ووٹ عورت نے ڈالنا ہے لیکن مرضی گھر کے مرد کی ہو گی!
سدرہ آیان
مردان میں خواتین کی سیاست میں حصہ داری اور ان کے حقِ رائے دہی کے موضوع پر ساؤتھ ایشیاء پارٹنرشپ کے زیر نگرانی عورت فاؤنڈیشن، جذبہ اور آن آرگنائزیشن کی جانب سے طالبات کو دو روزہ ٹریننگ دی گئی جس میں کئی موضوعات کو زیر بحث لایا گیا۔
ٹریننگ کے آغاز پر ٹرینر نصرت آرا نے، جو کہ بنیادی طور پر ہومیوپیھتک ڈاکٹر اور ماسٹر ٹرینر کے علاوہ مختلف آرگنائزیشنز کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں، سب سے پہلے جنس اور صنف پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ جنس قدرت کی طرف سے مرد اور عورت کو ودیعت کی گئیں حیاتیاتی یا جسمانی خصوصیات ہیں، مثال کے طور پر عورت کا بچہ پیدا کرنا یا مرد کی داڑھی مونچھیں جبکہ صنف ایسا معاشرتی رویہ جو جنس کی بنیاد پر کام، وسائل اور اختیارات کی تقسیم کرتا ہے اور اسی بنیاد پر مرد اور عورت کے کرداروں کا تعین کرتا ہے اور انہیں یہ کردار نبھانے پر مجبور کرتا ہے۔
”سادہ الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جنس جسمانی ساخت ہے جو قدرتی ہوتی ہے، یہ ناقابل تبدیل ہوتی ہے، ہر جگہ اور ہر معاشرے میں یہ یکساں ہوتی ہے جبکہ صنف معاشرے کی طرف سے طے کردہ اور وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔”
.
بقول نصرت آرا کے ہم نے اپنی ایک سوچ بنا رکھی ہے کہ گھر کے کام ہیں تو عورت ہی کرے گی اور کر سکتی ہے اور اگر باہر کے کام ہیں تو وہ صرف مرد حضرات ہی کرتے اور کر سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں سماج، معاشرے اور ریاست پر تفصیلی بات چیت ہوئی کہ ہر فرد کی ایک اپنی شناخت ہوتی ہے اور ایسے افراد سے مل کر ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے یا مخصوص جغرافیائی حدود میں بسنے والے تمام افراد ثقافتی اور مذہبی گروہوں اور اداروں کے مجموعے سے سماج یا معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور پھر ایک مخصوص جغرافیائی حدود میں بسنے والے تمام افراد، ثقافتی اور مذہبی گروہوں کے باہمی رشتے کو ایک آئین یا دستور کی مدد سے باقاعدہ اصول و ضوابط کے پابند کرنے سے ریاست وجود میں آتی ہے۔
دنیا بھر میں مختلف ریاستیں مختلف قسم کے تین سیاسی نظاموں کے تحت چل رہی ہیں؛ بادشاہت، آمریت اور جمہوریت۔ بادشاہت کا نظام قدیم زمانے سے لے کر اب تک دنیا بھر میں چلتا آ رہا تھا اور آج بھی دنیا کے بعض ممالک میں موجود ہے، اس نظام کے تحت ایک ہی خاندان کے افراد نسل در نسل حکمرانی کرتے ہیں، اس میں عوام کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی۔
دوسری جان آمریت میں طاقت کا استعمال کر کے زبردستی کسی ریاست پر حکومت قائم کی جاتی ہے اور اس میں بھی عوام کی رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ آمرانہ نظام حکومت کی ایک قسم فوجی آمریت کی شکل میں سامنے آئی،
جبکہ ان دونوں کے برعکس جمہوریت میں سب سے زیادہ اہمیت عوام کی رائے کو دی جاتی ہے، ان کو اس بات کا حق دیا جاتا ہے کہ وہ جس کو بھی چاہیں ووٹ دیں اور ان کی مرضی پر نمائندے منتخب ہوتے ہیں جو مقامی، صوبائی یا قومی سطح کی حکومتیں تشکیل دیتے ہیں اور عوام کے بہترین مفاد کے لیے قوانین بناتے ہیں جو عوام کے تحفظ اور فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے بنائے جاتے ہیں۔
ٹریننگ میں سیاست پر روشنی ڈالی گئی کہ سیاست ہے کیا چیز، سیاست ہوتی کہاں ہے؟ سیاست کیسے ہوتی ہے اور سیاست کے لیے کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے؟
شرکاء کو بتایا گیا کہ سیاست ایسی مختلف سرگرمیوں کے مجموعے کا نام ہے جسے بروئے کار لا کر ہم افرادی یا اجتماعی مفادات کے حصول، وسائل کے درست استعمال اور انتظام کی فیصلہ سازی کو ممکن بنا سکیں، اس کے لیے خیالات، ہنر، ٹیکنالوجی، سرمایہ اور لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، سیاست کی فیصلہ سازی سے متعلق علم، ہنر اور اپنی طاقت کا اندازہ اور استعمال کرنے کا طریقہ آنا چاہیے۔
ٹریننگ کے دوسرے دن موبلائزیشن کو اچھے سے واضح کیا گیا کہ کسی سماجی، معاشی یا معاشرتی مسائل کے لیے متحرک اور اکٹھا ہو جانا ہے اور تمام طالبات نے موبلائزیشن کے فوائد کے بارے میں اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔
ٹریننگ کے دوران طالبات نے مختلف قسم کی سرگرمیوں میں حصہ بھی لیا اور اس بات کو واضح طور پر جانا کہ صنف کی بنیاد پر ہم نے خود اپنی سوچ کی وجہ سے ایک لکیر کھینچی ہوئی ہے کہ فلاحی کام صرف مرد ہی کر سکتے ہیں اس لیے وہ ہی کریں گے یا فلاحی کام صرف عورت ہی کر سکتی ہے سو وہ ہی کرے گی۔
اب اگر ہم دیکھ لیں تو ہر شعبے میں مرد کام کر رہے ہیں۔ مرد ایک ڈاکٹر، انجینئر، استاد، وکیل، پولیس، فوجی، پائلٹ وغیرہ ہو سکتا ہے لیکن ہم کیوں یہ نہیں سوچتے کہ عورت بھی یہی سب کچھ کر سکتی ہے، مرد کھانا بھی بنا سکتا ہے جبکہ عورت پیسے بھی کما سکتی ہے۔
اس طرح اگر مرد الیکشن لڑ سکتا ہے تو عورت کیوں نہیں؟
عورت بھی آبادی کا اتنا ہی حصہ ہے جتنا کہ مرد، پھر کیوں عورت کو سیاست میں کم جگہ دی جا رہی ہے، عورت بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہے، اسے بھی ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے پھر کیوں کوئی اسے ووٹ ڈالنے سے منع کرے، انہیں اجازت نہ دے یا پھر کیوں ووٹ عورت نے ڈالنا ہے لیکن مرضی گھر کے مرد کی ہو گی۔
عورت ہمارے معاشرے کا ایک اہم اور اہمیت کا حامل جزو ہے، ان کو سیاست میں یا کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے سے روکنا ملک و قوم کا اک بڑا حصہ مفلوج کرنا ہے۔
ٹریننگ کے آخر میں طالبات کو سرٹیفیکیٹ دیئے گئے اور ان کو ایک ٹاسک بھی دیا گیا کہ وہ اپنے محلے سے 15 ایسی خواتین کے ساتھ سیشن لیں گی جو شناختی کارڈ نہ بنواتی ہوں اور اپنے ووٹ کی اہمیت سے ناآشنا ہوں تاکہ وہ بھی آگے بڑھ کر اپنے حصے کا کام کر کے ملک و قوم کی ترقی میں کردار ادا کر سکیں۔