"ایک شہزادہ جس نے میری زندگی تباہ کردی” محض ایک ناول نہیں
سلمان یوسفزئی
‘یہ محض ایک ناول نہیں بلکہ میری 15 سالہ زندگی کے وہ واقعات اور محنت ہے جو میں نے خود اپنی انکھوں سے دیکھا، محسوس کیا اور جب موقع ملا تو میں نے اپنے احساسات کو قلم کے ذریعے کاغذ پر مخفوظ کیا جو آج ایک ناول کی شکل میں موجود ہیں ‘۔ اس ناول کو لکھنے کے لئے میں نے پندرہ سال لئے۔
یہ کہنا ہے پشاور سے تعلق رکھنے والی ناول ایمان جمیل کا جنہوں نے پہلی انگریزی ناول نگار پاکستانی خاتون کا اعزاز حاصل کیا۔
A Prince Who Destroyed My Life ( ایک شہزادہ جس نے میری زندگی تباہ کردی) نامی ناول حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ایمان جمیل نے بتایا ” یہ کتاب پشتون روایت پر لکھی گئی ہے جس میں انتہائی مثبت انداز میں پشتون معاشرے کی عکاسی کی گئی ہیں”
ایمان کے مطابق ناول میں پشتون معاشرے کی برائیوں پر بھی نظر ڈالی گئی ہے جس میں کم عمری کی شادی ، خوبصورت لڑکی کو اس ڈر کی وجہ سے جلد بیاہ کرنا تاکہ وہ بری نظروں سے بچ سکے ، بیٹوں کی پیدائش پر عورت کو قصور وار ٹھرانا جیسے موضوعات شامل ہے۔
وہ بتاتی ہے جو مسائل اس ناول میں بیان ہوئے وہ صرف پشتون معاشرے کی خواتین کے مسائل نہیں بلکہ اگر آپ دنیا کے کسی بھی قوم اور معاشرے کا جائزہ لے وہاں آپ کو خواتین اسی مسائل کا شکار نظر آئینگی، اگر ہم کم عمری کی شادی پر بات کرے تو امریکا جاپان اور افریقہ میں بھی کم عمری کی شادیاں کی جاتی ہیں۔
بقول ایمان ناول میں آدمی کو ظالم کے طور پر نہیں دیکھا گیا کیونکہ موجود دور میں معاشرہ خواتین کے حقوق کے بارے میں آگاہ ہوچکا ہے بہت کم ایسے مرد ہونگے جو خواتین کا تشدد کا نشانہ بنائیں گے اور ان پر ظلم اور جبر کرینگے۔
انہوں نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہاکہ کم عمری میں شادی کے نقصانات مرد اور خواتین دونوں کو ہوتے ہیں کیونکہ اگر ایک مرد خود سے 10 ، 15 سالہ کم عمر لڑکی سے شادی کرنے کیلئے تیار ہوتا ہے تو وہ بھی معاشرے کے دباو میں ہوتا ہے اور جب ان کی شادی ہوجاتی ہے تو دونوں کی سوچ میں بہت فرق ہوتا ہے اس لئے ان کا مقدسہ رشتہ مسائل کا شکار ہوجاتا ہے اور دونوں کی زندگی برباد ہوجاتی ہے۔
ایمان مستقبل میں اس ناول میں پشتو اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کرنے کا ادارہ رکھتی ہیں اور وہ سمجتھی ہے کہ اگر یہ ناول پشتو زبان میں ترجمہ ہوا تو ان کے احساسات بہتر طریقے سے لوگوں تک پہچ جائنگے اور اس سلسلے میں پشاور یونیورسٹی میں پشتو ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر انور نے ناول کو پشتو زبان میں ترجمہ کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
ایمان کے مطابق ناول کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ پاکستان سمیت افغانستان میں لوگوں نے اسے خوب پسند کیا اور وہاں ایک کتابی میلے دوران اس کتاب کی زیادہ تر کاپیاں فروخت ہوئی جبکہ کچھ لوگوں نے ناول پر تنقید بھی کی ہے تاہم ایمان کا کہنا ہے کہ تنقید اور تعریف کرنا ہر کسی حق ہے۔
ایمان جمیل(آسیہ جمیل) کون ہیں ؟
ٹی این این کے ساتھ انٹرویو کے دوران ایمان جمیل نے اپنا تعارف کچھ اسطرح سے کیا” میرا نام آسیہ جمیل ہے لیکن زیادہ تر لوگ مجھے ایمان جمیل کے نام سے جانتے ہیں اور اس نام سے پکارتے ہیں ، میں نے انگریزی زبان میں ایم فل کیا ہے اور گذشتہ 15 سالوں سے پشاور میں ڈیویلپمنٹ سکیٹر میں کام کرتی ہوں جس میں میری کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ تر میں خوئیندو( بہنوں) کے مسائل پر کام کروں۔