بین الاقوامیفیچرز اور انٹرویو

”افغانیوں کیلئے الگ چینل نا سہی مخصوص پروگرام تو ضرور ہونا چاہئے”

ناہید جہانگیر

”معلومات تک رسائی کا خلا پر کرنے کے لئے افغانیوں کا الگ چینل اگر نا بھی ہو تو ایک الگ پروگرام ایسا ضرور ہونا چاہئے جس میں تمام مواد افغانیوں کے معتلق ہو اور ساتھ میں افغان جوانوں کو بھی صحافتی تربیت دی جائے جو اپنے افغان باشندوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے کام کریں۔” گذشتہ 22 برسوں سے پشاور میں مقیم افغانستان سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی قاندی صافی نے کہا۔

ٹی این این کی جانب سے مہاجرین کے عالمی دن کے حوالے سے پیش کئے گئے خصوصی پروگرام ”معلومات تک رسائی میں درپیش مسائل” میں افغانستان کی قاندی صافی اور نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی خالدہ نیاز نے افغان یا مہاجرین کو معلومات تک رسائی میں درپیش مسائل پر روشنی ڈالی۔

دسمبر 2004 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرداد پیش کی گئی تھی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہر سال 20 جون کو مہاجرین یا پناہ گزینوں کا عالمی دن منایا جائے گا۔ پاکستان دنیا کا پانچواں ملک ہے جہاں زیادہ تعداد میں مہاجرین مقیم ہیں۔

افغان صحافی اور سماجی ورکر قاندی صافی نے کہا، ”ہجرت کی زندگی اتنی آسان نہیں ہے، یہاں میں محفوظ تھی لیکن پھر بھی پوری رات نہ سو سکی، ڈر کی وجہ سے نہیں، بلکہ یہ سوچ کر کہ کتنا امن، امان اور سکون ہے، راکٹ لانچر کی کوئی آواز کانوں تک پوری رات نہیں پہنچی، اسی رات سے پشاور میں نئی زندگی کی شروعات کیں۔”

ٹی این این کے خصوصی پروگرام میں قاندی صافی اور خالدہ نیاز میزبان ناہید جہانگیر کے ہمراہ

”افغان مہاجرین کے مسائل اس طریقے سے میڈیا میں پیش نہیں کیے جاتے جس طرح سے ہونا چاہئے حالانکہ پاکستان میں بڑے بڑے نیوز چینل ہیں لیکن افغان مہاجرین کو زیادہ جگہ یا ٹائم نہیں دیتے، مرد کو تو پھر بھی کہیں نا کہیں سے خبر مل جاتی ہے لیکن افغان خواتین بالکل بے خبر ہوتی ہیں، اتنی زیادہ پڑھی لکھی بھی نہیں ہوتیں جو سوشل میڈیا کا استعمال کر سکیں کیونکہ ایک سوشل میڈیا ہی ہے جس کے ذریعے ان کو افغان مہاجرین کے حوالے سے خبر مل جاتی ہیں۔ نہ صرف افغان مہاجرین بلکہ پاکستان میں بد امنی کی وجہ سے متاثر ہونے والے متاثرین کو بھی میڈیا میں زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔” خالدہ نیاز نے بتایا۔

خالدہ نیاز نے ٹی ڈی پیز اور افغان مہاجرین پر کام کیا ہے لیکن پھر بھی وہ سمجھتی ہیں کہ علاقائی میڈیا میں ان کے مسائل کو کافی جگہ دینے کی ضرورت ہے، اگر میڈیا ادارے جس طرح رپورٹر کو بیٹس دیتے ہیں، اگر ایک رپورٹر کو افغان مسائل پر بھی کام کرنے کی بیٹ دیں تو کچھ حد تک یہ خلا پر کیا جا سکتا ہے۔

خالدہ نیاز نے کہا کہ بیٹ دینے کے ساتھ ساتھ اگر کسی افغان رپورٹر کو ہی یہ مسائل اجاگر کرنے پر مامور کیا جائے تو کافی حد تک بہتری آسکتی ہے کیونکہ پاکستان میں 14 لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہیں جن میں سے 8 لاکھ 25 ہزار خیبر پختونخوا میں ہیں، بلوچستان میں 3 لاکھ 25 ہزار، پنجاب میں 1 لاکھ 60 ہزار جبکہ سندھ میں 65 ہزار مقیم ہیں تو پھر اس حساب سے ان کو میڈیا میں نمائندگی بھی دی جائے جو اب وقت کا تقاضہ ہے۔

قاندی صافی نے جب کہا کہ افغان خواتین ٹی وی اور ریڈیو زیادہ دیکھتی اور سنتی ہیں لیکن بجلی نا ہونے کی وجہ سے ٹی وی سے بھی محروم رہ جاتی ہیں، جو پڑھی لکھی خواتین ہیں وہ سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ کرتی ہیں تو اس پر خالدہ نیاز کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا جہاں ایک تیز اور بہترمیڈیم ہے وہاں چیک اینڈ بیلنس نا ہونے کی وجہ سے اکثر نیوز جعلی ہوتی ہیں جو لوگوں کو معلومات کی بجائے مس گائیڈ کرتی ہیں۔

قاندی صافی کے مطابق میڈیا ادارے بھی افغانیوں کو مواقع نہیں دیتے لیکن اس کے ساتھ ساتھ افغانیوں میں بھی میڈیا کی طرف آنے کا رحجان کم رہا ہے، ان کو بھی اب زیادہ توجہ دینا چاہئے کہ وہ اب میڈیا میں کام کرنا شروع کریں یا بطور روزگار اس پیشے کو ترجیح دیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button