فیچرز اور انٹرویو

”یو د سگریٹ دی منع کومہ نو پہ دی می وژنی؟”

سلمان یوسفزے

"میری خواہش ہے کہ اپنی شاعری کے ذریعے پشتون معاشرے کی خواتین کے لئے کچھ ایسا کام کروں جس سے ہماری خواتین کو بھی مواقع ملیں اور وہ بھی مردوں کے برابر ادب کے میدان میں اپنی منفرد شاعری اور کردار سے اپنا لوہا منوا سکیں۔”

ضلع ملاکنڈ کے گاؤں پلئی سے تعلق رکھنے والی پشتو زبان کی معروف شاعرہ اسما اخلاص کی شاعری اس وقت سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہے اور ان کی بیشتر غزلیں اور نظمیں فیسبوک سمیت یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر کئی لاکھ ویوز حاصل کر چکی ہیں۔

ٹی این این کے ساتھ ایک خصوصی نشست کے دوران اسلامیہ کالج پشاور سے پشتو ادب میں ماسٹر کرنے والی اسما اخلاص نے بتایا کہ وہ پچھلے آٹھ سال سے شعر و ادب سے وابستہ ہیں اور انہوں نے اب تک کئی غزلیں او نظیمں لکھی ہیں جو ان کے چاہنے والے نے کافی پسند کی ہیں اور ان کی منفرد شاعری کو کافی سراہا گیا ہے۔

اسما اخلاص شعر لکھنے کے ساتھ ساتھ مقامی ریڈیو سٹیشن میں ایک پروگرام کی میزبانی بھی کرتی ہیں جس میں وہ شعر و ادب اور دیگر موضوعات پر بات چیت کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ شعر خدا کی طرف سے ایک تخفہ ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے پشتون معاشرے میں ایک لڑکی کے خاندان والے یہ ہرگز برداشت نہیں کرتے کہ ان کی بیٹی سٹیج پر کھڑی ہوکر لاکھوں لوگوں کے سامنے اپنی شاعری سناتی پھرے۔

اسما اخلاص نے کہا کہ شروع میں انہیں بھی گھر والوں کی طرف سے کافی مشکلات درپیش تھیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور اپنی ہمت سے انہوں نے اپنے گھر والوں کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ نہ صرف انہیں یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی اجازت دیں بلکہ انہیں شعرو شاعری کے میدان میں بھی سپورٹ کریں۔

اسما اخلاص کو کن اشعار پر شہرت ملی ؟

” جہاں تک بات شہرت کی ہے تو میرے بہت ساری غزلیں اور نظمیں سوشل میڈیا پر مقبول ہو چکی ہیں لیکن ایک غزل کے کچھ اشعار بہت مشہور ہیِں اور ہر جگہ مجھ سے انہی اشعار کی فرمائش کی جاتی ہے۔”

"زہ چې دې هر وختې يادومه نو په دې مې وژنې ؟

ستا په عادت تا خفه کومه نو په دې مې وژنې ؟

ما درته څه وئيلي دي ؟ زه درته نور هيڅ نه وائيم

يو د سيګرټ دې منع کومه نو په دې مې وژنې ؟”

اسما کا کہنا ہے کہ ادب کے میدان میں قدم رکھنے والی اپنے خاندان کی واحد خاتون ہیں جس میں وہ کافی مشکلات کا شکار ہو چکی ہیں۔

"خاندان کے بعض افراد اب بھی مجھ سے اس بات پر نالاں ہیں کہ میں کیوںکہ دوسرے شہر میں پڑھتی ہوں، میں کیوں کسی ایسے ریڈیو میں پروگرام کرتی ہوں جہاں خواتین کے ساتھ مرد حضرات بھی اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں، لیکن میں چاہتی ہوں کہ میں اپنے معاشرے کی دیگر خواتِن کے لئے ایسا کچھ کروں جس سے ان کی رہنمائی ہو سکے اور جو کچھ میرے ساتھ ہوا وہ کسی اور کے ساتھ نہ ہو۔”

وہ کہتی ہیں کہ اگر کسی معاشرے میں نوجوان آگے بڑھ سکتا ہے تو ایک لڑکی کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اسے بھی آگے بڑھنے کے مواقعے دیے جائیں کیونکہ اگر کوئی تعلیم یافتہ اور باصلاحیت لڑکی ایک شادی شدہ گھرانے کا حصہ بن جائے اور خدانخواستہ کل کو اس کا شوہر وفات پا جائے تو وہ کرسکتی ہے کہ اپنی صلاحیتو ں اور فن کے ذریعے اپنے بال بچے پال سکے۔

اسما سمجھتی ہیں کہ اگر ہمارے معاشرے میں دیگر میدانوں کی طرح ادب میں بھی عورت کو عزت دی جائے اور اس کی صلاحیتوں کو سراہا جائے تو ممکن ہے کہ وہ عورت بھی معاشرے اور ادب کےلئے بہت کچھ کرسکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر اپنی شاعری کی ویڈیوز شئیر کرتی ہیں لیکن بعض لوگ ان کے اس عمل سے ناجائزہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے نام پر اب تک فیس بک پر کئی جعلی اکاونٹ بن چکے ہیں جہاں اور ان کے چاہنے والے سے مختلف قسم کی ڈیمانڈز کی جاتی ہیں۔

انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ وہ کبھی کسی سے کچھ ڈیمانڈ نہیں کرتیں اور جس نے بھی ان کے نام پر کسی سے کچھ مانگا ہے تو اس سے اسما اخلاص کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button