7 سال سے پشاور میں رکشہ چلانے والی فضیلت کو لوگ کیا کہتے ہیں؟
سلمی جہانگیر
"کوئی کہتا ہے مونچھ داڑھی ہوتی تو گھبرو جوان لگتے، کوئی کہتا ہے کہ اچھا کیا ناچنا چھوڑ کر رکشہ چلاتی ہو۔”
یہ کہنا ہے خیبر پختونخوا پشاور شہر فضیلت نامی رکشہ ڈرائیور خاتون کی جو پچھلے 7 سال سے پشاور شہر کے روڈ پر رکشہ چلاتی ہیں اور اپنا اور اپنی بیمار ماں کا پیٹ پالتی ہیں۔
فضیلت کہتی ہیں کہ جب ان کی شادی ہوئی تو انہوں نے بھی اور لڑکیوں کی طرح کیا کیا سہانے خواب دیکھے تھے، کچھ عرصہ اچھا گزرا پھر بدقسمتی کے دن شروع ہوئے۔ خاوند کام کاج نہیں کرتا تھا۔
خاوند کے ساتھ لڑائی جھگڑوں میں 9 سال کا عرصہ گزرا اور اس عرصے میں فضیلت کو اللہ تعالی نے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ آخر کار فضیلت نے خاوند سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ طلاق کا ٹیکہ تو ماتھے پر لگا کر بھی بے بسی نے پھر بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ وہ اپنے میکے چلی گئں لیکن وہاں بھائیوں نے بھی ان کو سہارا نہیں دیا۔ جس نے ان کو رکشہ چلانے پر مجبور کیا۔
فضیلت کہتی ہیں کہ رکشہ چلانا کسی سے نہیں سیکھا خود ہی اپنے ذہن سے رکشہ ڈرائیو کرنا شروع کیا جس سے وہ اپنا اور اپنی بوڑھی ماں کا پیٹ پالتی ہیں، گھر کا خرچہ چلاتی ہیں، وہ ایک کرایہ کے کمرے میں رہتی تھیں لیکن وہاں سے ان کو نکال دیا گیا ہے، اب ان کے سر پھر چھت بھی نہیں ہے۔
رکشہ ڈرائیور فضیلت نے الزام لگایا کہ پولیس ان کو بے جا تنگ کرتی ہے، خاتون کا رکشہ چلانا کوئی جرم تو نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی ہنر یا تعلیم کا زیور ہاتھ میں نہیں تھا تو وہ رکشہ چلانے پر مجبور ہو گئی ہیں۔
معاشرے کی تنگ نظری کے حوالے سے فضیلت نے کہا کہ جب وہ خواتین کو رکشہ میں بٹھاتی ہیں تو خواتین ان دیکھ کر سوچ میں پڑ جاتی ہیں اور افسوس کر کے کہتی ہیں کہ چہرے پر مونچھ داڑھی ہوتی تو کتنے خوبصورت جوان لگتے جبکہ مرد رکشہ سے اترتے وقت خواجہ سرا کا گمان کر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر داد دیتے ہیں کہ اچھا کیا ناچنا چھوڑ کر رکشہ چلاتے ہو۔ ”7 سال کا عرصہ ہو گیا ہے اور اس عرصے میں لوگوں کے قسم قسم کی باتیں سننے کو ملتی ہیں جس کو برداشت کرتی ہوں کیونکہ غربت نے اپنی لپیٹ میں لیا ہے اور کوئی راستہ نہیں ہے سوائے رکشہ چلانے کے۔”
بھائی سمیت اور رشتہ دار تو سہارا نا بنے لیکن جب رکشہ چلانا شروع کیا تو کافی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ تم غلط کرتی ہو لیکن ان کی بات نہیں مانی اور اپنی محنت کرتی رہی جس کی وجہ سے سوائے والدہ کے سب نے رشتہ ناطہ چھوڑ دیا، فضیلت نے بتایا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں اچھے لوگ بھی ہیں لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ چند لوگ معاشرے کو بدنام کرتے ہیں تو چونکہ وہ ایک خاتون ہیں اور اوپر سے رکشہ بھی چلاتی ہیں تو ان کو بھی بے جا تنگ کیا جاتا ہے، پولیس پر الزام لگاتے ہوئے فضیلت نے کہا کہ پھر پولیس سٹیشن میں ان کی رپورٹ بھی درج نہیں کی جاتی۔
خاتون کو تو سجنا سنورنا اچھا لگتا ہے پر وہ مرد کے لباس میں رکشہ چلاتی ہیں، اس حوالے سے فضیلت نے بتایا کہ وہ نا صرف رکشہ پر مزدوری کے دوران مرد کا لباس زیب تن کرتی ہیں جبکہ انہوں نے عام زندگی میں بھی بننا سنورنا چھوڑ دیا ہے، ”کچھ عرصہ پہلے سرخ لباس پہننا تھا تو والدہ نے ایک عجیب سوال کیا کہ کہیں غلط کاموں میں تو نہیں پڑ گئی یا لوگ جو کچھ آپ کے بارے میں کہتے ہیں سچ تو نہیں ہے کیونکہ تم تو طلاق یافتہ ہو اور سرخ رنگ کے کپڑے نہیں پہن سکتی۔”
فضیلت نے کہا کہ وہ تمام خواتین کو یہ نصیحت کرتی ہیں کہ ہمت نا ہاریں، اپنی محنت مزدوری کریں اور رزق ہلال کمائیں لوگوں کی باتوں میں نا آئیں، جب کوئی کسی کی مدد نہیں کر سکتا تو بے جا الزام بھی نا لگائیں کیونکہ جب خاتون اکیلی ہو اور اس کا کوئی نا ہو تو کیا وہ حلال رزق بھی نہیں کما سکتی؟