پولیس تشدد کے واقعات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے اور اس کا حل کیا ہے؟
رفاقت اللہ رزڑوال
رواں ماہ پولیس کے ساتھ تعلق رکھنے والے دو واقعات میں دو افراد کی موت واقع ہوئی۔ قانون اور پولیس کے ماہرین ایسے واقعات میں غفلت کی وجوہات پولیس کی ٹریننگ میں خامیاں، ڈیوٹی کے زیادہ اوقات کار اور پولیس کو حد سے زیادہ قانونی اختیارات کو قرار دیتے ہیں اور ان تمام وجوہات کی بنا پر مجرمان کے خلاف تحقیقات کے نتیجے میں متاثرہ افراد کو انصاف کی بجائے بے انصافی کا سامنا ہوتا ہے اور اسی طرح انصاف کے نظام سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔
گزشتہ ہفتے دو واقعات رونما ہونے سے کئی سوالات جنم لے چکے ہیں، بنیادی سوال جن میں یہی ہے کہ بنوں ڈومبل کا رہائشی اور طالبعلم مبشر کو فقیرآباد پولیس نے کیوں گولیوں کا نشانہ بنایا؟
مبشر اسلامیہ کالج پشاور سے فارغ التحصیل اور لا اینڈ پولیٹیکل سائنس میں داخلہ لینے کے لئے پشاور یونیورسٹی جا رہے تھے کہ راستے میں پولیس نے فائرنگ کر کے انہیں جان سے مار دیا، پولیس کے اعلی حکام کا کہنا ہے کہ واقعے میں دو پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
مگر اہم سوال نے اُس وقت جنم لیا جب ضلع خیبر باڑہ کا رہائشی 14 سالہ شاہ زیب نے پولیس کی حراست میں خود کو پھندہ لگا گر زندگی کا خاتمہ کر دیا؟
ایسے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے جب پشاور ہائی کورٹ کے وکیل منظور بشیر سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف شفاف انکوائریز کی ضرورت ہوتی ہے۔
"کہتے ہیں کہ ایسے واقعات کی تحقیقات اکثر پولیس اہلکار خود کرتے ہیں لیکن جب واقعے کی تحقیقاتی رپورٹس عدالت میں پیش کی جاتی ہیں تو اکثر ملزمان ناقص تفتیش کی بنیاد پر چھوٹ جاتے ہیں۔”
منظور بشیر کا کہنا ہے کہ پولیس مقتول شاہ زیب کو اپنے ساتھ لے گئی اور اُسے حوالات میں بند کر دیا جو جووینائل جسٹس سٹسٹم کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25(3) اور 35 تقاضہ کرتے ہیں کہ صوبائی حکومتیں پولیس تحویل میں بچوں کیلئے قانون سازی کریں گی جس کے تحت صوبائی حکومت نے 2018 میں جووینائل جسٹس سسٹم 2018 کے نام سے قانون پاس کیا ہے۔
ان کے مطابق مذکورہ قانون کے سیکشن 5 کے تحت جب کوئی کمسن جرم کا ارتکاب کرے تو پولیس اُسے حوالات میں نہیں رکھے گی بلکہ اُسے آبزرویشن ہوم میں رکھا جائے گا جہاں پر بچے کی پوری نگرانی کے ساتھ اس کو ایک پرسکون ماحول فراہم کرنا یقینی بنانا ہو گا اور فوری طور پر اُس کے والدین کو آگاہ کیا جائے گا لیکن شاہ زیب کے معاملے میں پولیس نے قانون اور ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
ایڈوکیٹ منظور بیشر نے سوالات اُٹھاتے ہوئے کہا کہ کیوں ایک ملزم پولیس کی حراست میں خودکشی پر مجبور ہوا ہے؟ کیا اسے نفسیاتی دباؤ کا سامنا تھا یا اُس کے اوپر تشدد کیا گیا تھا اور کیا واقعتاً تھانہ کلچر ایسا ہی جیسے سامنے آیا ہے؟
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو مکمل نہیں ہے، مزید کوتاہیوں کا جائزہ اُس وقت لیا جائے گا جب بچے کی خوکشی کے بعد حوالات سے نکالنے کی ویڈیو سامنے آ جائے۔
پشاور کے تھانہ غربی میں مقتول شاہ زیب پر الزام ہے کہ انہوں نے اسی دن پشاور صدر میں ایک دکاندار سے ڈرون کیمرا خریدنے پر تلخ کلامی کی اور بعد میں دکاندار کے اوپر پستول تان لیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ شاہ زیب سے پستول بھی برامد ہو چکی ہے لیکن شاہ زیب کے ایک رشتہ دار مصطفی نے ٹی این این کو بتایا کہ جب اُس کی لاش کو غسل دے رہے تھے تو اُس کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے اور کان کے نیچھے خون بھی بہہ رہا تھا۔
ٹی این این نے جب غیرمسلح افراد پر پولیس اہلکاروں کی اچانک فائرنگ کی وجوہات معلوم کرنے کے لئے چارسدہ پولیس فورس کے ایک سپاہی سے پوچھا تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کی ریکروٹمنٹ عارضی طور پر بحیثیت سپیشل پولیس آفیسر (ایس پی او) کے طور پر ہوئی تھی۔
"ہماری ٹریننگ اس طرح نہیں ہوئی جس طرح مستقل پولیس اہلکاروں کی ہوتی ہے اور نہ اس کے بعد ہمارے ریفریشر کورسسز کرائے گئے ہیں جس کی وجہ سے اکثر نشانہ چوکتا ہے اور دوسرا یہ کہ بعض اوقات عوام، پولیس افسران اور ڈیوٹی کے زیادہ اوقات کار کے دباؤ سے سٹریس میں مبتلا رہتے ہیں”۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں سابقہ پولیس افسر ڈی آئی جی و داخلہ سیکرٹری سید اخترعلی شاہ نے بتایا کہ ایسے واقعات کا پیش آنا پولیس تربیت میں خامیوں کی عکاسی کرتا ہے کہ کیوں ایک سپاہی نے غیرمسلح فرد پر فائرنگ کی۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کی تربیتی اداروں میں زیادہ سے زیادہ توجہ ‘طاقت کے استعمال’ پر دینی چاہئے پھر اس کے بعد ‘ریفریشر کورسز’ اسی نقطے پر کرنے چاہئیں۔
اخترعلی شاہ نے کہا کہ پولیس کی طبعی تربیت میں کوئی کمی نہیں ہے مگر اس فورس کا استعمال کیسے کرنا ہو گا، یہ اصل چیلنج ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ساتھ ماہرین تربیت کی بھی کمی ہے۔
انہوں نے شاہ زیب کی خودکشی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ قانون کی رو سے بچوں کو آبزرویشن روم ہوم میں رکھا جائے گا لیکن اس بات کا علم نہ ہونا ‘تعلیم اور تربیت کی کمی ہے۔’
ان کے مطابق پولیس کی معیاری تربیت کیلئے ایک الگ ٹیکنیکل کیڈر بنانا ہو گا جس کا اپنا ایڈیشنل آئی جی لیول تک آفیسر ہو گا اور تربیت دینے والوں کیلئے ٹف ریکروٹمنٹ پالیسی نافذ کرنی چاہئے۔
اختر علی شاہ نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران خیبر پختونخواہ پولیس نے سینکڑوں قربانیاں دی ہیں مگر ان جیسے واقعات سے پولیس کی ساری قربانیاں رائیگاں جاتی ہیں۔
"پاکستان میں پولس رولز 1934 موجود ہیں، ان میں کوئی خامی نہیں ہے لیکن اگر پولیس کی خدمات اور قربانیوں کو یاد رکھنا ہے تو اس پر مکمل عمل درآمد کرنا ہو گا۔