خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

کیا ہاتھ دھونے سے آپ واقعی کورونا سے بچ سکتے ہیں؟

سلمان یوسفزے

کورونا وائرس پر قابو پانے کے لئے دنیا بھر میں تقریباً 100 ویکسینز کی تیاریاں مختلف مراحل میں ہیں، اس کے علاوہ کئی ادویات بھی کچھ نہ کچھ حد تک اس کے خلاف کارآمد قرار دی جا چکی ہیں لیکن اب تک نہ تو اس کا کوئی مخصوص علاج دریافت ہوا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسی کسی ویکسین بننے کی امید ہے جو اس وائرس کے خلاف 100 فیصد موثر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین اس وائرس سے بچاؤ کا واحد حل صرف اور صرف احتیاطی تدابیر کو قرار دیتے ہیں۔

ان احتیاطی تدابیر میں زیادہ تر سماجی فاصلہ رکھنا، ہاتھوں کو بار بار دھونا، چہرے کو چھونے سے اجتناب کرنا اور چند ایک مزید شامل ہیں۔

یہاں یہ سوال غور طلب ہے کہ ان مخصوص تدابیر کے اپنانے سے کیا واقعی اس وائرس سے بچا جا سکتا ہے کیونکہ اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے باوجود بعض افراد اس وائرس سے متاثر ہو جاتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ ان تدابیر کے پیچھے لاجک کیا ہے؟  اس حوالے سے ہم نے چند ماہرین کی رائے لی ہے۔

میل جول کم، یا پھر احتیاط ضروری ہے

کورونا وائرس کی تخلیق کے بارے میں ابھی تک ماہرین کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں، امریکہ اور چین ایک دوسرے پر الزامات لگاتے آئے ہیں کہ یہ وائرس لیبارٹری میں تخلیق کیا گیا ہے جبکہ ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ چین کے شہر ووہان میں یہ وائرس چمگادڑ یا کسی دوسرے جانور سے انسانوں کو منتقل ہوا ہے۔

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے میڈیکل سپشیلسٹ اور ہسپتال رجسٹرار ڈاکٹر محمد زیب کہتے ہیں کہ وائرس جہاں سے بھی آیا ہے، لیبارٹری میں تیارشدہ ہے یا قدرتی، لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ دنیا بھر میں اس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار انسان ہی ہے۔ یہ وائرس انسان ہی سے دوسرے انسان میں منتقل ہو رہا ہے، جتنا زیادہ انسانوں کا آپس میں میل جول ہو گا یہ وائرس اتنا ہی زیادہ پھیلے گا۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر زیب نے کہا کہ علاج دریافت ہونے یا ویکسین بن جانے تک یہ وائرس ساری دنیا کے لئے خطرناک ہی رہے گا اور تب تک اس کے اثرات کم کرنے کا واحد راستہ احتیاطی تدابیر ہی ہیں۔

بہترین تدبیر، میل جول میں کمی

ماہرین سمجھتے ہیں کہ وائرس کا پھیلاؤ کم کرنے کا بہترین حل انسانوں کا آمد و رفت، میل جول میں کمی اور سماجی فاصلہ رکھنے میں پوشیدہ ہے۔

ڈاکٹر زیب بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ متاثرہ شخص اپنے اردگرد موجود درجنوں لوگوں میں بھی اس وائرس کی منتقلی کا ذریعہ بن سکتا ہے اس لئے جتنا کم میل جول اتنا کم وائرس پھیلے گا۔ کورونا وائرس کے متاثرین میں 80 فیصد ایسے ہوتے ہیں جن میں کسی قسم کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں اور یہی اس کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے کیونکہ جن لوگوں میں علامات ظاہر ہو جاتی ہیں وہ تو گھروں میں، حکومتی قرنطینہ مراکز یا ہسپتالوں میں آئسولیٹ ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں 26 فروری کو کورونا کا پہلا مریض سامنے آیا جبکہ اس وائرس سے پہلی ہلاکت 18 مارچ کو رپورٹ ہوئی۔ ملک بھر میں 22 مارچ تک مجموعی متاثرین 786 اور ہلاکتیں 6 تک پہنچ گئی تھیں جب وزیراعظم عمران خان نے وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ملک میں جزوی لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا اعلان کیا۔

یہ لاک ڈاؤن چین اور یورپی ممالک کی طرح تو نہیں تھا لیکن جزوی لاک ڈاؤن میں چند ضروری اشیاء والی دوکانوں کے علاوہ تمام کاروبار، تعلیمی ادارے، ہوٹل و ریسٹورنٹس سمیت رش کا باعث بننے والے تمام مقامات کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا۔

اس دوران مساجد میں بھی 5 سے زائد افراد کے باجماعت نماز پر پابندی عائد کر دی گئی اور عوام کو نماز گھروں پر ادا کرنے کی تلقین کی گئی۔ اپریل کے آخری عشرے میں رمضان کے آغاز کے ساتھ مساجد کے لئے لاک ڈاؤں میں نرمی کی گئی اور ایس او پیز کے تحت نماز و تراویح کی ادائیگی کی اجازت دی گئی لیکن عید سے چند دن پہلے کاروبار کو بھی کھولنے کی اجازت دی گئی۔

ڈاکٹر زیب کہتے ہیں اگر اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو جب سے لاک ڈاؤن میں نرمی لائی گئی تب سے ملک میں کورونا کے کیسز میں خاطر خوا اضافہ ہوا ہے اور آج تک روزانہ کی بنیاد پر نہ صرف مثبت کیسز بڑھتے جا رہے ہیں بلکہ اموات بھی کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔

ہاتھ دھونے کے پیچھے لاجک کیا ہے؟

کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لئے جس طرح سماجی فاصلہ ضروری ہے اسی طرح صحت عامہ کے ماہرین کہتے ہیں کہ کورونا وائرس سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے بار بار صابن سے ہاتھ دھونے چاہئیں۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر انسان کی اتنے پانی اور صابن تک رسائی ہے کہ وہ دن میں متعدد بار ہاتھ دھوئے اور ایسا کئی دنوں، ہفتوں اور مہینوں تک کرتا رہے؟

پانی کی فراہمی اور صفائی کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف کی ایک مشترکہ تحقیق کے مطابق 7 ارب آبادی کی حامل دنیا میں 3 ارب لوگوں کو گھروں میں پانی اور صآبن دستیاب نہیں ہے، 90 کروڑ بچوں کے لئے تعلیمی اداروں میں پانی اور صابن نہیں ہے، 40 فیصد ہسپتالوں اور دوسرے صحت کے مراکز میں ہاتھوں کی صفائی کی سہولیات دستیاب نہیں۔

رپورٹ میں پاکستان کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ یہاں پر 9 فیصد لوگوں کو پانی تک جبکہ 40 فیصد آبادی کو صفائی کے بنیادی ساز و سامان تک رسائی نہیں ہے۔ ڈبلیو ایچ او اور یونیسیف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانی، صابن اور بنیادی صفائی تک محدود رسائی بعض معاشروں میں کورونا کا پھیلاؤ مزید تیز کر سکتی ہے۔

جن لوگوں کو پانی اور صابن تک رسائی حاصل ہے ان کے لئے ہاتھوں کا اتنے تسلسل سے دھونا کیوں ضروری ہے؟ اس حوالے سے ڈاکٹر زیب کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کے اندر وائرس مختلف طریقوں سے داخل ہو سکتا ہے لیکن سب سے عام جو ذریعہ جو ہے وہ آپ کا اپنا ہاتھ ہے۔

جب آپ کسی ایسی چیز کو ہاتھ لگاتے ہیں جہاں وائرس موجود ہو، یا کسی ایسے شخص سے ہاتھ ملاتے ہیں جس کے اندر وائرس آ چکا ہو تو وہ آپ کے ہاتھوں کے ساتھ چپک جاتا ہے اور وہ کئی دن تک آپ کے ہاتھ پر موجود رہ سکتا ہے۔ اور وائرس سے متاثرہ ہاتھ سے جب آپ منہ، ناک یا آنکھ چھوتے ہیں تو وائرس اپ کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر محمد زیب کے مطابق جب ہم صابن سے ہاتھ دھوتے ہیں تو اس کی وجہ سے وہ وائرس مر جاتا ہے۔

ان کے بقول خیبر پختونخوا میں زیادہ تر لوگ ان احکامات پر عمل نہیں کرتے جس کی سب بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ کورونا ایک وائرس ہے جس سے نہ وہ خود بلکہ پوری سوسائٹی کو خطرہ لاحق ہے۔

ڈاکٹر محمد زیب نے مثال دی کہ اکثر لوگ دوسروں سے نسوار، پان یا سگریٹ لے کر منہ میں رکھتے ہیں اور انہیں یہ بالکل اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ اس سے کتنی آسانی سے وائرس ان کو منتقل ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہاتھ دھونے کے ساتھ یہ بھی ایک ضروری عمل ہے کہ ہم اپنے چہرے کو چھونے سے اجتناب کریں کیونکہ اس عمل کے ذریعے وائرس ہمارے جسم کے اندر منتقل ہو سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری روزمرہ زندگی میں ہم اس طرح کی حرکت کے عادی ہو چکے ہیں جو ہمیں لاشعوری طور پر مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں سے نہ صرف چہرے کو چھوئیں بلکہ بعض اوقات ہم اپنے ہاتھوں کی انگلیاں بھی منہ میں ڈال لیتے ہیں۔

اس سلسلے میں کئی سائنسی مطالعے کیے گئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک انسان اوسطاً ایک گھنٹے میں 15 سے 23 بار اپنا چہرہ چھوتا ہے جس میں تقریباً نصف بار وہ اپنی ناک کھجاتا ہے یا اسے صاف کرتا ہے۔ اور باقی نصف وہ آنکھوں کو مسلنے، کانوں کو رگڑنے اور مروڑنے، چہرے کے کسی حصے کو مسلنے یا چھونے میں لگاتا ہے۔ تاہم لوگوں کی موجودگی میں چہرے کو چھونے کے تواتر میں کمی آ جاتی ہے لیکن ہاتھ پھر بھی نہیں رکتے اور وہ غیر ارادی طور پر ارد گرد پڑی دوسری چیزوں کو چھوتا رہتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چہرے کو چھونا اتنا فطری عمل ہے کہ جب ماں کے پیٹ میں بچے میں جان آ جاتی ہے تو اس کا ہاتھ بار بار اپنے چہرے کی طرف جاتا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ہم دن بھر میں سینکڑوں بار اپنے چہرے کو چھوتے ہیں۔

چہرے کو چھونے کی عادت کیسے چھوڑی جائے ؟

اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک سیدھا سادہ طریقہ ہے کہ جب کوئی شخص بار بار اپنا چہرہ چھو رہا ہو تو اسے روک دیں۔ لیکن مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ جب آپ کو اپنا چہرہ چھونے سے روکا جائے تو چہرے کے کسی حصے یا ناک پر کھجلی ہونے لگتی ہے اور آپ کے لیے اپنا ہاتھ روکنا ممکن نہیں رہتا۔ اسی لیے طبی ماہرین یہ مشورہ دیتے ہیں کہ آپ دن میں کئی کئی بار اپنے ہاتھ صابن سے کم ازکم 20 سیکنڈ تک خوب اچھی طرح دھوئیں، خاص طور پر اس وقت جب آپ کو کوئی ایسی چیز چھونا پڑے جس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ اسے پہلے کسی نے چھوا تھا۔

ماہرینِ نفسیات کیا کہتے ہیں ؟

ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ کئی مطالعاتی جائزوں سے پتا چلا ہے کہ جب انسان ذہنی دباؤ میں ہوتا ہے تو غیر ارادی طور پر چہرہ چھونے کا عمل کئی گنا بڑھ جاتا ہے .یہ عمل ذہنی دباؤ یا پریشانی کا ایک لاشعوری ردعمل ہے اور ایسا کرتے ہوئے انسان دباؤ سے چھٹکارے کے لیے اپنی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ چہرے کو اپنے ہاتھوں سے بار بار چھونے کے عمل سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ایسی صورت حال سے دور رہنے کی کوشش کریں جو آپ کو پریشانی یا ذہنی دباؤ میں ڈالنے کا باعث بن سکتی ہو۔

پشاورمیں آئی پی ایس ایس انسٹی ٹیوٹ آف سائیکالوجیکل سٹڈیز سے وابستہ ماہر نفسیات ڈاکٹر فضل اللہ کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وبائی صورتحال میں عالمی ادارہ صحت نے اس لئے ہاتھ دھونے پر زور دیا ہے کیونکہ ہم روزمرہ زندگی میں زیادہ تر کام ہاتھوں سے کرتے ہیں جس میں کھانا پینا اور دیگر ضروریات شامل ہیں۔

مثال کے طور پر جب ہم گھر سے نکلتے ہیں تو دروازہ ہاتھوں سے کھولتے ہیں، کسی پبلک یا پرسنل ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں تو بس/کار میں چڑھتے اور بیٹھتے وقت اپنے آپ کو بیلنس کرنے کے لئے ہاتھوں کا سہارا لیتے ہیں جس سے جراثیم/ وائرس ہمارے ہاتھوں پر لگ جاتے ہیں اس لئے وائرس سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم فوراً اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح صابن دھو لیں۔

ٹی این این سے بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ کورونا وائرس دو طریقوں سے کسی ایک جسم سے دوسرے جسم منتقل ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ اگر ہم نے باہر کسی ایسی چیز کو چھوا ہو جس پر پہلے سے کورونا وائرس موجود ہو اور دوسرا یہ کہ جب ہم کورونا وائرس کے مریض کے ساتھ رہتے ہیں تو اس کی چھینک کے ذریعے آس پاس کے لوگوں کو وائرس بہ آسانی منتقل ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر فضل اللہ کے بقول ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں کے لوگ پہلے سے مخلتف قسم کے پروپیگنڈوں کا شکار ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے وہ مہلک کورونا وائرس کو مذاق سمجتھے ہیں اور احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کرتے۔

فضل اللہ کے مطابق ایک ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ قوم کو ذہنی طور ہر قسم کے مسائل سے نمنٹنے کے لئے تیار رکھے۔ اگر دیکھا جائے تو پچھلے چالیس پچاس سالوں سے خیبر پختونخوا کے عوام نے جنگوں کا سامنا کیا ہے جس کا ان لوگوں کی نفسیات پر بہت گہرا اثر پڑا ہے اور یہ لوگ اس وائرس سمیت ہر مسئلے کو تب تک سنجیدہ نہیں لیتے جب تک وہ خود اس کا شکار نہیں ہو جاتے۔

دیگر کون سے طریقے ہیں؟

ڈاکٹر زیب کا کہنا ہے کہ کورونا سے بچنے کے لئے ماسک کا استمال بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ وائرس متاثرہ شخص کی چھینک، کھانسی اور حتیٰ کے باتوں کے دوران بھی نزدیک موجود دوسرے لوگوں میں منتقل ہو سکتا ہے تو اس لئے اگر منہ اور ناک پر ماسک ہو تو یہ خطرہ کم سے کم رہتا ہے۔ اور اگر خداںخواستہ آپ کورونا وائرس سے متاثر ہیں تو ماسک لگانے سے آپ بھی اسے پھیلانے سے روک سکتے ہیں، ماسک نہ ہو تو کھانستے یا چھینکتے ہوئے اپنے منہ کو ڈھانپیں، بہتر ہوگا کہ ٹشو سے اور اس کے فوری بعد اپنے ہاتھ دھوئیں تاکہ وائرس پھیل نہ سکے۔

اگر طبیعت خراب ہو تو گھر میں رہیں۔ اگر بخار ہو، کھانسی یا سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہو تو فوری طبی امداد حاصل کریں، طبی حکام کی ہدایت پر عمل کریں، مجمع میں جانے سے گریز کریں اور کسی ضرورت کے تحت کہیں جانا پڑے تو دوسرے لوگوں سے 6 فٹ کا فاصلہ یقینی بنائیں۔

حکومت پاکستان کی نئی پالیسی

کورونا سے بچنے اور اس کا پھیلاؤ روکنے کے لئے جہاں حکومت کی جانب سے عوام میں سماجی فاصلوں، ہاتھ کی صفائی کے لئے صابن یا سینیٹائزر اور ماسک کے استعمال کے ساتھ ساتھ مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دیا جا رہا ہے وہاں وزیراعظم عمران خان نے ملک بھر میں جزوی لاک ڈاؤن یہ کہہ کر ختم کر دیا ہے کہ کاروباری مراکز بند ہونے اور معیشت کا پہیہ رکنے سے عوام پر بہت اثر پڑا ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ غریب عوام کورونا سے مریں نہ مریں بھوک سے مر جائیں گے۔

حکومت پاکستان نے جزوی لاک ڈاؤن کی جگہ اب سمارٹ لاک ڈاؤن کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کر دی ہے۔

سمارٹ لاک ڈاؤن سے مراد یہ ہے کہ کسی شہر میں ایسے علاقے جہاں کرونا کی وباء تشویشناک صورتحال اختیار کر جائے تو ان علاقوں کو ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے مکمل طور پر سیل یعنی وہاں کے رہائشیوں کو متاثرہ علاقے سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جاتی صرف ایمرجنسی کی صورت میں ہی وہ علاقے سے کچھ شرائط کے تحت باہر جا سکتے ہیں جیسے کسی مریض کی حالت تشویشناک ہو اور اسے ہسپتال لے جانا پڑے۔

ٹی این این سے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی عبدالقیوم آفریدی نے کہا کہ سمارٹ لاک ڈاؤن مکمل لاک ڈاؤن سے مخلتف ہے کیونکہ پہلے جب کسی علاقے میں کورونا وائرس کا کیس رپورٹ ہو جاتا تو حکومت وہاں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کرتی تھی اور اس علاقے کے کسی بھی فرد کو لاک ڈاؤن کے دوران باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔

ان کے مطابق اس وقت خیبرپختونخوا کے 290 علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے جس میں پشاور کے 12 سے زائد علاقے بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سمارٹ لاک ڈاؤن میں ان اضلاع کی یونین کونسلوں، گلیوں اور بلاکس جہاں کورونا کیسز کی تعداد زیادہ ہے انہیں مکمل طور پر سیل کر دیا جاتا ہے اور اس علاقے میں آنا جانا ممنوع ہوتا ہے، سماجی اور مذہبی اجتماعات پر پابندی ہوتی ہے۔ شہری سودا، سلف اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء اپنے ہی علاقے کی حدود میں خرید سکتے ہیں جبکہ انتطامیہ اس علاقے کے رہائشیوں کو اشیائے ضروریہ فراہم کرنے کی پابند ہے۔ سمارٹ لاک ڈاؤن میں ایس او پیز کے تحت صرف کریانہ، میڈیکل سٹورز، تندور کھولنے کی اجازت ہے۔

عبدالقیوم آفریدی کے مطابق پاکستان ایک غریب ملک ہے اور وزیراعظم عمران خان بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہم مکمل لاک ڈاؤن برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ مکمل لاک ڈاؤن سے مزدور طبقہ متاثر ہوتا ہے اس لئے ہمیں ایسا لاک ڈاؤن چاہیے جس میں معیشت بھی چلتی رہے اورمزدور طبقہ بھی متاثر نہ ہو۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button