"بہائی کمیونٹی کا کوئی الگ عبادت خانہ نہیں”
ناہید جہانگیر
اقلیتی برادری سے کوئی چاہے جتنا بھی اچھا یا بڑا کارنامہ سرانجام دے لیکن اس کی نا تو حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور نا ہی میڈیا میں اتنی جگہ دی جاتی ہے، پشاور کی بہائی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ملالئی اختری بھی میڈیا اور معاشرے سے اسی قسم کا گلہ کرتی ہیں۔
بہائی عقیدے کے مطابق بہائی کمیونٹی ایک بین الاقوامی کمیونٹی ہے جس کا سب سے بڑا مقصد پوری دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے کوشش کرنا اور پھر پوری دنیا میں رائج کرنا ہے۔ پشاور میں چھ سے سات بہائی فیملیز رہائش پذیر ہیں جبکہ نادرا کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں ان کی تعداد 33 ہزار کے قریب ہے۔
بہائی عقیدہ رکھنے والے اللہ تعالی کی وحدانیت اور تمام انبیاکرام اور رسولؐ پر ایمان رکھتے ہیں اور آج کل کے دور کے لئے بہااللہ کو مظہر ظہور مانتے ہیں۔ عقیدے کے مطابق بہااللہ دنیا میں اس لئے آئے کہ دنیا میں امن قائم ہوسکے۔
بہائی عقیدے میں عبادات کا جہاں تک تعلق ہے فرض نمازیں انفرادی طور پر ادا کی جاتی ہیں, ان کا کوئی الگ عبادت خانہ نہیں ہوتا جہاں مرضی صاف جگہ پر نماز ادا کی جاسکتی ہے۔
بہائی عقیدے میں اجتماعی دعا ہوتی ہے اور اس کے لیے بہائی ہی عبادت گاہ بناتے ہیں ان کو مشرق الذکار کہتے ہیں۔
پشاور کی بہائی کمیونٹی کی ملالئ اختری جو پیشے کے اعتبار سے لینگویسٹ ہیں اور پچھلے چار پانچ سالوں سے سوشل ایکٹیویسٹ کے طور پر انسانی اور اقلیتوں کے حقوق پر کام کر رہی ہیں۔
ملالئی اختری نے ابتدائی تعلیم ایبٹ آباد سے حاصل کی اور بعد میں پشاور یونیورسٹی سے فارسی مضمون میں ماسٹر کیا۔ 2001 میں پاکستان میں جو اکژیت، اقلیت اور بہتری، ابتری کی جو لہر چلی اس کی وجہ سے لوگ مختلف نیشنز میں بٹ گئے جبکہ ا قلیت ڈر گئے اور اپنی شناخت اور عقیدہ چھپانے پر مجبور ہو گئے۔
ظاہر سی بات ہے جہاں آپ کو اپنی شناخت اور عقیدے کی آزادی نہ ہو، جو بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے، تو چاہے وہاں اکثریت رہتی ہو یا اقلیت سب کے لیے خطرے کی گھنٹی بج جاتی ہے۔
ملالئی اختری نے کہا کہ بہائی کمیونٹی بنیادی طور پر تربیت پر فوکس کرتی ہے، بہائی کمیونٹی معاشرے کے مختلف پس منظر، طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو اکٹھا کرتی ہے اور ان کے کے لئے مختلف قسم کے فیملی بیسڈ تربیتی پروگرام مرتب کرتی ہے۔
ملالئی نے 2002 سے بچوں کے تربیتی پروگرام سے اپنے کرئیر کا باقاعدہ طور پر آغاز کیا۔ پشاور میں مختلف بچوں کو اکٹھا کرکے ملالئی ان کے لئے تربیتی پروگرام مرتب کرتی تھیں۔ ان گروپوں میں عیسائی، بہائی اور مسلم بچے ہوتےتھے۔ پھر اس کے بعد ملالئی اختری نے نوجوانوں کے تربیتی پروگرام شروع کیے جن میں 12 سال سے 15 سال کی لڑکیاں لڑکے ہوتے تھے۔ ان کے لیے مختلف کلاسز اور تربیتی پروگراموں کا بندوبست کیا جاتا تھا۔
ملالئی کا کہنا ہے کہ 2013 کے بعد ایک ایسے پروگرام پر کام کیا جس میں نوجوان نسل کو بااختیار اور اپنے معاشرے کا ایک اچھا فرد بنانے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا عقیدے یا رنگ یا نسل سے ہو، ان ساری چیزوں سے بالاتر ہو کر اور صرف انسان بن کر انسانوں کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرنے، اس جذبے کو بحال کرنے اور پھر اس کو پائیدار رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی تاکہ یہی نوجوان نسل ایک اچھا معاشرہ بنانے میں مددگار ثابت ہو۔
لیکن ملالئی کے مطابق ایسا نارمل ہوتا نہیں ہے، لوگ کام کرکے بھول جاتے ہیں لیکن ملالئی کی کاوش ہوتی ہے کہ تربیت کے بعد وہی پائیداری رہے یا اسی تربیت کا فالو اپ ہو کہ جو وہ کرنا چاہتی ہیں ویسا ہی ممکن ہو۔
ملالئ نے مختلف این جی اوز،حکومتی اداروں اور جن جن لوگوں نے انسانی حقوق یا انسانیت کے لیے انھیں بلایا یا بلاتے ہیں ان سب کے ساتھ کام کیا اور کام کرتی ہیں۔ وہ ہمیشہ نام کی بجائے کام پر توجہ دیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ ضروی یہ ہے کہ ہم ایک کمیونٹی اور معاشرے کے طور ہر ترقی کر کے آگے بڑھیں۔
ملالئی اختری کا کہنا ہے کہ بغیر کسی تعصب کہ ہمیں تربیت پر بھی کام کرنا چاہیے کیونکہ تعلیم پر سب ہی دھیان دے رہے ہیں لیکن تربیت کے لحاظ سے ہماری نسلیں بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔
بہائی کمیونٹی کے افراد سب اکھٹے کام کرتے ہیں، کوئی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتا اور تربیت پر فوکس ہوتا ہے۔ ملالئی اختری نے بتایا کہ اکثر جب بھی کام کے حوالے سے مشکلات سامنے آتی ہیں وہ کم پڑھے لکھے لوگوں کی طرف سے آتی ہیں لیکن ان کا تجربہ مختلف رہا۔ انہوں نے جب بھی کام کیا تو زیادہ پڑھے لکھے لوگوں نے ان کے کام میں رکاوٹیں ڈالیں یا ان کے کام کو آگے جانے سے روکنے کی کوششش کی۔
بقول ان کے معاشرے میں تعیلم کا رحجان زیادہ ہے چاہے کوئی وزیرکا بیٹا ہو یا کسی مزدرو کا سب کا رحجان تعیلم ہی کی طرف ہے، کوئی بھی تربیت پر توجہ نہیں دیتا۔
ملالئی اختری کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن تعلیم ہر ضرورت کو پورا کرنے کا جواب نہیں ہے اور جو چیز بچوں کو یا معاشرے کو زندگی میں کام آتی ہیں وہ تعیلمی نصاب میں سرے سے ہیں ہی نہیں، سکول، کالج اور یونیورسٹی لیول پر جتنا بھی کورس ہے وہ صرف پیپر پاس کرنے کے لئے ہوتا ہے عملی زندگی گزارنے کے بارے میں کوئی مواد موجود نہیں ہے، ایک ایسے معاشرے میں جب سب کا دھیان صرف تعلیم کی طرف ہو تو ایسے معاشرے میں کوئی تربیت پر کام کرنے کے لئے گنجائش ہی نہیں چھوڑتا۔
ملالئی اختری نے بھی جب جوان نسل کی تربیت پر کام کیا تو ان کو مشکلات سامنے آئیں کیونکہ والدین کے لئے سب سے اہم بچوں کی تعلیم، کلاس اور پیپرز ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ اب تو پورا سال چلتا رہتا ہے۔ جب تک بچوں کی گرمیوں کی چھٹیاں نہیں ہو جاتیں وہ بالکل بھی فارغ نہیں ہوتیں۔ اوپر سے والدین میں سے کوئی بھی اتنی آسانی سے راضی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچوں کو اجازت دیں کہ کچھ دن کے لئے تربیت پر ٹریننگ یا لیکچر میں حصہ لیں۔
ملالئی نے مزید کہا کہ ان کی کاوش رہی ہے کہ سب سے پہلے وہ والدین کی کونسلنگ کریں کہ وہ اپنے بچوں کو جس راستے پر لگا رہے ہیں وہ ضروری ہے لیکن اتنا بھی اہمیت کا حامل نہیں ہے۔
ملالئی نے کہا کہ عملی زندگی میں پیار، صبر اور برداشت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ چیزیں یا باتیں کسی بھی تعلیمی نصاب میں نہیں ملتیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تعلیم میں ہمارے بہت سے مسائل کا حل ہے لیکن تعلیم اگر تربیت کے بغیر ہو تو اس تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ملالئی اختری نے کہا کہ تربیت کے بغیر والدین اپنے بچے کو انجنئیر بنا سکتے ہیں لیکن اگر اچھا انسان نہ بنا تو عین ممکن ہے کہ وہ ایٹم بم بنائے اور انسانیت کے لئے کچھ نا کرے۔