فیچرز اور انٹرویو

‘یہاں لڑکی کو مرضی کے کپڑوں کی اجازت نہیں تو شاعری کیسے کرے گی؟’

سلمان یوسفزے

"ایک لڑکی جو اپنے گھر میں اپنی مرضی سے سانس نہیں لے سکتی، پانی نہیں پی سکتی، مرضی کے کپڑے نہیں پہن سکتی، اپنی شادی کا فیصلہ خود نہیں کرسکتی آپ بتائیں اس معاشرے میں انہیں اپنے احساسات کو شاعری کی زبان دینے کی اجازت دی جائے گی کیا؟”

یہ سوال ہے پشتو کی معروف ادیبہ کلثوم زیب کا جس کا جواب بھی وہ خود دیتی ہے کہ پختون معاشرے میں دیگر شعبوں کی طرح خواتین کو ادب کے شعبے میں بھی آسانی سے نہیں آنے دیا جاتا لیکن اگر کوئی لڑکی ہمت کرے تو سب کچھ ممکن ہے۔

‘آج اگر آپ کلثوم زیب کو پشتو ادب کے ایک مقام پر دیکھ رہے ہیں تو وہ بھی اپنی زندگی میں اس قسم کی تکلیفات سے گزر چکی ہے ان پر لوگوں نے پابندیاں لگائی ہے اور انہیں لکھنے سے منع کیا گیا’۔ ٹی این این سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔

خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی مانیری سے تعلق رکھنے 50  سالہ پشتو شاعرہ اور مصنفہ کلثوم زیب نے ساتویں جماعت سے شعر لکھنے کا آغاز کیا اور اب تک وہ چار کتابیں چھاپ چکی ہیں۔

پیشے کے لحاظ سے کلثوم زیب سکول استاد تھی جو کہ 30 سال خدمات کے بعد ریٹائر ہوچکی ہیں۔ انہوں نے اردو ادب میں ماسٹرز کے ساتھ بی ایڈ اور ایم ایس سی کی ڈگریاں بھی حاصل کی ہیں۔

ان کی مشہور کتابوں میں تگی سترگی ( پياسی انکھیں) اور زلنده سباؤن( روشن سویرہ ) ان  کی پشتو شاعری جبکہ لمسہ حیات اردو نثر اور تور گلاب ( کالا گلاب) پشتو  افسانوں پر مشتمل کتابیں ہیں۔

شاعرہ و مصنفہ کلثوم زیب نے اب تک دو شاعری کے مجموعیں اور دو نثر کی کتابیں لکھی ہیں

شاعرہ و مصنفہ کا کہنا تھا کہ ان کی طرح سینکڑوں خواتین ایسی ہیں جن کو اللہ نے شعر و شاعری اور نثر لکھنے کا ہنر دیا ہے لیکن معاشرے کا ڈر انہیں سامنے آنے سے روکے رکھا ہے۔

‘میں یہ نہیں مانتی کہ عورت شاعری نہیں کرسکتی، یہاں اکثریت خواتین نے اپنی پہچان چھپا رکھی ہے، وہ گھر میں اپنے بھائی سے ڈرتی ہے، والد سے ڈرتی ہے، شوہر سے ڈرتی ہے حتی کہ بعض خواتین اپنے بچوں سے بھی ڈرتی ہیں”

کلثوم زیب کہتی ہے کہ قدامت پسند معاشرے میں اگر ایک عورت اشعار لکھتی بھی ہے تو ان  کے لئے مشکل ہوتا ہے کہ اپنے کلام کو کسی تقریب میں سناسکے یا وہ کسی ریڈیو پر اپنی آواز یا ٹیلی ویژن پر اپنا چہرہ دیکھا سکے لیکن اس معاملے میں وہ خود کو بہت خوش قسمت سمجتھی ہے۔

مصنفہ کلثوم زیب کے بقول شادی سے پہلے ان کی بھی صورتحال اتنی اچھی نہیں تھی کیونکہ وہ لکھتی تو تھی پر کبھی مجمعے کا سامنا نہیں کیا تھا لیکن شادی کے بعد انکی قسمت بدل گئی ‘میرا پتہ نہیں کونسی بھلائی کا بدلہ تھا کہ جیسا بندہ میرا آئیڈیل تھا ویسا ہی شوہر مل گیا جنہوں نے مجھے ہر موڑ اور قدم پر سپورٹ کیا اور کبھی کوئی غیر ضروری پابندی نہیں لگائی’۔

انہوں نے کہا کہ دراصل ہمارا معاشرے عورت پر اعتماد نہیں کرتا، ہمارے مرد  سمجھتے ہے کہ ایک لڑکی گھر سے باہر گئی تو وہ ضرور کسی غلط راہ پر چلے گی۔ کتنی عجیب بات ہے اگر ایک شخص کی بیٹی، بیوی یا بہن کو خدا نے یہ صلاحیت بخشی ہے کہ وہ اپنی احساسات کو قلم کی زبان پر بیان کریں تو وہ انہیں سپورٹ کرنے بجائے اسی کام سے منع کرتے ہے اور خدا کی دی ہوئی صلاحیت کو قتل کرتے ہے۔

کلثوم زیب کہتی ہے کہ وہ باہر کی سرگرمیوں کی ساتھ اپنے گھر کا خیال بھی رکھتی ہے، وہ کھانا بھی خود پکاتی ہے، کپڑے بھی دھوتی ہے شوہر اور تینوں بچوں کا دیکھ بھال بھی کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے اور جتنا وقت وہ اپنے بیٹوں کے ساتھ گزرتی ہے ان سے زیادہ پیار اور محبت وہ اپنی اکلوتی بیٹی سے بھی کرتی ہے کیونکہ انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں زیادہ جذباتی ہوتی ہیں اور وہ اپنی بیٹی کو کبھی یہ تاثر نہیں دینا چاہتی کہ وہ اپنے بھائیوں سے کسی بھی صورت کمتر ہے۔

ان کے بقول وہ ملک بھر کے ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہتی ہیں اور انہوں نے دیگر شعراء خواتین کے ساتھ پشاور میں "د خوئیندو ادبی لخکر” کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی ہے۔

کلثوم زیب نے بتایا کہ وہ ان سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ  پشاور کے ایک سرکاری ریڈیو میں پختون  کلچر بارے ایک ہفتہ وار پروگرام بھی کرتی ہے اور اس کے علاوہ وہ کچھ عرصے کے لئے ایک مقامی ٹیلی ویژن میں بطور میزبان بھی اپنے فرائض سرانجام دے چکی ہے۔

ٹی این این سے خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ایک عورت کے لئے کوئی بھی کام مشکل نہیں بشرط یہ کہ اگر وہ ہمت کریں حوصلہ رکھے اور اپنی بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کریں تو وہ ضرور کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ادب کے میدان میں طویل سفر کرنے کے باوجود وہ ابھی بھی خود کو معاشرے کے بعض دقیانوسی سوچوں میں خود کو قید سمجھتی ہیں۔ ‘میں چاہتی ہوں کہ اللہ نے مجھے جو صلاحیت دی ہے اسے سامنے لانے میں مجھے یہ جھجک محسوس نہ ہو کہ اس پر لوگوں کا کیا ردعمل ہوگا؟’

کلثوم زیب نے کہا کہ وہ اپنے سمیت تمام خواتین کے لئے آزاد زندگی گزارنے کی خواہش مند ہے لیکن آزاد زندگی سے ان کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ تمام حدود کو پار کیا جائے۔

‘میں نے خود کے لئے زندگی میں ایک لیکر کھینچی ہے جو میرے لئے معاشرتی اقدار اور روایات کے مطابق حدود کا تعین کرتی ہیں۔ مجھے کسی کے سمجھانے کی ضرورت نہیں بلکہ میں نے خود سے فیصلہ کیا ہے کہ کسی بھی صورت وہ لیکر پار نہیں کرونگی’۔

انہوں نے مزید کہا کہ آزاد زندگی سے انکا مقصد اپنے لئے آسانیاں پیدا کرنا  اور اپنا اعتماد بحال رکھنا ہے۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button