سپینی سپوگمئی وایہ اشنا بہ چرتہ وینہ۔۔؟
عثمان خان
تقریباً چار عشروں سے پشتو موسیقی پر راج کرنے والی ثریا خانم (ماہ جبین قزلباش) اس فانی دنیا سے کوچ کر گئیں مگر اس پرنور و تروتازہ چہرے کی حسین یادیں اور سریلی آواز ہمشہ کیلئے ہمارے کانوں اور ذہنوں میں نقش رہے گی کیونکہ ان کی آواز سحرانگیزی اور میلوڈی سے بھر پور ہے۔
ماہ جبین قزلباش کو رواں سال جنوری کی پہلی تاریخ کو دل کا دورہ پڑا تھا اور اپنی آخری سانسوں تک پشاور کے تاریخی ہسپتال لیڈی ریڈںگ کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں موت سے لڑ رہی تھیں اور آخر کار دو دن پہلے 26 فروی کی شام وہ ابدی نید سو گئیں، ان کی نماز جنازہ 27 فروری کو پشاور سول کوارٹر گل کشت کالونی میں ادا کی گئی۔
ماہ جبین قزلباش کون تھیں؟
ماہ جبین قزلباس، جن کا اپنا نام ثریا خانم تھا، کے خاندان کا بنیادی تعلق ایران سے ہے لیکن بعد میں ان کے آباو اجداد افغانستان کے قندہار اور کافی عرصہ وہاں پر گزارنے کے بعد پشاور منتقل ہوئے تھے جو اصل میں فارسی زبان تھے اور فن موسیقی سے ان کا گہرا تعلق تھا کہ قزلباس قوم انتہائی روشن خیال لوگ ہیں اور فن کے میدان میں جداگانہ حیثیت کے مالک ہیں۔
ماہ جبین کے والد کا نام امداد علی قزلباش تھا اور ان کے تین بھائی ایک بہن جب کے ایک بھائی شہزاد جوانی میں اللہ کو پیارا ہوا تھا۔
ثریا سے مہ جبین قزلباش کی جانب پہلا قدم!
اپنے ایک انٹرویو میں ماہ جبین قزلباش نے بتایا تھا کہ جب وہ تیرہ برس کی تھیں جب باقاعدہ طور پر موسیقی کے میدان میں قدم رکھا تھا، وہ پشاور کے مشہور سکول فارورڈ پبلک سکول میں ساتویں جماعت سے آٹھویں میں پاس ہوئی تھیں جب انہوں نے اپنے چچا نور علی سے ریڈیو پاکستان میں آڈیشن دینے کی خواہش کا اظہار کیا کیونکہ وہ روشن خیال طبیعت کے مالک تھے لیکن والد نے اس وقت اس بات کی مخالفت کی کیونکہ ان کی عمر کافی کم تھی، انہیں اپنی انگلش کی میڈم نے بتایا تھا کہ بیٹا آپ کی آواز بہت خوبصورت ہے، کیونکہ وہ سکول میں نعت خوانی او ڈبیٹ میں باقاعدہ طور پر حصہ لیتی تھیں، آپ اس طرح کریں کی ریڈیو پاکستان میں آڈیشن دو اور بچوں کے پروگرام میں وہاں پر حصہ لو جس میں بچے ملی نغمیں گاتے ہیں۔ یوں ثریا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مہ جبین قزلباش بننے اپنے چچا نور علی کے ہمراہ ریڈیو پاکستان پہنچیں اور آڈیشن دیا، اس کے بعد جو ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
ریڈیو پاکستان میں آڈیشن کا تاریخی احوال
ماہ جبین قزلباس کے بقول جب وہ ریڈیو پاکستان گئیں تو پشتو موسیقی کے نامور موسیقار رفیق شنواری نے ان کا آڈیشن لیا تھا اور ان کے ہمراہ ریڈیو پاکستان کے اس وقت کے مشہور براڈ کاسٹرز نواب علی خان یوسفزئی، نثار علی خان اور ارباب عبدالودود موجود تھے۔
فلم کی دنیا میں جانے کی روداد؟
اپنے اس انٹرویو میں ماہ جبین نے بتایا تھا کہ جب وہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھیں تو ایک دن اخبار میں اشتہار آیا کہ پشتو کی مشہور فلم "مامونے شیربانو” کیلئے ایک نیا چہرہ چاہیے جو معصوم بھی ہو اور جو مامونے کا کردار ادا کر سکے تو انہوں نے اس فلم میں رول کیلئے آڈیشن دیا لیکن ان کی امی اس بات کی مخالف تھیں اور کہنا تھا کہ پہلے ریڈیو میں جانے کی ضد اور اب فلم میں لیکن خیر امی قائل ہو گئیں، جب وہ آڈیشن دینے گئیں تو انہوں نے بتایا کہ بیٹی تمہاری عمر تو کافی کم ہے لیکن فلم کے کردار کیلئے چونکہ معصوم شکل چاہئے تھی تو وہ لوگ راضی ہوگئے اور بتایا تم ڈبل کپڑے پہن کر مامونی کا کردار کرو گی۔
خیال رہے کہ اس فلم میں شیراعلم کا کردار ادا کرنے والے ایمل خان سے بعدازاں ان کی شادی ہو گئی تھی۔
مہ جبین قزلباش نام کیسے پڑا
ماہ جبین کے بقول یہ نام فلم ڈایریکٹر کامران نے رکھا تھا، "جب انہوں نے میرے چہرے کو دیکھا تو کہا کہ اللہ نے آپ کو بہت حسن دیا ہے، لال گال اور حسین چہرہ جیسے ایک گڑیا کی مانند تو اس دن سے میرا نام ماہ جبین رکھا جو فارسی کا نام ہے، ماہ مطلب چاند اور جبین چہرہ یعنی چاند جیسا چہرہ۔
"سپینی سپوگمئی وایہ اشنا بہ چرتہ وینہ”
ماہ جبین قزلباس نے اپنے میوزک کرئیر کا پہلا گانا ‘سپینی سپوگمئی وایا اشنا بہ چرتہ وینہ’ ریکارڈ کیا تھا اور اس گانے کو اس وقت بہت پذیرائی ملی تھی بلکہ یہ اب بھی سدا بہار اور پشتو مسیقی کے بیشتر سنگرز نے گایا ہے۔
آٹھ زبانوں میں موسیقی کا ریکارڈ
ماہ جبین قزلباش کی مادری زبان تو فارسی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ آٹھ زبانوں میں انہوں نے طبع آزمائی کی ہے جن میں پشتو، فارسی، سرائیکی، ہندکو، پنجابی، سندھی اور بلوچی نمایاں ہیں لیکن نام انہوں نے پشتو موسیقی میں ہی پیدا کیا ہے۔
ماہ جبین قزلباش نے فوک موسیقی زیادہ تر گائی ہے اور اس کے علاوہ غزلیات اور دوگانے بھی بہت گائے ہیں، غزل کے بادشاہ خیال محمد کے ساتھ ان کے دوگانے بہت مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ ماہ جبین قزلباش نے فلموں کیلئے بھی ڈیر سارے گیت گائے ہیں۔
امان اللہ خان اورکزئی (ایمل خان) سے شادی کا فلمی قصہ
ماہ جبین قزلباش نے اپنے اس انٹرویو میں شادی کے بارے میں بتایا تھا کہ جب وہ سوات کے علاقے میاندم میں میمونی شیر بانو فلم کی شوٹنگ کر رہے تھے تو ان دنوں سردی زیادہ تھی اور سورج بہت جلد غروب ہوتا تھا اور کام سہ پہر کو ہی ختم ہو جاتا تھا، ایک رات ان کے گیسٹ ہاؤس میں، جہاں وہ، ان کی امی اور بھائی شہزاد جو بہت چہوٹا تھا سوئے ہوئے تھے، انگیٹھی سے اچانک ان کے کمرے میں آگ لگ گئی، ان کی امی کو پتا چلا تو چیخنے لگیں، درایں اثناء ساتھ والے کمرے سے ایمل خان آئے اور آگ میں داخل ہو کر انہیں اپنی گود میں باہر نکالا اور دیگر کو بھی بچایا۔ اس واقعے کے بعد امان اللہ خان اورکزئی نے ان رشتہ مانگا اور ان کی شادی ہو گئی۔
بلبل سرحد، بلبل خیبر القابات اور ایوارڈز
انتہائی میٹھی آواز کی مالکن ماہ جبین قزلباش کو ضیاء الحق کے دور میں بلبل سرحد کا لقب دیا گیا تھا اور اس کے علاوہ نجی ٹیلی وژن اے وی ٹی خیبر نے ان کو بلبل خیبر کا لقب دیا تھا۔
موسیقی کی لازوال خدمات پر حکومت پاکستان نے ماہ جبین قزلباش کو تمغہ امتیاز سے نوازا اور اس کے علاوہ بھی انہیں ڈھیر سارے نیشنل اور انٹرنیشنل ایوارڈز دیئے گئے۔
پسماندگان
ماہ جبین قزلباش نے اپنے پسماندگان میں دو بیٹے شاہد اورکزئی، عامر اورکزئی اور ایک بیٹی ھما اورکزئی چھوڑے ہیں، لیکن ان میں فن موسیقی سے ایک کا بھی تعلق نہیں ہے۔
امریکی حکومت کے جانب سے تغزیتی پیغام
امریکا کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ماہ جبین قزلباس کی موت پر تغزیتی پیغام جاری کیا گیا لیکن حکومت پاکستان اور خصوصی طور پر خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے کوئی پیغام جاری نہیں ہوا جس کی وجہ سے سماجی رابطوں کی ویب ساٹس پر حکومت پر بہت تنقید ہوئی اور ہو رہی ہے۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت میں سینئر براڈ کاسٹر حاجی اسلم نے بتایا کہ بہت افسوس کی بات ہے ہماری ایسی نامور موسیقی کے ستارے کی فوتگی پر حکومت خاموش اور ان کے جنازے میں کوئی سرکاری اہلکار، سیاست دان اور فن سے تعلق رکھنے والوں نے شرکت نہیں کی البتہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود تھے۔
مہ جبین کے چند یادگار گیت اور نغمے
راشہ جانانہ ورز د دیدن دہ سبا بہ نہ وی دیدنونہ
ستا پہ جدائی کی تیر بہ شی وختونہ مینی دے ملنگ کڑم غواڑمہ خیرونہ
اوبہ دے وڑینہ پاسہ لالیہ مازیگر دے اوبہ دے وڑینہ
سپینی سپوگمیی وایہ اشنا بہ چرتہ وی نہ
مستہ ملنگہ دی کڑم
مہ جبین قزلباش، ان کا پروی وش چہرہ اور چاند جیسا ان کا مکھڑا گرچہ ہمارے بیچ نہیں رہا تاہم جب تک پشتو موسیقی اور اس کے سننےوالے زندہ ہیں، ان کی سریلی آواز ان کے کانوں میں رس گھولتی رہے گی اور حکومتی اعزازات، ایوارڈز وغیرہ کی بجائے یہی ان کا اصل سرمایہ حیات ہے۔