‘یہ تو مردوں کا کام ہے تم عورت ہو کر کاروبار کیسے کرو گی؟’
سلمان یوسفزے
’جب نے میں نے اپنے شوق کی خاطر ایک بوتیک کھولا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ کاروبار 13 سال بعد مجھے ضلع کی تمام کاروباری خواتین کی سربراہ بنا دے گا۔’
سیدہ نازیہ شاہ 6 مہینے پہلے مردان وومن چیمبر آف کامرس کی صدر منتخب ہو چکی ہیں جو ان کے خیال میں خوشی سے زیادہ ان کے لئے ایک امتحان ہے کیونکہ ان خواتین نے مجھے بلا مقابلہ یہ عہدہ اس لئے دیا ہے کہ ان کے لئے کچھ کرسکوں۔
سیدہ نازیہ شاہ مردان کے ایک چھوٹے سے گاوں باغیچہ ڈھیری سے تعلق رکھتی ہیں اور کاروبار میں آنے سے پہلے شعبہ درس و تدریس اور پھر سوشل سیکٹر میں خدمات سرانجام دے چکی ہیں لیکن اب وہ ایک باقاعدہ بزنس وومن بن چکی ہیں۔
"آج سے 19 سال پہلے جب میں نے ضلع مردان کے طورو مایار کالج میں بطور لیکچرار اپنی ذمہ داری سنھبالی تو مجھے احساس ہوا کہ میں تعلیمی میدان میں اپنی خدمات نہیں دے سکتی کیونکہ میں خود کو سوشل او پولیٹکیل سیکٹر میں دیکھنا چاپتی تھی اور جب مجھے یونیسف میں سوشل سیکٹر پر کام کرنے کا موقع ملا پھر میں نے مڑ کر نہیں دیکھا اور اپنی منزل کی طرف چل پڑی۔” انہوں نے کہا۔
سیدہ نازنہ شاہ کا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے ہے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں باغچہ ڈھیری سے حاصل کی اور اس کے بعد گورنمنٹ ڈگری کالج مردان سے گریجویشن اور پشاور یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ پچھلے 13 سال سے اپنا کاروبار چلا رہی ہیں اور اب انہوں نے بوتیک کے علاوہ ایک ہوٹل بھی کھولا ہے۔
بقول ان کے جب وہ کاروبار شروع کرنے کے حوالے سے بات کرتیں تو ہر کوئی ان سے کہتا تھا کہ یہ تو مردوں کا کام ہے تم عورت ہوکر کاروبار کیسے کرو گی؟
انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا، "مجھے پچپن میں اپنی ماں نے کہا تھا کہ بیٹا زندگی میں کبھی بھی کسی بھی مقام پر مایوس مت ہونا اور آج تک مجھے وہ بات یاد ہے اس لئے میں کبھی بھی مایوسی کا شکار نہیں ہوئی اور توکل کرکے اپنا کاروبار شروع کیا اور آج میں اس پوزیشن میں ہوں کہ مردان میں ایک کاروباری ادارے، وومن چیمبر، کی صدر ہوں۔ ”
سیدہ نازنہ نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے کاروبار کو ترقی ملی اور انہوں نے ایک ہوٹل بھی کھول لیا اور خود کو اس معاشرے کی خواتین کیلئے بطور مثال پیش کیا۔
مردان وومن چیمبر کی صدر سیدہ نازیہ شاہ اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں بھی کافی فعال ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف اگر میں اپنی کاروباری سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہوں تو دوسری طرف میں ایک سیاسی پارٹی عوامی نِشنل پارٹی سے بھی تعلق رکھتی ہوں۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کی کوشش ہے کہ معاشرے کی بھلائی کے لئے جدوجہد کریں اور کاروبار کرنے کی خواہش مند خواتین کے لئے ایسا کچھ کر سکیں کہ ان کا سامنا کبھی ان مشکلات سے نہ ہو جو کبھی ان کی راہ میں رکاوٹ بن کر آئیں تھیں۔
انہوں مزید کہا کہ اگر کوئی مرد یا عورت اپنا کاروبار شروع کرنا چاہتی ہے تو سب پہلے اسے چاہیے کہ وہ خود یہ فیصلہ کرے کہ کس قسم کا کاروبار شروع کرنا ہے کیونکہ بعض اوقات کچھ لوگ جلد بازی میں کاروبار شروع کر دیتے ہیں اور پھر بعد میں انہیں پتہ چلتا ہے کہ یہ کاروبار میرے لئے اور میں اس کاروبار کے لئے موزوں نہیں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں کسی بھی شعبہ میں کام کرنا مشکل نہیں ہے بشرطیکہ اآپ اس کام کے قابل ہوں اور دوسرا یہ کہ آپ کی سوچ اجتماعی ہو۔
ان کے بقول اگر کسی کو کوئی ذمہ داری سونپ دی جائی اور وہ اسے تقسیم کرے تو بہت سے کام آسان ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے اپنی مثال دی اور کہا، ‘اس وقت مجھ پر ایک افسر کی ذمہ داری بھی ہے، میں کسی کی بیوی بھی ہوں، میرے بچے بھی ہیں اور میں ایک سیاسی پارٹی کے لئے بھی وقت نکال لیتی ہوں اور میں یہ سب اس لئے منیج کر رہی ہوں کہ میں چاہے گھر ہو، دفتر ہو، کاروباری مرکز ہو یا پارٹی آفس ہر جگہ ٹیم کے طور پر کام کرتی ہوں اور کبھی بھی یہ نہیں کہتی کہ میں نے ایسا کیا بلکہ ہمیشہ ہم کا لفظ استمال کرتی ہوں۔’
ان کے مطابق مردان وومن چیمبر کی صدرارت سے پہلے انہوں نے یو این کی جتنی بھی ایجنسیاں ہیں ان کے ساتھ کام کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے ممبران اور وزراء کی کیپسٹی بلڈنگ کروانے کے لئے ان کو تربیت بھی دیتی رہی ہیں۔
سیدہ نازنہ شاہ کو پشاور کے سابق کور کمانڈر سید مظہر شاہین کی طرف سے خواتین کے حقوق اور ان کے مسائل کے حل کیلئے جدوجہد پر گولڈ میڈل بھی دیا گیا ہے۔