بصیرت خان قبائلی خواتین کی تقدیر بدلنے نکل پڑی ہیں؟
خالدہ نیاز
‘ جس دن میں ایم پی اے کے طور پر حلف لے رہی تھی تو اس وقت بڑے آپریشن کے ذریعے ہونے والے والا میرا اکلوتا بیٹا صرف 18 دن کا تھا، اس کو میں گاڑی میں ساتھ لائی تھی ‘
ان خیالات کا اظہار قبائلی سے بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے خواتین کی مخصوص نشست پرمنتخب ہونے والی بصیرت خان نے ٹی این این کے ساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران کیا۔ بصیرت خان کا تعلق ضلع خیبرکی تحصیل لنڈی کوتل کے شنواری قبیلے سے ہیں۔ انہوں نے انٹرنیشنل ریلیشن اور پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کررکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کے ساتھ باہر کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن اب جب انہوں نے ذمہ داری لی ہے تو وہ اس کو بھرپور طریقے سے اداکرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ بصیرت خان نے سیاست میں آنے سے پہلے انٹرنیشنل اداروں کے ساتھ مانیٹرنگ آفیسر کے حیث پہ کام کیا ہے اور تعلیم اور صحت پربھی کام کرچکی ہیں۔
بصیرت خان نے کہا کہ فاٹا انضمام ایک بہت بڑی تبدیلی ہے کیونکہ اس کے بعد قبائلی اضلاع میں خیبرپختونخوا اسمبلی کے لیے انتخابات ہوئے جو قبائلی عوام کے لیے ایک موقع تھا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں۔
‘ضم شدہ اضلاع سے کسی خاتون کا ایم پی اے بننا ایسا تھا جیسے ایک خواب دیکھنا، انتخابات ہونے کے بعد ان کی پارٹی کو ایک ایسی خاتون کی ضرورت تھی جو تعلیم یافتہ ہو اور بات بھی کرسکے تو اس لیے میں نے اس موقع کو ضائع کئے بغیر سیاست کی طرف آئی کیونکہ میں چاہتی تھی کہ اپنے علاقے اور لوگوں کے لیے کچھ کروں اور میں کربھی رہی تھی لیکن مخصوص لوگوں کے لیے کر پارہی تھی جبکہ سیاست میں آنے سے میں بہت سے لوگوں کے لیے کام کرسکتی ہوں جس میں یہ ضروری نہیں ہے کہ میں لوگوں کو مالی فائدہ پہنچاؤں لیکن ساستدان قانون سازی کے ذریعے لوگوں کی زندگی بدل سکتے ہیں’ بصیرت خان نے بتایا۔
انہوں نے کہا کہ گھر والوں کی طرف سے ان کو مکمل تعاون حاصل ہے، ان کے والد ایک ڈرائیور تھے لیکن ان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے تعلیم حاصل کرسکیں اور انہیں کی بدولت آج وہ اس مقام پرہے۔ انہوں نے بتایا کہ شادی کے بعد ان کے شوہر ان کو ہر طرح سے سپورٹ کررہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ سیاست میں اپنے خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
انہوں نے کہا ‘ میرا اپنا خیال تھا کہ قبائلی علاقے سے نکلنا اور پھر سیاست میں آنا ایک چیلنج ہوگا لیکن جب سے میں پی اے بنی ہوں تو علاقے کی جن بچیوں نے تعلیم ادھورا چھوڑا تھا انہوں نے اب دوبارہ داخلے لے لیے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آج بصیرت ایم پی اے ہوسکتی ہیں تو کل کو انکی بچیاں بھی بن سکتی ہیں اور سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ قبائلی اضلاع میں تبدیلی آچکی ہے اور غریب طبقے سے بھی لوگ سیاست کا رخ کررہے ہیں کیونکہ میرے اپنے خاندان کا بھی سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے’
انہوں نے کہا کہ لوگوں کی توقعات ان سے بہت زیادہ ہے، مالی لحاظ سے بھی توقعات ہیں اور لوگوں کو یہ بھی لگتا ہے کہ بصیرت موقع پر ہی مسائل حل کریں گی، کہنے کی حد تک تو ہرکوئی کہہ سکتا ہے کہ ہوجائے گا لیکن بعض چیزیں ان کے اختیار میں نہیں ہے اور قبائلی اضلاع میں کام بہت زیادہ کرنا ہے کیونکہ یہ علاقے کئی دہائیوں سے بنیادی حقوق سے محروم رہے ہیں۔
بصیرت خان نے کہا کہ فی الحال وہ قبائلی اضلاع میں خواتین کے لیے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کام کرنا چاہتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ قبائلی اضلاع کی زیادہ ترخواتین پڑھی لکھی نہیں ہے تو وہ چاہتی ہیں کہ ان خواتین کے لیے ایسا پلیٹ فارم مہیا کریں جہاں پر وہ معاشی لحاظ سے خودمختاربن سکیں۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا ‘ اس سلسلے میں میری ڈونرز کے ساتھ ملاقاتیں چل رہی ہیں، اس کے ساتھ علاقے کی خواتین میں سیاسی شعور لانے کے لیے بھی میٹنگ کا اہتمام کرتی ہوں’
قبائلی اضلاع میں خواتین کو کون کون سے مسائل درپیش ہے؟ اس حوالے سے بصیرت خان نے کہا ‘میں جب بھی اپنے علاقے کی خواتین کے پاس بیٹھتی ہوں تو مجھے کہتی ہیں ہمیں پانی اور بجلی چاہیئے، بہت سے لوگوں کو شاید یہ بات عجیب لگے کہ خواتین کا پانی اور بجلی سے کیا لینا دینا لیکن قبائلی اضلاع میں خواتین ہی دور دراز کے علاقوں سے پانی بھرکر سروں پرلاتی ہیں اور بجلی نہ ہونے کہ وجہ سے وہ پہاڑوں پرچڑھ کر وہاں سے جلانے کے لیے لکڑیاں لاتی ہیں، تعلیم اور صحت تو دوسرے درجے پرآتے ہیں لیکن یہ تو بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں’
قبائلی اضلاع میں سکولوں کی حالت ابتر ہے، کئی علاقوں میں نزدیک سکول بھی نہیں ہے تو وہ لوگ پہلے ہی سے تعلیم سے دور ہے اور اگر سکول نہ ہو یا ان کی حالت ابتر ہو تو وہ کیسے تعلیم کی طرف توجہ دیں گے؟ بصیرت خان نے بتایا۔
آئندہ انتخابات میں براہ راست حصہ لینے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے فی الحال وہ کچھ نہیں کہہ سکتی کیونکہ پہلے وہ دیکھیں گی کہ اپنے لوگوں کے لیے کچھ کرسکتی ہیں کہ نہیں اور لوگوں کا اعتماد بھی حاصل کرلے کہ وہ خود کہے کہ ہاں بصیرت نے قبائلی عوام کے لیے کچھ کیا ہے اس کے بعد وہ اس بارے میں سوچیں گی۔
بصیرت خان نے کہا کہ قبائلی اضلاع کی خواتین میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ خواتین سپورٹس کے میدان میں بھی آگے آئیں اور اس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ لے۔ ‘ آج بھی میں ضلع خیبرکے سپورٹس کمپلکس گئی تھی، وہاں ڈائریکٹر نے مجھے بتایا کہ آنے والے گیمز میں 200 تک خواتین کھلاڑی چاہیئے جس میں آپ کی سپورٹ کی ضرورت ہے تو میری کوشش ہوگی کہ میں نہ صرف خواتین کو اس طرف لاؤں بلکہ ان کی ممکن حد تک مدد بھی کروں’
بصیرت کے مطابق تعلیم کے ساتھ ساتھ قبائلی اضلاع میں صحت کی سہولیات کا بھی فقدان ہے اور انکی کوشش ہوگی کہ ہسپتالوں کی حالت بہتربنائی جائے اور عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کی جاسکیں جبکہ اس سلسلے میں وہ ضلع خیبرکے ہسپتالوں کے دورے بھی کرچکی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خواتین ایم پی ایز کو اپنی آواز اٹھانے کا بھرپور موقع ملتا ہے اور خواتین بہت پراعتماد طریقے سے بات بھی کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں ان کا اپنا تجربہ بہت اچھ رہا ہے اور اگر خواتین ایم پی ایز کو کوئی مسئلہ ہو تو اس کو اسی وقت حل کردیا جاتا ہے۔