شین خال یا سبز نقش جو کبھی پختون خواتین کی خوبصورتی کی علامت ہوتا تھا، معدومیت کا شکار
ممانڑہ افریدی
شین خال یا سبز رنگ کا نقش مستقل خوبصورتی کے نشان ہیں، جو نقطوں اور نمونوں کی شکل میں عام طور پر پختون لڑکیوں کے ابرو کے درمیان، ٹھوڑی اور گال پر نقشے جاتے ہیں۔ کسی زمانے میں اس رسم یا روایت کو دراصل خود کو نظربد سے بچانے کے لئے ایک علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔
پختون خواتین میں کسی وقت شین خال کا رواج بہت عام تھا لیکن آج کل یہ زیادہ تر صرف بوڑھی عورتوں یا پختون خانہ بدوشوں یا کوچی خواتین پر ہی دیکھا جاتا ہے۔
شین خال کو اب بھی بہت سارے پختونوں میں خوبصورتی کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ کچھ پختون خواتین آج کل کبھی کبھی خاص مواقعوں پر اپنے چہروں پر عارضی طور پر شین خال بناتی ہیں۔
شاعروں نے بھی مختلف پشتو گانے اوراشعار میں خوبصورتی کے ان نشانات کی تعریف کی ہے جو پختون ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے۔
شین خال کو دیہی علاقوں میں، جہاں کسی قسم کی طبی سہولت میسر نہیں ہوتی وہاں پٹھوں اور جسم میں درد کے علاج کے کیلئےبھی استعمال میں لایا جاتا ہے-
ایک ہنر مند شخص کچھ سوئیاں لیکر اس جگہ پر بار بارمارتا ھے اور خون بہنے کے بعد پھر وہ اس جگہ پر کاجل کو جراثیم کش کے طور پر لگاتا ھے کچھ دیر بعد وہ جگہ سبز ہوجاتی ہے۔
اس طرح کا علاج چین کے ساتھ بھی منسلک ہے جس کو ایکیوپنکچر کہا جاتا ہے۔ ایکیوپنکچر میں جسم کے اسٹریٹجک پوائنٹس پر جلد کے ذریعے انتہائی پتلی سوئیاں داخل کرنا شامل ہیں۔ روایتی چینی طب کا ایک کلیدی جزو ایکیوپنکچر عام طور پر درد کے علاج کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
ایک اہم مفروضہ یہ بھی ہے کہ ایکیوپنکچر نیورو ہارمونل راستوں پر کام کرتا ہے، بنیادی طور پر آپ جسم میں مخصوص جگہوں پر انجکشن لگاتے ہیں اور اعصاب کو متحرک کرتے ہیں، اعصاب دراصل دماغ کو سگنل بھیجتے ہیں اور دماغ اعصابی ہارمون جیسے بیٹا اینڈورفنسز جاری کرتا ہے-
چینی ایکیوپنکچر میں استمعال ہونی والی سوئیاں اگرچہ بہت باریک ہوتی ہے لیکن بعض اوقات وہ خون کی چھوٹی چھوٹی نالیوں سے ٹکراتی ہیں جس کی وجہ سے اس حصے میں معمولی چوٹ لگ جاتی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مٹ جاتی ہے لیکن شین خال کا نشان پوری زندگی رہتا ہے۔
شین خال کی روایت ہزاروں سال پرانی ہے، یہ خطہ جہاں پختون رہتے ہیں اور اونچی پہاڑوں سے گھرے ہوئے اس خطے کو خوبصورت لوگوں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔ پختون / افغان بہت خوبصورت لوگ ہیں۔ شین خال پختون قبائل خواتین کی پہچان رہی ہے۔ خواتین پیشانی پر گالوں کی ھڈیوں پر، گالوں اور ہونٹوں پر شین خال بناتی ہیں۔ پختون لڑکیاں شین خال اکثر شادی سے پہلے بناتی ہیں کیونکہ اس کے ساتھ کچھ توہمات بھی وابستہ ہے اور لوگوں کا ماننا ہے کہ شادی کے بعد خاتون شین خال بد قسمتی لاتی ہے جس کی وجہ سے ان کے شوہر یا خاندان کے کسی دوسرے فرد کی موت واقعہ ہوسکتی ہے اس وجہ سے شین خال صرف شادی سے پہلے ہی خوش قسمتی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
کچھ لوگ اپنے چھوٹے بچوں کے ماتھے پر شین خال بناتے تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ اس سے اچھی قسمت آتی ہے اور یہ جلد کو لمبے عرصے تک جوان دینے میں مدد دیتی ہے۔
شین خال کو مریضوں بلخصوص علاج کے لئے بھی استعمال کیا جاتا تھا اور یہ دستور اب بعض علاقوں میں رائج ہے-
شین خال بنانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، ماضی میں اس کام کے ماہر تقریبا ہر گلی محلے میں پائی جاتے تھے لیکن اب شاذ و نادرہی ایک آدھ بندہ مل جاتا ہے-
شین خال بنانے والی عورت دو چار سوئیاں اکٹھی کرتی اور چہرے کے اس مخصوص حصےکو آہستہ سے چھوتی جہاں شین خال بنانا مقصود ہوتا اور جب زخم سے خون نکلتا تو وہ اس پر کاجل مل لیتی، تقریبا آٹھ گھنٹوں کے قریب زخم پر سرخی ختم ہوجاتی اور وہاں ایک داغ ظاہر ہوجاتا-
پرانے وقتوں میں شین خال خوبصورتی کا ذریعہ تھا ۔ افغانستان ، بلوچستان ، سابقہ فاٹا اور خیبر پختونخوا میں پچھلے ساٹھ سالوں سے زیادہ عمر کی ہر تیسری بزرگ خاتون کی پیشانی، گالوں یا ہاتھوں پر نشانات پائے جاتے ہیں۔
لیکن اب یہ شین خال ماضی کا حصہ بنتی جا رہی ہے، اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم وجہ پختون خطے میں جنگ ہے۔
جنگوں نے پختونوں کی زندگیوں میں مختلف تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ بے گھر ہونے والے بہت سارے پختون قبائل خانہ بدوش تھےاور ان خانہ بدوش قبائل میں شین خال کا رواج عام تھا۔
جنگوں کی وجہ سے ، زیادہ تر خانہ بدوش قبائل اپنی خانہ بدوشی کی زندگی چھوڑ کر شہروں کے قریب آباد ہوگئے اور شہروں میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور اس طرح شین خال بنانے کا رجحان کم ہو تا گیا۔ دوسری طرف ، مذہبی اعتبار سے بھی شین خال کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور اکثر لوگ کہتے تھے کہ شین خال والے جہنم جائینگے-
شین خال کی روایت مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں بھی پائی جاتی ہے۔
اسلام سے پہلے کے بہت سارے عظیم شعراء نے اپنی شاعری میں شین خال کی منظر کشی کو خوبصورتی کی ایک مضبوط علامت کے طور پر استعمال کیا۔
معلقات، جو کہ اسلام سے پہلے کی عربی شاعری کا مجموعہ ہے، میں شین خال کو خوبصورتی کے طور پر بیان کیا گیا ہے-
اکثر "غریب آدمی کے زیورات” کے طور پر جاننے والی شین خال جسم اور چہرے کو سجانے کے لئےاستعمال ہوتا تھا خوبصورتی کا یہ عمل سونے اور چاندی کے متبادل کا کام کرتا تھا۔ آنکھوں اور ہونٹوں کے لئے ٹی طرز کی شین خال کا اپنا ایک منفرد مقام تھا۔ پاکستان میں اس روایت کے فقدان کی وجہ اوائل میں کولونائزیشن تھی اور بعد ازاں اسلامی روایات سے اس کی متصادم قرار دیا جانا تھا- افغانستان میں شین خال کے رواج کا خاتمہ روس کے خلاف جہاد، مہاجرین کی پاکستان کو ہجرت اور مدرسوں کی تعلیم سے شروع ہوا- چند دہائیوں پہلے تک یہ رواج کافی عام تھا کیونکہ اس سے پہلے لوگوں میں اس کے حرام ہونے کا کوئی تصور نہیں تھا-
مخصوص ڈیزائن اور مقامات جہاں یہ انجام دیئے جاتے ہیں وہ قبیلے کے لحاظ سے مختلف ہیں ،آج کل اس کی جو شکل دیکھنے کو ملتی ہےاصل میں اس شین خال سے کافی مختلف ہےاوریہ عموما دائرے کی شکل میں ہوا کرتے تھے، وقت کے ساتھ ساتھ یہ روایت مزید دم توڑتی جا رہی ہے۔