
نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ عام انسانوں کی نسبت معذور لوگوں کو زیادہ زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے ادارے اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔