خیبرپختونخوا میں یونیورسٹیوں کی زمینیں بیچنا تعلیمی زوال کا سبب بن سکتا ہے، ماہرین
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے ضلع مردان میں تین یونیورسٹیوں سمیت میڈیکل کمپلیکس کی اضافی زمینیں بیچنے کا فیصلہ کر لیا ہے تاہم سیاسی جماعتیں اور ماہرین تعلیم اس فیصلے کو نوجوانوں کے مستقبل سے کھلواڑ سمجھ رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن مینا خان آفریدی نے اتوار کو جاری ایک بیان میں ضلع مردان کی تین یونیورسٹیوں سمیت میڈیکل کمپلیکس کی زمینیں بیچنے کے فیصلے کی تصدیق کی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے تمام سرکاری یونیورسٹیوں کی زمینیں بیچنے کی خبریں بے بنیاد ہے تاہم انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن یونیورسٹیوں کی زمینیں بیچی جائی گی جن کے اوپر اضافی زمینوں کی بقایا رقم واجب الادا ہو۔
بیان کے مطابق ضلع مردان کی تین یونیورسٹیوں عبدالولی خان یونیورسٹی مردان،، ایگریکلچر یونیورسٹی مردان، اور انجنئرنگ یونیورسٹی مردان سمیت عبدالولی خان میڈیکل کمپلیکس کے ذمے 25 ارب روپے واجب الادا ہے اور اس رقم کی ادائیگی کیلئے اسی اداروں کی اضافی آراضی بیچی جائے گی۔
مینا خان نے مزید کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں صوبائی حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے اور یہ تعین کرے کہ کس یونیورسٹی کے ذمے کتنی رقم واجب الاد ہے تو اُسی کو دیکھتے ہوئے اُتنی ہی زمین بیچی جائی گی۔
سرکاری سرپرستی میں چلنے والی خیبرپختونخوا کی تقریباً تمام جامعات مسلسل مالی بحران کا سامنا کررہی ہیں۔
صوبہ بھر کے 34 میں سے 20 جامعات میں وائس چانسلرز تعینات نہ ہوسکیں، اساتذہ کے ساتھ ساتھ انتظامی عملہ بھی آئے دن سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔
چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فضل رحیم مروت کہتے ہیں کہ یونیورسٹی کی تعمیر سے قبل اسکے لئے زمین، رہائشی علاقہ، سپورٹس میدان، مارکیٹ، ماحول درست رکھنے کا نظام اور مستقبل میں آبادی میں اضافے کو دیکھتے ہوئے زمین خریدنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے مگر یہاں ایسے لگتا ہے کہ صوبائی حکومت کو ان سہولیات کی کوئی فکر نہیں ہے۔
ڈاکٹر فضل رحیم نے ٹی این این کو بتایا کہ جدید تعلیم و تحقیق کیلئے کسی بھی تعلیمی ادارے کیلئے وسیع آراضی کا ہونا بنیادی عنصر ہوتا ہے، اسکے ساتھ دن بدن طلباء کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے تو آراضی کی کمی کی وجہ سے شائد طلباء کی تعلیمی نظام پر منفی اثر پڑ جائے۔
پروفیسر فضل رحیم کہتے ہیں "پہلے پشاور یونیورسٹی کے ساتھ رقبہ بہت زیادہ تھا جہاں پر ہر طرف پودے اور ہریالی تھی مگر آبادی بڑھنے کی وجہ سے وہ رونقیں بھی ماند پڑ گئے ہیں کیونکہ وہاں پر وقت کے ساتھ مزید ڈپیارٹمنٹ بن گئے جس سے پودے اور درخت ختم ہوگئے تو اب اگر کسی یونیورسٹی کی موجودہ زمین بھی بیچی جائے تو سوچیں ہمارا مستقبل کیا ہوگا”؟
انہوں نے مزید کہا ” اس صوبے میں ایک ہی سیاسی پارٹی گزشتہ گیارہ سالوں سے حکومت کر رہی ہے انہیں چاہیئے تھا کہ یونیورسٹیوں کی زمینیں بیچنے کی بجائے بڑے بڑے سرکاری دفاتر کی آراضی بیچ دیتے مگر اُن کا یہ فیصلہ کرنا انتہائی افسوسناک ہے”۔
ڈاکٹر فضل رحیم کہتے ہیں کہ یہ ایک منفی فیصلہ ہے اور اس کا ردعمل ٹھیک نہیں ہوگا، اس سے قبل کے ردعمل سامنے آجائے حکومت کو چاہئے کہ ایسے فیصلوں سے پہلے تمام سٹیک ہولڈر کو بٹھا کر اُن سے مشورہ لیتے کہ یونیورسٹیوں کی آراضی بیچنے کی بجائے اپنی ریونیو کس طرح بڑھائیں گے۔
تاہم عوامی نیشنل پارٹی نے یونیورسٹیوں کے آراضی بیچنے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کے دور حکومت میں نہ صرف تعلیمی ادارے بن رہے تھے بلکہ تعلیم کو مستحکم کرنے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔
سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے پیر کے دن مردان پریس کلب کے سامنے ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت سے یونیورسٹیوں کی زمینیں بیچنے کے فیصلہ واپس لینا کا مطالبہ کر دیا ہے۔
حیدر خان ہوتی نے صوبائی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے سوال اُٹھایا کہ تعلیمی ایمرجنسی والے تعلیمی اداروں کے اثاثے بیچ رہے ہیں،اثاثے اور زمینیں بیچنا کہاں کی تعلیمی ایمرجنسی ہے؟
انہوں نے وزیراعلیٰ علی آمین گنڈاپور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا "ان یونیورسٹیوں میں صرف مردان کے بچے نہیں بلکہ صوبے بھر کے طلباء پڑھ رہے ہیں، وزیراعلیٰ صاحب ہم سے دشمنی کرے لیکن بچوں کے مستقبل سے نہ کھیلیں”۔
پریس کانفرنس کے دوران شرکاء نے صوبائی حکومت کے خلاف شدید نعریٰ بازی کی جبکہ ہاتھوں میں بینرز اور فلیکس بھی اُٹھائے تھے جس پر "تعلیم دشمنی نامنظور ، اے این پی نے تعلیمی ادارے بنائے ہیں اس کا دفاع بھی کریں گے” کے تحریریں درج تھے۔
سابق وزیراعلیٰ نے بتایا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے دور حکومت میں گزشتہ حکومتوں کے منصوبوں کو بھی رقم دی گئی تھی مگر اب صوبے میں مالی بحران یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ تعلیمی اداروں کو بیچا جا رہا ہے مگر یہ صرف اے این پی کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری قوم کو اُٹھنا ہوگا۔
تاہم صوبائی وزیر مینا خان کا دعویٰ ہے کہ ہائرایجوکیشن کمیشن کے رولز کے مطابق یونیورسٹی کیلئے 100 سے 120 کنال کی زمین درکار ہوتی ہے اور مذکورہ جامعات کیلئے موجودہ آراضی کافی ہے۔ کہتی ہیں کہ اضافی زمینیں جب بیچی جائے گی تو پہلے اُسے مالکان کو مارکیٹ کی ریٹ پر آفر کی جائے گی اگر مالکان خریدنا نہیں چاہتے تو نیلام کیا جائے گا۔