جنسی ہراسانی، ”عورت کا ساتھ کوئی نہیں دیتا سب مرد کا ساتھ دیتے ہیں”
نسرین
”میری تنخواہ 17500 میرے اکاؤنٹ میں منتقل کر دی جاتی ہے لیکن جب فیکٹری کی گاڑی میں بینک جاتی ہوں اور اے ٹی ایم سے تنخواہ نکلوا کر فیکٹری واپس آتی ہوں تو 7500 فیکٹری مالک اپنے منیجر کے ذریعے واپس لے لیتا ہے اور دس ہزار روپے میں رکھ لیتی ہوں، اگر میں ان کی یہ شرط نہ مانوں تو نوکری جاتی ھے جو کسی صورت گوارا نہیں کیونکہ بہت زیادہ مہنگائی اور غربت ہے، مجھے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے، مالکان کو کوئی فرق نہیں پڑتا وہ میری نوکری ختم کر دیں تو کوئی اور ورکر بھرتی کر لیں گے۔” یہ کہنا ہے پشاور کی ایک فیکٹری میں کام کرنے والی ورکر عذرا کا۔
ٹی این این سے گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ کم سے کم اجرت 17500 سے متعلق سرکاری احکامات صرف کاغذی کارروائی تک محدود ہیں جو فیکرٹری مالکان خود کو سرکاری کھاتوں میں کلیئر کرنے کے لیے کرتے ہیں۔
انہی کی ایک اور ساتھی تسلیم بی بی نے کہا کہ میں 2002 سے کام کر رہی ہوں اور مجھے ابھی تک مستقل نہیں کیا گیا، دو دو تین تین سال کے پراجیکٹ بنا کر ھم سے مستقل کام لیا تو جاتا ہے لیکن ہمیں مستقل نہیں کیا جاتا اور یہی حال دیگر فیکرٹری ورکرز کا بھی ہے۔
فیکٹریوں میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور ہراسانی کے بھی بہت واقعات ہوتے ہیں لیکن جب کوئی آواز اٹھائے تو اس کی نوکری بھی چلی جاتی ہے، اس پر مستزاد یہ کہ مرد عورت کو ہی غلط کہتے ہیں، وہاں عورت کا ساتھ کوئی نہیں دیتا سب مرد کا ساتھ دیتے ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے خصوصی بات چیت کے دوران سماجی کارکن نسیم ریاض نے بتایا کہ بہت سی فیکٹریوں میں ہراسمنٹ کمیٹیاں نہیں ہیں، ”خواتین آگاہ ہی نہیں ہیں اور بہت سی لڑکیاں ہراسانی سے تنگ آ کر ملازمت چھوڑ جاتی ہیں۔”
فیکٹری ورکرز کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بیشتر فیکٹریوں میں خواتین کے لیے الگ واش رومز تک نہیں ہیں اور اگر ہیں تو وہ اتنے دور دور ہیں کہ ان کے لیے وہاں جانا مشکل اور اکیلے جانا خطرے سے خالی نہیں ہوتا، ”کام کی جگہ کے قریب اور الگ واش رومز انتہائی ضروری ہیں، ان کی ضروریات زیادہ ہوتی ہیں، اوور ٹائم کے بھی مسائل ہیں۔”
وومن ورکرز الائنس کی کنوینئر کے مطابق سرکاری اداروں میں قانونی طور پر مقرر کردہ کم سے کم اجرت کو یقینی بنانے کے لیے ھم آواز اٹھائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی مطالبہ کریں گے کہ ڈے کیئر سنٹرز کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ خواتین تسلی اور اطمنان سے اپنے فرائض بھی سر انجام دے سکیں اور اس دوران اپنے بچوں خاص طور پر شیرخوار بچوں کا خیال بھی رکھ سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ہم اپریل سے جون تک کی سہ ماہی میں فیکٹری ورکرز کے مسائل کے حل کے لیے کام کریں گے تاکہ لیبر ڈیپارٹمنٹ، وزارت محنت، چیمبرز آف کامرس، فیکرٹری مالکان فیکٹری ورکرز کے الگ واش رومز، بیماری اور زچگی کی چھٹیوں، کم سے کم مقررہ سرکاری اجرت کی حقیقی ادائیگی کو ممکن بنائیں۔
ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل کے حوالے سے کام کرنے والی خاتون رفعت خٹک کے مطابق ڈے کیئر سنٹرز خال خال ہی کسی فیکٹری میں ہے، مائیں آٹھ سے دس گھنٹے گھر سے باہر فیکڑیوں میں رہتی ہیں اور ان کے شیرخوار بچے جنہیں وہ خود دودھ پلانے سے محروم رہ جاتی ہیں وہ بچے بھی فیڈر لینے پر مجبور ہو کر طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنتے ہیں، ”فیکٹری مالکان کی کوشش ہوتی ھے شادی شدہ خواتین کو ملازمت نا دی جائے کیونکہ ان کے گھریلو مسائل بہت زیادہ ہوتے ہیں جو ان کے کام میں آڑے آتے ہیں اور بچوں والی خواتین کو شاذونادر ہی کوئی کام دیا جاتا ہے حالانکہ ان کو کام کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، انہیں پیسے زیادہ درکار ہوتے ہیں۔