”خواتین مردوں کو بتا سکتی ہیں نہ ہی مرد اکیلے ان کے مسائل حل کر سکتے ہیں”
سلمان یوسفزے
‘موجودہ حالات کے تناظرمیں خواتین کا سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا بہت ضروری ہے، نہ تو ہمارے معاشرے میں خواتین مردوں کو اپنے مسائل بتا سکتی ہیں اور نہ ہی مرد اکیلے ان کے مسائل حل کر سکتے ہیں اس لئے بہتر ہے کہ خواتین خود ہی اپنے مسائل کے حل کیلئے میدان میں اتر آئیں۔’
یہ کہنا ہے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی رکن صوبائی اسمبلی شگفتہ ملک کا، ٹی این این سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اگر دیکھا جائے تو جب ہم امن، خواتین کے بنیادی حقوق، تعلیم اور دیگر مسائل پر بات کرتے ہیں تو اس حوالے سے خواتین اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ وہ اس پر بات کریں اور وہ فیصلہ سازی میں شامل ہو جائیں۔
شگفتہ ملک کے مطابق پشتون معاشرے میں زیادہ تر خواتین اب بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جس کی وجہ معاشرے میں خواتین کے متلعق آگاہی کی کمی اور قدامت پسند سوچ ہے، یہی وجہ ہے کہ اب بھی زیادہ تر علاقوں میں خواتین کو گھریلو تشدد کے ساتھ ذہنی تشدد کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔
شگفتہ کے بقول وہ شروع ہی سے گھریلو تشدد کی روک تھام پر کام کر رہی تھیں اور اس حوالے سے انہوں نے صوبائی اسمبلی میں ایک بل بھی پیش کیا تھا تاہم جب کورونا وائرس کی وجہ سے پورے ملک اور خصوصی طور پر خیبر پختونخوا میں لاک ڈاؤن نافذ ہوا اور لوگ گھروں تک محدود ہوئے تو اس دوران خواتین پر گھریلو تشدد کی شکایات زیادہ موصول ہوئیں تو اس حوالے ضروری تھا کہ یہ بل سامنے آئے اور بالآخر وہ اسمبلی سے پاس ہوا۔
انہوں نے بتایا یہ ایک مشکل کام تھا پر ناممکن نہیں تھا تاہم گھریلو تشدد کی روک تھام کا بل پاس ہونے پر ہم سب خواتین کو بہت خوشی ہوئی کیونکہ اگر ہم خواتین اس مسئلے پر بات نہیں کرتے اور حکومت کو اس بات پر مجبور نہیں کرتے تو شائد اس بل کے پاس ہونے میں بہت وقت گزر جاتا۔
بل کی تفصیلات
بل کی تفصیلات کے مطابق، خواتین پر تشدد کرنے والوں کو پانچ سال تک قید اور جرمانے عائد کیے جائیں گے۔اس مقصد کی خاطر ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی جائے گی اور تشدد کی صورت میں 15 دن کے اندر عدالت میں درخواست جمع کی جائے گی۔
رکن صوبائی اسمبلی کے مطابق اس بل کی رو سے عدالت ایسے کیسوں کا فیصلہ دو ماہ میں سنانے کی پابند ہو گی اور عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی پر بھی ایک سال قید اور تین لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔
ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد سے بچاؤ اور حفاظت کے لیے بنائے گئے ترمیم شدہ اس قانون کے لیے ایسا طریقہ کار اپنایا گیا ہے کہ خواتین بھی تشدد سے محفوظ رہیں اور مردوں کے ساتھ بھی کسی قسم کی ناانصافی نہ ہو۔
اس مقصد کی خاطر بل کی منظوری کے فوراً بعد ہر ضلع کے لیے ایک ضلعی تحفظاتی کمیٹی بنائی جائے گی جس میں ڈپٹی کمشنر، ایگزیکیٹیو ڈسٹرکٹ آفیسر، سوشل ویلفیئر آفیسر، ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر، پولیس کا ایک نمائندہ، ایک خطیب، گائناکالوجسٹ اور ماہر نفسیات شامل ہوں گے جو کسی قسم کی شکایت کا جائزہ باقاعدہ ثبوتوں اور حقائق کی روشنی میں لیں گے، جس کے بعد ہی یہ فیصلہ ہو گا کہ تشدد کی نوعیت کیا ہے۔
یہ کمیٹی فریقین کے درمیان مصالحت اور شکایت کنندہ کے لیے محفوظ پناہ گاہ تلاش کرنے جیسے امور بھی سنبھالے گی۔
علاوہ ازیں، ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹی متاثرہ خاتون کو طبی اور قانونی مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی رہنمائی کے فرائض بھی سرانجام دے گی۔
شگفتہ ملک کون ہیں ؟
پشاور سے تعلق رکھنے والی رکن صوبائی اسمبلی شگفتہ ملک نے 2004 سے اپنے سیاسی کرئیر کا آغاز کیا اور 2005 میں ضلعی الیکشن جیتنے کے بعد پہلی بار ضلع پشاور کی صدر منتخب ہوئیں۔ انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے اور 2008 میں عوامی نیشنل پارٹی نے انہیں صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا۔
شگفتہ کے مطابق وہ بنیادی طور پر خدائی خدمتگار خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا اور باچا خان بابا کے نقش قدم پر چلنے لگیں۔
انہوں نے بتایا کہ عوامی نیشنل پارٹی خواتین کے حقوق کی علمبردار جماعت ہے اور اس حوالے سے باچا خان مرکز پشاور میں امن کے نام پر خواتین کے جرگے منعقد ہوئے ہیں جس میں ہم نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پشتون خواتین امن پسند ہیں اور وہ گھر کے اندر اور باہر امن چاہتی ہیں۔