مردان میں یونیسیف کا انوکھا رضاکار جسے کورونا وائرس ایک سازش لگتی ہے
افتخار خان
چار مہینے پہلے تک اس علاقے کا نام مردان سے باہر شائد ہی کسی نے سنا ہو۔ پھر جب 18 مارچ کو یہاں کورونا وائرس کی وجہ سے ملک کی پہلی ہلاکت سامنے آئی تو چند ہی گھنٹوں میں نہ صرف پورے پاکستان بلکہ کئی دوسرے ممالک میں بھی منگا علاقے کا نام سنا اور لیا جانے لگا۔
پہلی ہلاکت کے بعد منگا پاکستان کی پہلی یونین کونسل بنی جہاں مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا گیا اور 56 ہزار نفوس پر مشتمل آبادی کے علاقے کو ماس کورنٹائن یعنی وسیع قرنطینہ مرکز قرار دیا گیا۔
جس دن منگا میں 50 سالہ سعادت خان کی کورونا سے ہلاکت ہوئی تو اس کے چند ہی گھنٹے بعد پشاور کے علاقے سفید ڈھیری میں بھی کورونا سے متاثرہ 36 سالہ نوجوان بھی جان کی بازی ہار گیا۔ ان دونوں افراد میں یہ بات مشترک تھی کہ دونوں ہی بیرون ممالک سے آئے تھے۔ سفید ڈھیری کا رہائشی متحدہ عرب امارات سے واپس آیا تھا جبکہ سعادت خان عمرہ ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب گئے ہوئے تھے لیکن ہلاکتوں کے بعد سفید ڈھیری کے صرف اس چھوٹے سے محلے کو قرنطینہ سنٹر قرار دیا گیا جہاں مریض نے چند دن گزارے تھے جبکہ سعادت خان کے کیس میں پوری یونین کونسل کے 49 گاؤں میں ایک مہینے کے لئے مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا۔
سعادت خان رواں سال فروری کے وسط میں عمرہ ادائیگی کے لئے سعودی عرب گئے تھے اور وہ ان آخری زائرین میں شامل تھے جنہوں نے کورونا وباء کے بعد خانہ کعبہ اور حرم شریف کی بندش سے پہلے عمرہ کی سعادت حاصل کر لی تھی۔
8 مارچ کو سعادت خان کی وطن واپسی کے بعد ملکی حالات میں کافی بدلاؤ آیا تھا۔ ان کے جانے کے وقت ملک میں کورونا کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا تھا لیکن جب وہ واپسی کر رہے تھے تو کئی درجنوں کیسز رپورٹ ہو گئے تھے اور حکومتی ادارے مشتبہ کیسز کو معلوم کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے تھے۔
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق سعادت خان میں واپسی کے وقت کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہو گئی تھیں لیکن ان کے ساتھ عمرہ ادائیگی کے لئے جانے والے گاؤں کے دوسرے شخص عالمزیب ان رپورٹس کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن میں واپسی کے وقت انہیں کورونا علامات کے حوالے ایک فارم بھرنے کے لئے دیا گیا اور سعادت خان نے وہ بھی بھر دیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ 9 مارچ کی صبح پشاور ائیرپورٹ پر اترتے کے بعد ان سب مسافروں کی سکریننگ بھی کی گئی لیکن چونکہ سعادت خان میں کسی قسم کی علامات نہیں تھیں اس لئے کسی کو شک نہیں گزرا۔
گاؤں پہنچنے پر رشتہ داروں اور علاقہ مکینوں نے روایات کے مطابق ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا جبکہ گھر والوں نے اس دوران پورے علاقے کے لئے کھانے کا اہتمام بھی کیا تھا جس میں ضلعی حکومت کے مطابق 2 ہزار سے زائد لوگوں نے شرکت کی تھی اور تقریباً ہر ایک نے سعادت خان کے ساتھ مصافحہ کیا تھا یا گلے ملے تھے اور ان کے جاں بحق ہونے کے بعد پورے علاقے کو کورنٹائن بنانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ سعادت خان ایک ہیلتھ ٹیکنیشن تھے اور گھر کے ساتھ ہی ان کا اپنا کلینک تھا جہاں روزانہ کئی لوگ دوائیاں لینے اور علاج کروانے آتے تھے۔
17 مارچ کو سعادت خان نے بخار، کھانسی اور سانس میں تکلیف کی شکایت پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال سے رجوع کیا تو وہاں موجود ڈاکٹر نے شک گزرنے پر ان کے نمونے نیشنل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد بھجوا دیئے اور انہیں ہسپتال کے آئسولیشن وارڈ میں داخل ہونے کا کہا لیکن مریض نے انکار کر دیا اور گھر چلا گیا لیکن وہاں پر بھی اس نے ڈاکٹر کی ہدایت کے برعکس خود کو آئسولیٹ نہیں کیا۔
دوسرے ہی دن ان کے ٹسٹ کا نتیجہ مثبت آیا تو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم انہیں ایس او پیز کے مطابق گھر سے ہسپتال لے گئی اور آئسولیشن وارڈ میں داخل کروا دیا جہاں انہوں نے چند ہی گھنٹے بعد دم توڑ دیا۔
سعادت خان کے جسد خاکی کو رات کی تاریکی میں گاؤں منتقل کر دیا گیا اور اسے گھر لے جانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی جبکہ ضلعی انتظامیہ نے جنازے میں چند عزیز و اقارب کے علاوہ کسی کو شرکت کی اجازت نہیں دی۔ بعد میں ان کی رسم قل بھی نہیں ہونے دی گئی تھی۔
مکمل لاک ڈاؤن کا نفاذ، ضلعی انتظامیہ کا امتحان
سعادت خان کا کیس سامنے آنے کے بعد صوبائی حکومت نے اس یونین کونسل کے تمام 49 گاؤں میں مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تو مردان کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مشتاق احمد کے مطابق یہ ضلعی انتظامیہ کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے مشتاق احمد نے کہا کہ سب سے بڑی مشکل اس علاقے میں خوراک کا انتظام تھا۔ یہ علاقہ چونکہ مردان اور چارسدہ کے سرحد پر واقع ہے اور یہ لوگ اپنی خوراکی ضروریات چارسدہ کے بازاروں سے پوری کرتے ہیں تو لاک ڈاؤن کے بعد سب لوگ گھروں پر محصور ہو گئے۔ ان میں زیادہ تر مزدور ہیں، ان کے پاس علاقے کے اندر دکانوں سے خریداری کے لئے پیسے ختم ہو گئے، دکانوں میں بھی کھانے پینے کی اشیاء ختم ہونے لگیں، زیادہ تر آبادی کا انحصار مال مویشی پر تھا ان کے لئے چارے کا بھی مسئلہ سر اٹھانے لگا۔
شروع دنوں میں لاک ڈاؤن کے خلاف چند لوگوں نے احتجاج بھی کیا تھا۔ علاقے کے رہائشی مدثر شاہ کہتے ہیں کہ اس دوران ضلعی انتظامیہ کی کارکردی انتہائی مایوس کن تھی۔ دعوے اور وعدے بہت کئے گئے تھے لیکن حقیقت میں لوگوں کو کچھ بھی نہیں دیا گیا، نہ راشن کا بندوبست تھا اور نہ ہی حفاظتی سامان فراہم کیا گیا تھا۔ لوگوں میں خوف اور اندیشوں کے علاوہ حکومت مخالف سوچ بھی پروان چڑھ رہی تھی۔ لوگوں کے ذہنوں سے کورونا مہم مخالف سوچ دور کرنے کی لئے کوئی خاص کوششیں نہیں ہوئی تھیں۔ مدثر نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے فوراً بعد سکریننگ کا بھی کوئی خاص بندوبست نہیں تھا۔
کمیٹی کا قیام
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ راشن کا مسئلہ حل کرنے کے لئے ضلعی انتظامیہ نے انجمن تاجران مردان کی مدد لی اور انہی کی بدولت علاقے کی فوڈ چین بحال کی گئی، روزانہ کی بنیاد پر علاقے کو راشن کی گاڑیاں آتیں جنہیں ضرورت کے مطابق لوگوں میں تقسیم کیا جاتا۔
اے ڈی سی نے کہا کہ راشن کی تقسیم کے لئے انتظامیہ نے مقامی رضاکاروں پر مشتمل 24 رکنی کمیٹی بنائی تھی جس نے علاقے میں آگاہی پھیلائی، حکومت کی جانب سے راشن کی تقسیم بھی اس کمیٹی اراکین کے ہاتھوں ہوتی رہی۔ در حقیقت اس کمیٹی کی مدد کے بغیر منگا میں کورونا وائرس کو شکست دینا ممکن ہی نہیں تھا۔
مدثر شاہ بھی اس کمیٹی کے اراکین میں شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے لئے سب سے مشکل کام مساجد میں لوگوں کی تعداد کم سے کم رکھنا، ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنانا تھا جبکہ اس کے علاوہ بعض دکانداران ان کے کہنے پر دکانیں بھی بند نہیں کرتے تھے جہاں پر پھر انتظامیہ اور پولیس کی مدد لی جاتی تھی۔
مدثر نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے دوران کوئی بیمار ہو جاتا تو انتظامیہ کی جانب سے فراہم کردہ ایمبولینس میں ہم انہیں ہسپتال منتقل کرتے لیکن زیادہ تر کیسز میں ہم نے دیکھا کہ ڈاکٹروں کو جب معلوم ہوتا کہ مریض منگا سے آیا ہے تو چیک اپ سے کتراتے تھے۔
منگا رہائشیوں کی سکریننگ
منگا میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد ضلعی انتظامیہ نے وہاں پر رورل ہیلتھ سنٹر میں ڈاکٹروں کی ٹیم تعینات کر دی۔ لوگوں کی سکریننگ اور رینڈم ٹیسٹنگ کے بعد صحت کے صوبائی وزیر تیمور سلیم جھگڑا نے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ سکریننگ میں شک گزرنے پر پہلے مرحلے میں 46 افراد کے ٹسٹس کئے گئے ہیں جن میں 39 کے نتائج مثبت آئے ہیں۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے اے ڈی سی نے کہا کہ جن لوگوں کے نتائج مثبت آئے تھے ان میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو سعادت خان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے جن میں ان کی بیوی، بیٹا، بیٹیاں اور 3 بہوویں شامل تھیں جنہیں عبدالولی خان یونیورسٹی کے ہاسٹل میں قائم قرنطینہ سنٹر منتقل کر دیا گیا تھا۔
مقامی ہسپتال میں صفر او پی ڈی
خیبر پختونخوا میں 23 مارچ سے حکومت نے جزوی لاک ڈاؤن کا نفاذ کر دیا تھا جس میں ضروری اشیاء اور دوائیوں کی دکانوں کے علاوے تمام مارکیٹس، کارخانے، ہوٹل و ریستوران کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ پر بھی پابندی لگائی گئی تھی۔ ایک ہفتے بعد صوبے کے تمام بڑے ہسپتالوں میں او پی ڈیز بھی بند کرائی گئی۔ دوسری جانب منگا میں جب لاک ڈاؤن کا نفاذ ہوا تو اس کے باوجود رورل ہیلتھ سنٹر میں لوگوں کی سکریننگ کے علاوہ ہسپتال انتظامیہ نے تمام خطرات کے باوجود او پی ڈی خدمات بھی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے آر ایچ سی منگا کے ڈاکٹر شمس نے کہا کہ سعادت خان کی موت کے ساتھ علاقے میں خوف کا سایہ پھیل گیا تھا۔ ہر کوئی ڈر رہا تھا اور وائرس کے زیادہ پھیلنے کا بھی قوی امکان تھا لیکن اس کے باوجود ہسپتال کے 60 ملازمین پر مشتمل سٹاف نے پوری ایمانداری کے ساتھ ڈیوٹی نبھائی۔ شروع دنوں میں حفاظتی سامان بھی نہیں تھا لیکن پھر جلد ہی حکومت کی جانب سے یہ سامان مہیا کیا گیا۔
ڈاکٹر شمس نے کہا کہ لاک ڈاؤن سے پہلے اس ہسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر 200 تک مریض اپنا چیک اپ اور علاج کروانے او پی ڈی آتے تھے لیکن لاک ڈاؤن کے بعد یہ تعداد حیران کن طور پر صفر تک آ گئی۔ اس دوران کوئی بھی ہسپتال نہیں آر رہا تھا۔ کوئی بیمار بھی ہوتا تو ڈر کے مارے ہسپتال نہیں جاتا تھا کہ کہیں کورونا لسٹ میں ڈال کر قرنطینہ سنٹر نہ منتقل کر دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اب کئی مہینے گزرنے کے باوجود لوگوں کا اعتماد بحال نہیں ہوا ہے اور اب بھی ان کی او پی ڈی بمشکل 60-70 تک پہنچتی ہے۔
یونیسیف کا انوکھا رضاکار
منگا میں لاک ڈاؤن کے بعد جہاں حکومت کے ساتھ ساتھ مختلف فلاحی تنظیموں نے بھی وہاں لوگوں کو راشن کی فراہمی شروع کر دی تھی وہاں درجنوں اداروں نے کورونا سے بچاؤ کی مہمات کا بھی آغاز کر دیا تھا۔ ان اداروں میں اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسف بھی شامل تھا جس نے اس علاقے کے نوجوانوں کو ہی اس مہم کے لئے استمال کیا تھا۔
ٹی این این کا علاقے کے مختلف لوگوں سے گفتگو میں واسطہ ایک ایسے نوجوان سے بھی پڑا جسے منگا میں آگاہی پھیلانے پر یونیسیف کی طرف سے سرٹیفیکیٹ بھی عطا کیا گیا ہے۔
ٹی این این سے گفتگو میں اس نوجوان نے کہا کہ انہیں خود کورونا وائرس کی موجودگی کا یقین نہیں ہے لیکن پھر بھی لوگوں کو اس وائرس سے ڈراتا رہا۔
انہوں نے کہا کہ آگاہی مہم میں انہوں نے 25 حجروں اور 36 مساجد کے دورے کئے اور لوگوں کو احتیاطی تدابیر کے حوالے سے آگاہی دی۔
خود وباء پر یقین نہ ہونے کے باوجود لوگوں میں آگاہی پھیلانے کا کیا جواز تھا؟ اس حوالے سے اس نوجوان نے کہا کہ وہ چاہتا تھا کہ لوگ ایس او پیز پر عمل درآمد کریں تاکہ لاک ڈاؤن ختم ہو جائے اور ان کی مشکلات کم ہوں۔
نوجوان اپنے موقف کے حوالے سے مزید کہتے ہیں کہ اگر کورونا وائرس کا وجود ہوتا اور یہ اتنی تیزی اور آسانی سے پھیلتا جس طرح بتایا جا رہا ہے تو سعادت خان سے ملنے والا کوئی بھی شخص اس سے نہ بچتا، ان سے ہزاروں لوگوں ملے لیکن ٹسٹ صرف 40 کا مثبت آیا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
مردان کی موجودہ صورتحال
پاکستان میں کورونا کا پہلا کیس 26 فروری کو کراچی جبکہ پہلی ہلاکت 18 مارچ کو مردان منگا رپورٹ ہوئی تھی۔ اس وقت (14 جولائی) تک ملک بھر میں مثبت کیسز 2 لاکھ 55 ہزار جبکہ اموات 5 ہزار 360 سے تجاوز کر چکی ہیں۔
خیبر پختونخوا میں مجموعی کیسز 30 ہزار سے بڑھ چکے ہیں جن میں صوبے کے دوسرے بڑے اور ملک کی پہلی ہلاکت ریکارڈ کرنے والے ضلع مردان کی تعداد صرف 1159 ہے۔ اسی طرح صوبے میں کل 1106 اموات میں بھی مردان میں صرف 55 اموات سامنے آئی ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ مردان میں کم کیسز رپورٹ ہونے کی ایک بڑی وجہ منگا کا کامیاب لاک ڈاؤن ہے جبکہ دوسری جانب ناقدین کہتے ہیں کہ مردان میں ابھی تک مجموعی طور پر 5 ہزار 130 ٹیسٹس ہوئے ہیں اور کم کیسز رپورٹ ہونا دراصل یہاں کم ٹیسٹس کا نتیجہ ہے۔
مردان انتظامیہ کے لئے سمارٹ لاک ڈاؤن کا نفاذ اور انتظام دوسروں کے برعکس آسان کیوں ہیں؟
ملک بھر میں وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر جزوی لاک ڈاؤن کے بعد اب سمارٹ لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جس میں سارے ضلعے، تحصیل، یونین کونسل یا ویلج کونسل کی بجائے اس مخصوص علاقے میں لاک ڈاؤن نافذ کیا جاتا ہے جہاں کورونا وائرس کے لحاظ سے ہاٹ سپاٹ ہو یعنی اس علاقے میں مثبت کیسز زیادہ ہوں۔
اس سلسلے میں مردان میں پہلا سمارٹ لاک ڈاؤن 16 جون کو چھ علاقوں میں نافذ کر دیا گیا جن میں دامن کوہ، مزدور آباد روڈ، تحصیل روڈ کاٹلنگ، شیخ ملتون سیکٹر اے، جان آباد دوسہرہ چوک اور بجلی گھر شامل تھے۔
اسی طرح 23 جون کو لوند خوڑ کے ایک محلہ کے علاوہ شیخ ملتون کے سیکٹر بی اور جی میں بھی سمارٹ لاک ڈاؤن لگایا گیا تھا۔
سمارٹ لاک ڈاؤن منگا میں لگائے گئے لاک ڈاؤن سے کس طرح مختلف ہیں؟ اس حوالے سے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کہتے ہیں کہ منگا کے لاک ڈاؤن کو ہم مکمل لاک ڈاؤن کہتے ہیں جن میں 6500 گھرانوں کو قرنطین کیا گیا تھا جبکہ سمارٹ لاک ڈاؤن اس کے مقابلے میں بہت ہی چھوٹی سطح پر ہوتا ہے جس میں چند سو افراد کو اپنے علاقے تک محدود کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ منگا لاک ڈاؤن سے مردان انتظامیہ کا سمارٹ لاک ڈاؤن کے اس سلسلے کے لئے ایک طرح کا ہوم ورک ہو چکا ہے۔ جس انتظامیہ نے 56 ہزار آبادی کے لئے ایک مہینے تک راشن کا بندوبست کیا، ان کا علاقے کے اندر رہنا ممکن بنایا اب اس انتظامیہ کے لئے چودہ دنوں کے لئے سمارٹ لاک ڈاؤن میں لوگوں کو سنبھالنا بہت ہی آسان ہے۔
مردان میں سمارٹ لاک ڈاؤن کے پہلے دو مراحل میں شامل علاقوں سے لاک ڈاؤن ہٹا کر مزید تین علاقوں کاروان روڈ، محبت آباد اور پیرانو ڈاگہ میں نافذ کیا گیا ہے۔
اے ڈی سی کہتے ہیں کہ پہلے دو سمارٹ لاک ڈاؤن والے علاقوں کی مجموعی آبادی 13 ہزار تھی جبکہ موجودہ تین علاقوں کی مجموعی آبادی دس ہزار سے کم ہے جس کے لئے تمام انتظامات کی فراہمی اب انتظامیہ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔