”بونیر، سڑکوں کی تعمیرنو کیلئے انڈیا اور نیپال کے لوگوں نے بھی پیسے دیئے ہیں”
نصیب یار چغرزئی
خیبر پختون خواہ کے ضلع بونیر میں چندہ سے بننے والی سڑکوں میں انڈیا اور نیپال کے لوگوں نے بھی پیسے دیئے ہیں۔
بونیر کے حلقہ پی کے ۲۲ تحصیل خدوخیل میں کئی کلومیٹر سڑکیں، گلی کوچے اور صاف پانی کے ہینڈ پمپ چندوں کی رقم سے بنائے گئے ہیں اور اس پر خرچہ حکومتی سکیموں کے فنڈ کے مطابق انتہائی کم ہوا ہے جبکہ کام بھی معیاری ہےـ
خدوخیل کے کچھ باہمت جوانوں نے یہ کر کے دکھایا کہ اگر حکومت توجہ نہیں دیتی تو ہم اپنی مدد آپ کے تحت بھی ترقیاتی کام کر سکتے ہیں۔ جی ہاں! اس تحصیل میں شروع ڈاگئی گاؤں سے ہوا۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں اس گاؤں کے امان خان نے بتایا کہ ہم دو سال پہلے جب متحدہ عرب امارات سے آئے تو یہاں سڑکوں اور گلی کوچوں کی خستہ حالی دیکھ کر بہت دکھ ہوا اور ان کے بنانے کے لیے چندہ مہم شروع کر کے اپنے دوستوں سے رابطے کئےـ
امان خان نے کہا کہ یو اے ای میں مقیم گاؤں کے دوستوں نے بھرپور امداد کی اور وہاں پر اپنے دیگر ملکوں سے مزدوری کے لیے آئے ہوئے دوستوں نے بھی چندہ دیا جن میں انڈیا اور نیپال کے دوست پیش ہیش ہیں۔ آگے کہتے ہیں ابھی تک ہم نے تین کروڑ سے زائد کا کام کیا ہے جس میں دو بلیک ٹاپ اور پی سی سی سڑکوں کے ساتھ گلی کوچے اور دس سے زائد ہینڈ پمپس شامل ہیں۔
ان کے دوسرے ساتھی سید بھادر کہتے ہیں کہ جب ہمارے اور ساتھی یو اے ای سے لوٹ آئے گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے دوران تو اس وقت ہم نے بہت تیزی کے ساتھ کام کیا لیکن لاک ڈاؤن کا دورانیہ زیادہ ہونے کی وجہ سے امداد کرنے والوں کے کاروبار متاثر ہونے کی وجہ سے امداد کم ہو گئی۔
ایک اور ساتھی فضل قادر کہتے ہیں کہ بارہ سال سے زیادہ ہو گئے کہ ہمارے گاؤں میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا اسی وجہ سے ہم مایوس ہو کر خود کام کر رہے ہیں، ”گاؤں کے سب لوگ تعاون کر رہے ہیں ہم نے گلی کوچوں کے ساتھ سڑکوں کی چوڑائی بڑھا دی لیکن جس کی بھی زمین ہے اس نے کچھ بھی نہیں کہاـ”
ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوئی تنظیم نہیں ہے، جب ہم کام کر رہے تھے اس دوران گاؤں کے بڑوں نے ہمارے ساتھیوں کو خدائی خدمت گار کا لقب دیا جو آج بھی اسی نام سے یاد کئے جاتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھی کام کا معاوضہ نہیں لیتے بس گاؤں کی ترقی کے لیے صبح سے شام تک کام کرتے ہیں۔
گاؤں ڈاگئی کے بعد یونین کونسل سروائی غازی کوٹ کے رہائشیوں نے 2.4 کلومیٹر سڑک چندہ پر بنائی، اس گاؤں کے اکرام کا کہنا تھا کہ جب ہم نے سڑک پر کام شروع کیا، دو مزدور دیہاڑی پر لگائے، سوچ رہا تھا کہ سڑک میں بنے کھڈو کی مرمت کریں گے لیکن جب شروع کیا تو دوسرے دن ایک دوست نے بیس ہزار روپے عطیہ کئے، اس کے بعد طوطالئی کے ایک رہائشی امریکہ میں مقیم ڈاکٹر جھان زیب نے پانچ لاکھ روپے کا اعلان کر دیا یوں یہ سلسلہ چل پڑا اور ہم نے 2.4 کلومیٹر پی سی سی سڑک بنوائی۔
اکرام نے کہا کہ ہمارے بعد گاوں درگلئی نے ایک کلومیٹر، دہکاڑہ نے دو کلومیٹر اور طوطالئی اور ڈاگئی نے اب تک پانچ کلومٹر سڑکیں اپنی مدد آپ کے تحت بنوائی ہیں۔
ان ترقیاتی منصوبوں میں سب سے زیادہ رقم ڈاکٹر جہان زیب نے دی ہے، جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ اتنی زیادہ رقم کیوں دے رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ جب حکومت توجہ نہیں دے رہی، منتخب نمائندے بھی گزشتہ 13 سال سے غائب ہیں، کوئی کام بھی نہیں کیا اور ہم بھی توجہ نہیں دیں تو یہ لوگ کیا کریں گے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں ڈاکٹر جھان زیب نے کہا کہ ہم نے ایک ملین سے زیادہ رقم علاقوں کے سڑکوں کے لیے دی ہے اور آئندہ بھی اگر ضرورت پڑی تو اس سے بھی زیادہ دینے کو تیار ہیں، ”علاقے کے ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے علاقے کے ترقی کے خاطر جانی و مالی امداد کی۔”
ٹی این این نے ترقیاتی کاموں کے فنڈز، لاگت اور اخراجات کے بارے میں جب سی اینڈ ڈبلیو کے ایک انجینئر سے معلوم کیا کہ ایک سکیم پر خرچہ کتنا ہونا چاہئے تو انہوں نے سارے منصوبوں کی کل لاگت ستر کروڑ تک بتائی لیکن یہاں حکومتی کام سے بھی معیاری کام چند کروڑ میں ہوا ہے، اس طرح اگر حکومت ترقیاتی فنڈ گاؤں کی کمیٹی میں تقسیم کر کے اس سے کام لے تو حکومت کے ایک منصوبے کے فنڈ سے کم از کم پانچ منصوبے مکمل کئے جا سکیں گے۔