فیچرز اور انٹرویوقبائلی اضلاع

2021 کا ڈیجیٹل دور اور ضلع خیبر کی غاروں کی دنیا

زاہد ملاگوری

غار نما کمرے یا گھر کو پشتو میں ”گارا” کہا جاتا ہے جو زمانہ قدیم سے یہاں کے باسیوں کا مسکن چلا آ رہا ہے اور اس جدید دور میں بھی لوگ اس کا استعمال بطور حجرہ، بیٹھک یا پھر کمرے (گھر) کے کر رہے ہیں۔

گارہ یا غار نما کمرہ جن کا جدید نام تہہ خانہ بھی ہے کو تعمیر کرنے یا کھودنے پر مقامی لوگوں کے مطابق تقریباً 10 سے 15 ہزار روپے کا خرچہ آتا ہے جو غریب گھرانے کا ایک فرد بھی آسانی سے بنا سکتا ہے۔ اس کی تعمیر کے لیے سخت مٹی یا نا گرنے والے پہاڑ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ سخت بارش میں گرنے کا خطرہ نہ ہوں۔

یہ ”گارا” پہاڑوں میں بنایا جاتا ہے جسے صرف غریب افراد ہی استعمال نہیں کرتے بلکہ صاحب استطاعت لوگ بھی اس کو اپنے گھروں میں بناتے کیوں کہ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ گرمی میں ٹھنڈے جبکہ سردی میں گرم ہوتے ہیں۔

”گارو” میں روشنی زیادہ نہیں ہوتی کیوں کہ نہ اس میں کھڑکیاں ہوتی ہیں اور نہ روشن دان اس لیے اس میں اندھیرے کا راج ہوتا ہے۔ گارے کی جدید شکل تہہ خانہ بھی ہے جس کو عام گھروں میں بھی تعمیر کیا جاتا ہے۔

غار نما اس رہائش کے اگر ایک طرف فوائد ہیں تو دوسری طرف اس کے نقصانات بھی ہیں کیوں کہ مقامی افراد کے مطابق ان میں زیادہ عرصہ تک رہنے سے مختلف قسم کی بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ ہوتا ہے جن میں ہیپٹائیٹس اور جِلد کی بیماریاں شامل ہیں۔

اکیسویں صدی میں ان ”گاروں” میں بھی قبائل عوام زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ان علاقوں میں ضلع خیبر کی تحصیل جمرود کے مختلف علاقوں میں، جن میں گودر، لاشوڑہ، ورمنڈومیلہ، جبہ، ریکالے، علی مسجد، لالہ چینہ اور سپرئی شامل ہیں، ایک اندازے کے مطابق 24 سو افراد زندگی گزار رہے ہیں۔

ٹی اینن این کے ساتھ اس حوالےسے بات چیت کرتے ہوئے ورمنڈومیلہ کے رہائشی نوجوان اور سماجی و سیاسی شخصیت شاہ زمان آفریدی نے بتایا کہ اس طرح کے غار نما کمروں کی تاریخ بہت پرانی ہے، ”یہ ہمارے آباء و اجداد دور افتادہ علاقے وادی تیراہ میں بناتے تھے جہاں پر وہ اپنے خاندان سمیت زندگی گزارنے پر مجبور تھے کیوں کہ زمانہ قدیم میں گھر بنانے کا رواج نہیں تھا اس لیے ان غاروں میں قبائلی عوام رہتے تھے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کے طرز زندگی میں جدت آ گئی قبائلی عوام بھی جس سے متاثر ہوئے بغیر نا رہ سکے۔”

انہوں نے کہا کہ اکسیوی صدی میں بھی جمرود کے مختلف علاقوں میں اب بھی قبائلی عوام غاروں میں زندگی بسر کر رہے ہیں جن میں 50 فیصد لوگ غربت، 30 فیصد لوگ موسمی اثرات جبکہ 20 فیصد لوگ وہ ہیں جو 2013 ء میں وادی تیراہ سے شورش، عسکریت پسندی اور اس کے خلاف فوجی آپریشن کی وجہ سے بے سروسامانی کی حالت میں جمرود منتقل ہوئے اور یہاں پر ”گارے” (گارا کی جمع) کھود کر سکونت پذیر ہو گئے جو کہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

شاہ زمان آفریدی کے مطابق وادی تیراہ راجگل کوکی خیل سے نقل مکانی کر کے لوگ یہاں پر آباد ہو چکے ہیں کیوں کہ وہ پختون ولی اور آفریدی ولی کی وجہ سے حکومت کی طرف سے متاثرین کے لیے بنائے گئے کیمپوں کو جانا پسند نہیں کرتے تھے، حکومت نے ان افراد کی کوئی مدد نہیں کی اور جب بھی آسمان سے بارش کا ایک قطرہ پانی برستا ہے تو یہ لوگ ان غاروں سے بھاگ کر پہاڑوں کا رخ کر لیتے ہیں کیوں کہ یہ گارے برساتی نالے کے نزدیک واقع ہیں اور سیلاب میں بہہ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہ ورمنڈومیلہ کی کل آبادی 2500 کے لگ بھگ ہے جس میں زیادہ تر لوگ غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ہیں جبکہ بہت کم متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، ان علاقوں میں تعلیم کی شرح بہت کم ہے کیوں کہ یہاں پر طالبات کے لیے ایک بھی سرکاری سکول نہیں جبکہ طلبہ کے لیے ایک پرائمری سکول ہے وہ بھی بہت دور ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ یہاں پر طالبات اور طلبہ کے لیے ایک ایک مڈل سرکاری سکول تعمیر کرے جبکہ یہاں پر ایک بنیادی ہیلتھ سنٹر قائم کرے، ”گارے غریب لوگ اس لیے بناتے ہیں کہ اس کی تعمیر پر دس سے پندرہ ہزار روپے کا خرچہ آتا ہے جبکہ ایک سادہ کمرے کی تعمیر پر ایک لاکھ سے زیادہ خرچہ آتا ہے جو غریب افراد کی دسترس سے باہر ہے تو ہم غریب گارے بنانے پر اکتفا کرتے ہیں۔”

مقامی لوگوں کے مطابق وہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ان کی زندگی بدلنے کے لیے اس جدید دور میں بھی حکومت وقت و حکمران وقت نے کچھ نہیں کیا، کم از کم ان غاروں میں زندگی بسر کرنے والے افراد کو بجلی نہیں تو سولر لائٹس ہی فراہم کریں، ”یہاں پر پانی کی قلت ہے، دور دراز علاقوں سے خواتین سروں پر پانی لانے پر مجبور ہیں، سہولیات کے فقدان کے باعث زندگی بہت مشکل سے گزر رہی ہے۔”

مقامی شخص بخمین آفریدی، جو غربت کی وجہ سے ان غاروں میں رہائش پذیر ہیں، نے بتایا کہ یہ گارے برساتی نالے میں واقع ہیں، جب بارش کا ایک قطرہ برستا ہے تو ہمارے بچے اوپر اپنے ماموں کے گھر بھاگ اٹھتے ہیں کیوں کہ سیلابی ریلے میں بہہ جانے کا خطرہ ہوتا ہے، ”اس سے پہلے دو دفعہ ہمارے غار نما گھر میں پانی داخل ہوا تھا اور گھر کا سارا سامان تباہ ہوا تھا، ہماری حکومت نے ہماری کوئی مدد نہیں کی۔”

انہوں نے مطالبہ کیا کہ نومنتخب نمائندے ہمارے گاروں کی حفاظت کے لیے حفاظتی دیوار تعمیر کریں تاکہ ہم اپنے ”گھر” میں سکون سے رہ سکیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button