سمیرا لطیف کو ڈی آئی خان کی تاریخ بدلنے کی کیوں سوجھی؟
افتخار خان
ڈی آئی خان میں ڈیڑھ دو برس پہلے تک کسی کی سوچ میں بھی نہیں تھا کہ کسی ایونٹ میں کوئی مقامی خاتون بھی کیمرہ اور مائیک اٹھا کر لوگوں کے انٹرویوز کرے گی اور شاید یہی وجہ تھی کہ روایت کے برعکس ایسا کرنے والی لڑکی کو شروع میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی صحافتی تاریخ بدلنے والی اس لڑکی کا نام سمیرا لطیف ہے جو صرف ملازمت کے لئے نہیں بلکہ ایک مشن کے طور پر صحافت میں آئی ہیں اور وہ مشن ہے خواتین کی آواز بننا۔
‘ایک ڈیڑھ سال پہلے جب کسی جگہ کوریج کے لئے جاتی تھی تو لوگوں کا رویہ اچھا نہیں ہوتا تھا اور اکثر کہتے کہ خاتون کا کیمرہ اور مائیک کے ساتھ کیا کام؟ وہ لوگ مجھ پر آوازیں بھی کستے تھے لیکن اب وہی لوگ اپنے کئے پر پشیمان ہیں۔’
سمیرا لطیف کہتی ہیں کہ خواتین جرنلسٹ کے حوالے سے لوگوں کی سوچ اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویوں سے وہ پہلے بہت گھبرا جاتی تھیں لیکن ماں اور بہن بھائیوں کی سپورٹ نے انہیں حوصلہ دیا اور اپنی کوششوں سے لوگوں کی سوچ بدل ڈالی۔ مخالف لوگوں کی سوچ بدلنا اب تک کی ان کی سب سے بڑی کامیابی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سفر یہیں ختم ہوا بلکہ ابھی تو ابتدا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ پہلے لوگ میڈیا میں آنے والی لڑکیوں کو اخلاقیات سے عاری سمجھتے تھے لیکن اب جبکہ ان کو قریب سے جان گئے ہیں تو وہ بے جا مخالفت اب ان کے تعاون میں بدل گئی ہے۔
سمیرا لطیف نے 2018 میں گومل یونیورسٹی سے جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن میں گولڈ میڈل لیا اور تب ہی سے صحافت کے عملی میدان میں کود پڑی ہیں۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ڈی آئی خان کی گومل یونیورسٹی میں تقریباً 45 سال سے ہر سیشن میں لڑکیاں داخلہ تو لیتیں اور ڈگریاں وصول کرتی ہیں لیکن اس کے بعد غائب ہو جاتی ہیں لیکن ‘میں نے یہ روایت توڑنے کا فیصلہ کیا تھا اور اللہ کا شکر ہے اس میں کامیاب بھی ہوئی اور اب میں فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ ڈی آئی خان میں صحافت کی خواہش مند دوسری لڑکیوں کے لئے راہ میں نے ہموار کی۔’
سمیرا لطیف نے کہا کہ ان کے بعد اب دو سالوں سے عملی صحافت میں کئی اور لڑکیاں بھی آئی ہیں جو بڑی خوش آئند بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسرے سمسٹر میں ہی عملی صحافت کی تربیت لینا شروع کی اور اپنی زیادہ تر توجہ ‘موجو’ یعنی موبائل جرنلزم [موبائل فون پر ویڈیو بنانے اور ایڈیٹ کرنے] پر مرکوز رکھی اور اسی میں ہی تجربہ حاصل کیا جو کہ اب تک بہت کام آ رہا ہے۔
‘موجو میں، میں اب اتنی ایکسپرٹ ہوگئی ہوں کہ گزشتہ برس ڈی ڈبلیو کے زیر نگرانی پورے پاکستان میں سٹیزن جرنلسٹس کے درمیان ہونے والے ویڈیو مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔’ انہوں نے کہا۔
روایتی میڈیا میں بحران کے پیش نظر سمیرا لطیف کو پہلے سے ہی کسی اخبار، ٹی وی یا ریڈیو میں موقع نہ ملنے کا اندازہ تھا تو اسی لئے انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا سہارا لیا۔
خاتون صحافی نے کہا کہ سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال اور رجحان دیکھ کر انہوں نے وہی پلیٹ فارم استعمال کرنا شروع کیا کیونکہ سوشل میڈیا ویب سائٹس آج کل بعض مواقع پر مین سٹریم میڈیا سے بھی زیادہ طاقتور ثابت ہوتی ہیں۔
سمیرا لطیف اپنے فیصلوں میں خود مختار ہیں اور انہوں نے ‘انڈیپنڈنٹ وومن’ کے نام سے فیس بک پر پیج اور یوٹیوب چینل بھی بنایا ہوا ہے جس پر وہ ایسی خواتین پر بنائی جانے والی ویڈیو رپورٹس اپلوڈ کرتی ہیں جو کسی ہنر سے وابستہ ہوں یا کسی بھی شعبے میں دوسری خواتین کے لئے رول ماڈل ثابت ہوسکتی ہیں۔
ڈی آئی خان میں ایسی درجنوں خواتین ہیں جن میں سے ہر ایک کی شخصیت اور کارنامے میڈیا پر دکھانے کے قابل ہیں اور اب چونکہ فیلڈ میں خواتین صحافی بھی آئی ہیں تو اب مین سٹریم میڈیا پر نہ سہی لیکن سوشل میڈیا پر تو ایسی خواتین کو کوریج ضرور مل رہی ہے۔
‘ان رپورٹس پر لوگوں کی طرف سے بہت مثبت ردعمل آ رہا ہے جو میرے لئے آکسیجن کا کام کرتا ہے۔’ سمیرا نے بتایا۔
سمیرا لطیف کہتی ہیں کہ اب تک اپنے کام سے وہ بہت مطمئن ہیں لیکن چاہتی ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ صحافت میں یا خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والے کسی ادارے میں ملازمت بھی مل جائے تو انہیں آگے بڑھنے میں آسانی ہو گی۔