جب افغان طالبان نے علاج کے لئے پشاور کی خاتون سے رابطہ کیا
'ڈرگ مافیا نے ان لوگوں کو ہم سے ڈرایا تھا کہ ہم دھوکے سے ہسپتال لے جا کر جسم سے خون اور اعضاء نکالیں گے اور فروخت کریں گے جس کہ وجہ سے ان لوگوں نے وہ جگہ چھوڑ دی تھی'
عثمان خان
‘پشاور میں نشے میں مبتلا افراد کے لئے پہلا ہسپتال بنانا اتنا آسان نہ تھا جتنا ہم نے سوچا تھا۔ مجھے بحیثت خاتون بیک وقت پیسے کی کمی کے ساتھ ڈرگ مافیا کا بھی سامنا تھا جو نہیں چاہتے تھے کہ لوگ نشہ چھوڑ دیں کیوںکہ اس کے ساتھ ان کا کروڑوں روپے کا دھندہ وابستہ تھا۔’
حیات آباد میں قائم دوست فاونڈیشن کی سربراہ ڈاکٹر پروین اعظم خان کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنا ادارہ 1992 میں اس وقت بنایا جب ایک دن ان کا گزر کارخانوں مارکیٹ سے ہوا جہاں پر ان کی نظر درجنوں کی تعداد میں لوگوں کے مختلف ٹولیوں پر پڑی جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل تھے اور سب کے سب نشہ کر رہے تھے اور حیران کن طور پر وہاں تین نشئیوں کی لاشیں بھی پڑی تھیں لیکن کوئی ان کے قریب جا بھی نہیں رہا تھا۔
‘میں نے سب سے پہلے ان لاشوں کو دفنانے کا بندوبست کیا اور پھر چند ڈاکٹروں اور نفسیاتی ماہرین کی خدمات حاصل کرکے ان نشئیوں کو ایک کمپاؤنڈ میں منتقل کردیا اور ان کے زخموں کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کی نفسیات پر بھی کام شروع کردیا۔’
ڈاکٹر پروین نے کہا کہ پہلے چند دن وہ لوگ ان کی بات بڑے غور سے سنتے تھے لیکن ایک دن ان کی ٹیم جب اس مقام پر گئی تو وہاں ایک بھی نشئی نہیں تھا جبکہ اردگرد کے لوگوں سے معلوم ہوا کہ ان کو ڈرگ مافیا یہاں سے دھوکے اور زبردستی لے گئے ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی ‘ڈرگ مافیا نے ان لوگوں کو ڈرایا تھا کہ ہم دھوکے سے ہسپتال لے جا کر جسم سے خون اور اعضاء نکالیں گے اور فروخت کریں گے جس کی وجہ سے ان لوگوں نے وہ جگہ چھوڑ دی تھی۔’
ڈرگ مافیا سے ڈاکٹر پروین اور ان کی ٹیم کو بھی خطرہ تھا اور ان کے بقول ایک دن ان پر فائرنگ بھی ہوئی تھی کیونکہ وہ لوگ ان کا کاروبار خراب کر رہے تھے لیکن ڈاکٹر پروین نے پولیس کو دباؤ میں لاکر اس گروہ کو گرفتار کروایا کیونکہ نہ صرف ان کے شوہر اعظم خان ایک جانے مانے بیوروکریٹ تھے بلکہ ان کا میکہ بھی پاکستان کے ایک طاقت ور خاندان کے طور پر جانا جاتا ہے۔
ڈاکٹر پروین اعظم خان کے میکے کا تعلق اٹک کے مشہور خاندان خان زادہ فیملی سے ہے، پنجاب کے سابق وزیر داخلہ شجاع خانذادہ، جو ایک خودکش حملے میں شہید ہوئے تھے، ان کے چچا زاد تھے، ان کے والد کا نام دوست محمد خان زادہ تھا جو پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے اور سکاٹ لینڈ کی گلاسکو یونیورسٹی سے انھوں نے انجنئیر کی تعلیم حاصل کی تھی اور خیبر پختونخواہ کے چیف انجینئر تھے۔
ان کے بقول ‘جب سکول میں تھی تو والد صاحب اکثر اس خواہش کا اظہار کرتے اور بتاتے تھے کے میں تمھارے لئے گاڑی خریدوں گا، ہسپتال بنا کے دوں گا اور تمہیں ماہانہ تنخواہ بھی ملے گی لیکن تمہارا مشن غریب لوگوں کا علاج کرنا ہوگا اور اس کیلئے تم ہر جگہ کا سفر کرو گی۔’
لیکن اچانک 1956 میں ان کے والد دوست محمد خان زادہ کا ایک ٹریفک حادثے میں انتقال ہوا اور جوانی میں اللہ کو پیارے ہوئے، ڈاکٹر پروین کے مطابق والد کے انتقال کے وقت ان کے ایف ایس سی کا نتیجہ بھی نہیں نکلا تھا۔
‘رزلٹ آنے کے بعد میں نے لاہور کے فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور والدہ اور چچا کے تعاون سے ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کی۔’
ڈاکٹر پروین آگے اپنی زندگی کا قصہ بیان کرتی ہیں ‘جب والد کا اچانک انتقال ہوا تو میرے کندھوں پر بہت ذمہ داریاں آگئیں میری والدہ تعلیم یافتہ نہیں تھیں اور انھوں نے بتایا اب تو میرا بیٹا ہے بس جو تمہاری مرضی ہو آگے بڑھو اور والد کے ارمان کو پورا کرو۔’
ان کے مطابق یہی وہ الفاظ تھے جو ان کے مشن کو آگے لے جانے کے لئے اآکسیجن کا کام کر رہے تھے۔
ڈاکٹر بننے کے بعد پروین اعظم نے سرکاری ملازمت شروع کی لیکن جب پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ملک کے مختلف علاقوں میں جذام [کوڑھ] کے مرض نے وباء کی شکل اختیار کرلی تو انہوں نے ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ فلاحی اداروں کے ساتھ بھی کام شروع کیا اور ملک سے اس مرض کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر پروین نے ٹی این این کو بتایا کہ جب ان کے شوہر اعظم خان (سابق چیف سیکرٹری خیبر پختونخواہ) کا تبادلہ پشاور ہوا ‘تو میں نے پشاور کی سڑکوں اور گلیوں میں نشے میں مبتلا بہت سے افراد کو دیکھا اور مجھے خیال آیا کے اب والد کے مشن اور ارمان کو پورا کرنے کا موقع آیا ہے تو 1992 میں نے اپنے والد کے نام سے دوست فاونڈیشن کی بنیاد رکھی۔’
پہلے مرحلے میں انہوں نے حیات آباد میں کرایے کا مکان لیا اور اس میں تقریباً بارہ بستر کا ہسپتال بنایا اور اعلان کردیا کے نشے میں مبتلا افراد کا مفت علاج کریں گے لیکن لوگ اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں تھے کیوں کہ لوگ سمجھتے تھے کہ نشے کا کوئی علاج نہیں، نشئی فرد یا تو مرے گا اور یا اس کو پاگل خانے میں داخل کرانا ہو گا۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈرگ مافیا کے لوگوں کو گرفتار کروانے کے بعد جب وہ جیل گئیں تو انہیں پتہ چلا ان میں سے تین، چار بندے خود بھی نشے میں مبتلا تھے اور بہت بری حالت میں تھے۔ اس کے علاوہ اس بیرک میں بھی بہت زیادہ گندگی اور غلاظت پڑی تھی۔
‘چونکہ میرے خاوند ایک اہم سرکاری عہدے پر فائز تھے اس لئے اثر و رسوخ استمال کرکے ہم نے نہ صرف جیل میں نشے میں مبتلا افراد کے لئے نیا بیرک بنایا اور ان کا علاج بھی شروع کیا بلکہ وہاں پر واش رومز بھی تعمیر کئے۔’
افغان طالبان کے حوالے سے دلچسپ واقعہ
ڈاکٹر پروین اعظم خان بتاتی ہیں کہ جب انہوں نے دوست فاونڈیشن میں نشے میں مبتلا افراد کا علاج شروع کیا تو اس دوران افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ افغان حکمران عوام میں نشے کے بڑھتے ہوئے رجحان کے حوالے سے کافی تشویش زدہ تھے۔
‘طالبان حکمرانوں کو کہیں سے معلوم ہوا تھا کہ پشاور میں ایک ادارہ نشے میں مبتلا افراد کا علاج کرواتا ہے اور ان سے نشہ چھڑواتا ہے تو وزیر صحت کی قیادت میں ان کا دس رکنی وفد یہاں آیا اور ہم سے نشہ کی روک تھام اور علاج کے حوالے سے دس دن کی تربیت لی اور واپس جاکر اپنے ملک میں اس کا آغاز کردیا۔’
دوست فاونڈیشن کے پاکستان اور افغانستان میں مراکز
ڈاکٹر پروین اعظم خان نے اپنی زیادہ ترجائیداد دوست فاونڈیشن کیلئے وقف کی ہے۔ پشاور میں ان کے سنٹرز کو "سکون کور” (سکون کا گھر) کا نام دیا گیا ہے جن میں ایک ورسک روڈ شاھی بالا میں اسی کنال زمین قائم پر ہے جبکہ مرکزی دفتر سمیت دو حیات آباد میں ہیں۔
دوست فاونڈیشن نے ہمسائیہ اسلامی ملک افغانستان میں بھی دو سنٹرز بنائے ہیں جہاں پر نشے میں مبتلا افراد کا علاج کیا جاتا ہے۔
اٹک میں ہسپتال بنانے کا پروگرام
ڈاکٹر پروین اعظم خان کے مطابق اب انہوں نے اٹک میں اپنے آبائی گاؤں شاد خان میں دریا کے کنارے اٹھائیس کنال زمیں پر نئے ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ پنجاب کے مختلف ضلعوں سے بھی ہمارے ساتھ بہت سے مریض رابطہ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر پروین کے لئے قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز
81 سالہ باہمت ڈاکٹر پروین اعظم خان کو شعبہ صحت میں اور نشے کے خلاف اعلیٰ خدمات پر اقوام متحدہ نے سول ایوارڈ سے نوازا ہے اور اس کے ساتھ حکومت پاکستان نے بھی ان کی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز دیا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر پروین انٹرنیشنل لیول پر تیرہ تنظیموں کیساتھ وابستہ اور انسانی فلاحی کاموں میں پیش پیش ہیں۔
نشہ دشمن باہمت خاتون بتاتی ہیں کہ عالمی این جی اوز نشے کے خلاف کام میں ہمارے ادارے کی مالی امداد کرتے تھے لیکن اب یہ لعنت ان ممالک میں بھی پہنچ گئی ہے لہذا اب وہ ہمیں اس طرح فنڈنگ نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہم مالی مشکلات کے شکار ہیں کیونکہ ہمارا ماہانہ خرچہ 33 لاکھ روپے ہے۔