‘چترال کے لوگ اپنی بچیوں کا دوسرے اضلاع میں بغیر تحقیق کے شادیاں نہ کرائے’
گل حماد فاروقی
پاکستان انٹر نیشنل ہیومن رائٹس آرگنائیزیشن نے چترال گہریت سے تعلق رکھنے والی ایک معذور خاتون اور اس کی چار سالہ بچی کو شوہر کے ظلم سے نجات دلادیا۔ گہریت کی رہایشی گوجر قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک معذور لڑکی کے نام پر والدین نے زمین منتقل کی تھی اس زمین کو ہتھیانے کیلئے ایک گوجر شخص نے اس سے شادی کرلی اور بعد میں اس پر ظلم کرتا رہا اور اس کی چار سالہ بیٹی کی بھی مارنے کی کوشش کی گئی۔
عالم خان نے بتایا کہ ان کی تنظیم کو شکایت ملی تھی کہ ضلع دیر حال سے ہمیں شکایت ملی کہ ایک چار سالہ بچی کے ساتھ اس کا باپ اور سوتیلی ماں اس پر تشدد کررہے ہیں جسے بھوکا پیاسا رکھ کر اس کو مارنے کی کوشش کررہے تھے ہم نے فوری طور پر اس پر ایکشن لیا اور ان پر مقدمہ درج کرکے مقامی عدالت سے رجوع کیا جس پر فاضل عدالت نے اس بچی کو ماں کے حوالہ کرنے کا حکم صادر کیا۔ اس ماں اور بچی کو اپنے آبائی گھر گہریت لایا گیا۔ سوشل ویلفئیر آفیسر نصرت جبین اور دارالامان کی پراجیکٹ منیجر عاضیہ اجمل، PIHRO کے صوبائی کو آرڈینیٹر معراج محمد اور ڈسٹرکٹ آفیسر عالم خان نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ڈیزاسٹر اور انسانی حقوق عبد الولی خان کی نگرانی میں دونوں متاثر خواتین کے گھروں میں جاکر ان کی داد رسی کی۔
اس موقع پر انہوں نے یقین دلایا کہ جب دار الامان مکمل ہوجائے تو اس خاتون اور اس کی معصوم بچی کو وہاں منتقل کریں گے۔ اس خاتون کے پدری زمین پر اس کے سابقہ شوہر نے مکان بنایا تھا مگر یہ مکان اب اس کے بھائی کے قبضے میں ہے جہاں یہ خاتون اپنی بچی سمیت بھائی کے بیوی اور بچوں کے ساتھ اس مکان میں رہائش پذیر ہے تاہم اس مکان کو بھی اس کیلئے اور اس کی بچی کیلئے قانونی طور پر محفوظ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں یہ در بدر کی ٹوکریں نہ کھائے۔
متاثرہ لڑکی نے میڈیا کو بتایا کہ میرا شوہر مجھ پر نہایت ظلم کرتا رہا مجھے مارا پیٹا اور ہڈی بھی توڑ ڈالی انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ مجھ سے بھیک بھی منگواتا تھا اور میرے ساتھ میری بیٹی کو مارنے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ میری پدری جائداد پر وہ قبضہ جمائے۔
PIHRO کے ڈسٹرکٹ آفیسر دیر لوئیر عالم خان یوسفزئی نے میڈیا کو بتایا کہ ان کو ایک شکایت ملی تھی کہ چترال کے علاقے کجو سے تعلق رکھنے والے ایک خاتون کا صوابی میں اسی سالہ بابا ولایت شاہ سے شادی کرائی گئی تھی اس لڑکی کو دلالوں نے 272000 روپے کے عوض بابے کو حوالے کیا تھا ہم نے جب تحقیقات کرلی تو وہ قانون، شریعت اور مقامی رسم کے بھی سراسر حلاف ورزی ہوئی تھی اس لڑکی کا شوہر کے دیکھے بغیر اس سے شادی کرائی گئی تھی ہم نے وہ پیسے واپس لئے اور اس لڑکی اور بابا کو اپنا حصہ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں سب کے حلاف مقدمہ درج ہوسکتا تھا دھوکہ دہی اور انسانی اسمگلنگ کے دفعات کے تحت FIR بھی کٹ سکتا تھا مگر ہم نے افہام و تفہیم سے یہ معاملہ حل کرایا کیونکہ اس لڑکی کی اس سے پہلے ضلع کرک میں شادی کرائی گئی تھی جس سے اس کی دو بچے بھی تھے مگر وہاں سے طلاق ہونے پر ایک بار پھر اس کی ایک با با سے شادی کرائی گئی۔ چونکہ لڑکی اس ضعیف المعر شخص کے ساتھ زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی تو انہوں نے باہمی افہام و تفہیم سے ان دونوں میں علیحدگی کرائی اور وہ رقم برابری کے حساب سے دونوں میں تقسیم کردی۔ انہوں نے لڑکی کے رشتہ داروں کو متنبہ کیا کہ آئندہ وہ اس لڑکی کو اس کی مرضی کے بغیر اس کی شادی نہ کرائے۔ انہوں نے چترال کے لوگوں پر زور دیا کہ وہ دلالوں سے بچ کر رہے اور اپنی بچیوں کا دوسرے اضلاع میں بغیر تحقیق کے شادیاں نہ کرائے تاکہ ان کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ ہو۔
اس موقع پر انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے بہترین کارکردگی پر اے ڈی سی عبد الولی خان، نصرت جبین، عاصیہ اجمل، تھانہ کوغذی کے ایس ایچ او ولی خان کو تعریفی اسناد بھی دیئے گئے۔ مقامی لوگوں نے اے ڈی سی عبد الولی خان، نصرت جبین، معراج محمد، عالم خان، عاصیہ اجمل اور ان تنظیمان کا بھی شکریہ ادا کیا کہ ان کی کوششوں سے یہ مسئلہ باہمی افہام و تفہم سے حل کرایا گیا اور حق بھی حقدار کو دلوایا گیا۔