تعلیم

ضلع خیبر وادی تیراہ میں لڑکیاں سکول جانے کے لئے ترستی ہیں

 

ریحان محمد

وادی تیراہ کی رہائشی پچاس سالہ زر بی بی اپنی چھ سالہ بیٹی عائشہ کو گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول محمد دین شاہ بٹہ کلے وادی تیراہ میں داخلہ کے لئے استانی کے پاس آئی ہے اور اپنی بچی کو کلاس میں بیٹھا رہی ہے۔ یہ ان کی علاقے میں لڑکیوں کے لئے پہلا سکول ہے جو پانچ ماہ پہلے فعال ہوچکا ہے۔ زر بی بی کا کہنا تھا کہ اس کی دوسری بیٹیاں بھی گھر میں غیرتعلیم یافتہ بڑی ہوچکی ہیں اب تو علاقے میں سکول کھول دیا گیا ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ عائشہ بھی تعلیم کے زیور سے محروم رہ جائے۔

وادی تیراہ میں محمد دین شاہ بٹہ کلے گرلز پرائمری سکول میں اس وقت 250 لڑکیاں پڑھتی ہیں جن کے لئے ایک استانی ہے۔ اور وہ بھی سرکاری ٹیچر نہیں ہے بلکہ مقامی لوگوں کی کوششوں سے پیرنٹ ٹیچر کمیٹی (پی ٹی سی) کے فنڈ سے تعینات کردی گئی ہے۔ سکول میں دو کمرے ہیں اور پینے کا پانی اور واش روم کی سہولت موجود نہیں ہے۔

وادی تیراہ بٹہ کلے کے ویلج کونسل کے چیئرمین نورحلیم کا کہنا ہے کہ اس سکول کی منظوری 2015 میں ہوئی تھی لیکن ابھی تک اس میں کلاسز نہیں شروع ہوئی تھی جبکہ ٹھیکہ دار نے اس میں کام بھی ادھورہ چھوڑا ہے اس وجہ سے اس سکول میں آج تک پانی اور واش رومز کی سہولت موجود نہیں ہے۔

نور حلیم کا کہنا ہے کہ یہ علاقے میں واحد گرلز سکول ہے جس کو کندی کوکی خیل، کندی میران خیل، کندی نیک زین خیل، کندی پیرل خیل، عابد خیل، میسری خیل، سنہ خیل، آدم خیل، خودڑخیل، عقیل خیل، بلند خیل، مت خیل، دوری خیل، بریان خیل کے علاقوں سے ایک سے پانچ کلومیٹر سے بچیاں پیدل آتی ہیں۔

سکول کی استانی شکیلہ کا کہنا ہے کہ اس کو ماہانہ 20 ہزار روپے کی تنخواہ دی جاتی ہے اور اکیلی سکول چلاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکول میں فرنیچر اور دیگر سہولیات موجود نہ ہونے کی وجہ سے ایک ہی وقت میں سارے مسائل حل کرنا مشکل ہے لیکن وہ اس امید کے ساتھ اس سکول میں پڑھاتی ہے کہ حکومت کی نظروں میں یہ سکول آئے گا اور سکول میں نئی استانیاں بھرتی کی جائے گی۔

محمد دین شاہ بٹہ کلے گرلز سکول کے چوکیدار محمد فاروق کا کہنا ہے کہ سکول میں استانی کے لئے ایک کرسی، بچوں کی بیٹھنے کے لئے ٹاٹ، پانی کا کولر اور دیگر چیزیں علاقے کے لوگ نے خود اپنے گھر سے لے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے علاقے کے لوگ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طریقے سے یہ سکول فغال ہو اور ان کی بچیاں تعلیم کے زیور سے اراستہ ہوجائے۔

محکمہ تعلیم ضلع خیبر کی ایجوکیشن آفیسر ثمینہ کا کہنا ہے کہ باڑہ تحصیل وادی تیراہ میں 6 پرائمری اور ایک مڈل سکول فعال ہے جس میں ہر سکول کے لئے دو استانیاں پی ٹی سی فنڈ سے تعینات کردی گئی ہیں جبکہ لر باغ زنگیر مڈل گرلز سکول میں 6 استانیاں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سال 2022 کو ان ہی سکولوں میں نئی استانیاں بھرتی کرنے کے لئے ایٹا کے ذریعے ٹیسٹ لیا گیا تھا لیکن کسی نے ٹیسٹ پاس نہیں کیا اور سیٹیں اب تک خالی ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے نئے تعیناتی پر پابندی کی وجہ سے اب ان سکولوں میں نئی بھرتیاں نہیں کراسکتی۔

محکمہ تعلیم خیبرپختونخوا سے حاصل ہونے والے دستاویزات کے مطابق خیبرپختونخوا میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد طلباء سرکاری اسکولز چھوڑ گئے ہیں۔ دستاویز کے مطابق پانچ سال میں پرائمری لیول پر ایک لاکھ 66 ہزار طلباء ڈراپ آوٹ ہوئے۔

2017 میں انرول ہونے والے پانچ لاکھ 71 ہزارطلباء میں چار لاکھ چار ہزار پانچویں تک پہنچ گئے۔ پانچ سال میں پانچویں کلاس تک مجموعی طور پر 29 فیصد طلباء ڈراپ اوٹ ہوئے۔

محکمہ تعلیم خیبرپختونخوا کے دستاویز کے مطابق 37 فیصد لڑکیوں ،22 فیصد لڑکوں نے پانچویں جماعت تک پہنچے سے پہلے تعلیم چھوڑ دی۔ ڈراپ آوٹ میں کوہستان، تورغر، ڈی آئی خان اور ٹانک پہلے نمبر پر ہیں۔ سب سے زیادہ کوہستان میں 80 فیصد بچے پانچویں جماعت سے پہلے ڈراپ اوٹ ہوئے ہیں۔

ایجوکیشن افیسر ثمینہ کا کہنا ہے کہ ضلع خیبر کی لڑکیوں کے سکولوں میں 200 اساتذہ کی کمی ہے۔ جبکہ وادی تیراہ میں خواتین اساتذہ کے لئے ٹرانسپورٹ اور رہائش کے مسائل کی وجہ سے تبادلہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گریڈ 15 کو پروموٹ ہونے والی استانیوں کے تبادلے وادی تیراہ کو ہوئے تھے لیکن وہاں پر مسائل کی وجہ سے وہ دوبارہ باڑہ یا جمرود میں تعینات کردی گئی ہیں۔

ضلع خیبر وادی تیراہ کے سماجی کارکن فضل ربی کا کہنا ہے کہ 2023 مردم شماری کے مطابق وادی تیراہ کی آبادی 3 لاکھ سے زیادہ ہے جس میں تقریباً 50 ہزار سے زیادہ سکول جانے والے عمر کی لڑکیاں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ان میں دو ہزار سے بھی کم لڑکیاں سکول جاتی ہیں۔

سماجی کارکن شمائلہ کا کہنا ہے کہ ضلع خیبر میں خواتین کی شرح خواندگی کم ہونے کی وجہ سے ایٹا ٹیسٹ پر خواتین اساتذہ کم آتی ہیں جس کی وجہ سے بھی سکولوں میں اساتذہ کی کمی ہوتی ہے۔ جبکہ باہر کے استانیوں کو وادی تیراہ میں ڈیوٹی کرنے میں مسائل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وادی تیراہ میں موجود جتنی بھی لڑکیوں نے میٹرک پاس کیا ہے ان کو رعایت دے کر سکول میں استانی بھرتی کیا جائے تو یہ سلسلہ آہستہ آہستہ بڑھے گا، یا باہر کے استانیوں کے لئے سہولیات کا بندوبست کیا جائے۔

محکمہ تعلیم سے حاصل ہونے والے معلومات کے مطابق خیبر پختونخوا کے سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی 12 ہزار 984 آسامیاں خالی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ 11 ہزار 978 ڈسٹرکٹ کیڈر کی آسامیاں شامل ہیں۔ مختلف کیڈرز سے تعلق رکھنے والے سکیل 12 اور پندرہ کی خواتین اور مرد اساتذہ کی آسامیاں تاحال پر نہیں کی گئیں۔ آسامیاں پشاور اور خیبر پختونخوا کی ضم شدہ اضلاع کے سرکاری سکولوں میں خالی پڑی ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق ایس ایس ٹیز کی 1006 آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ ڈسٹرکٹ کیڈر میں 7275 معلمات اور 4703 میل اساتذہ، ایس ایس ٹیز میں 637 میل اور 369 فی میل اسا تذہ کی ضرورت ہے۔ سب سے زیادہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں 891، دوسرے نمبر پر سوات میں 824 اور تیسرے نمبر پر مردان میں 790 پوسٹیں خالی پڑی ہیں۔

مرد سی ٹی گریڈ 15 کی 1171، ڈرائینگ ماسٹر گریڈ 15 کی 390، فزیکل ایجوکیشن ٹیچر گریڈ 15 کی 388، عربی ٹیچر گریڈ 15 کی 424، ٹی ٹی گریڈ 15 کی 302، قاری گریڈ 12 کی 195، سی ٹی آئی ٹی گریڈ 12 کی 75 اور سب سے زیادہ پی ایس ٹی گریڈ 12 کی 4330 آسامیاں خالی ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر مرد اساتذہ کی 7275 پوسٹوں پر بھرتی ہونا باقی ہے۔ اسی طرح فی میل کوٹے میں سی ٹی کی 558، ڈی ایم 272، پی ای ٹی 305 اے ٹی 312، ٹی ٹی 140، قاریہ 56، سی ٹی آئی ٹی 56، پی اور ایس ٹیز کی 2957 اسامیاں خالی ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق درکار فی میل اساتذہ کی مجموعی تعداد 4703 بنتی ہے۔ ایس ایس ٹیز کیڈر میں فی میل جنرل کی 163، بائیو کیمسٹری کی 48، میتھس فزکس 114 اور آئی ٹی کی 44 آسامیوں کو پر کرنا ہوگا۔ اسی طرح میل میں جنرل کی 334، بائیو کیمسٹری 125، میتھس فزکس 130 اور آئی ٹی کی 60 پوسٹیں خالی ہیں۔

اس حوالے سے سیکرٹری برائے ابتدائی و ثانوی تعلیم خیبر پختونخوا معتصم باللہ نے بتایا کہ چونکہ پورے ملک میں اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ہر طرح کی بھرتیوں پر پابندی عائد کی ہوئی ہے تو ایسے میں محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا میں بھی نئی بھرتیوں پر پابندی عائد ہے۔

معتصم باللہ کا مزید کہنا تھا کہ نئی بھرتیوں کیلئے ڈائریکٹوریٹ جنرل انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز خیبر پختونخوا کے ذریعے باقاعدہ اشتہار دیا جاتا ہے لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کے احکامات کی روشنی میں نئی بھرتیاں نہیں کی جا سکتیں۔ محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم خیبر پختونخوا کیجانب سے اس وقت خیبر پختونخوا کے تمام سرکاری سکولوں میں ریشنلآئزیشن کا عمل بھی جاری ہے جو کافی حد تک مکمل ہو گیا ہے یعنی وہ سکولز جہاں پڑھنے والے بچوں کی تعداد کم ہے اور وہاں اساتذہ کی زیادہ تعداد ہوتی ہے لہذا ان میں سے اضافی اساتذہ کو زیادہ تعداد والے بچوں کے سکولوں میں ایڈجسٹ کیا جارہا ہے تاکہ بچوں کی پڑھائی کا سلسلہ متاثر نہ ہو۔ مزکورہ عمل مکمل ہونے کے بعد ہی خالی آسامیوں کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے گا۔

وادی تیراہ میں سکولوں میں سہولیات کی کمی کے حوالے سے ایجوکیشن افیسر ثمینہ کا کہنا ہے کہ پچھلے سال تمام سکولوں کے لئے فرنیچرز اور دیگر اشیاء کا ٹینڈر ہوچکا تھا لیکن فنانس ڈیپارٹمنٹ کے طرف سے فنڈ جاری نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک ان کو فنڈ نہیں ملا ہے جس کے ذریعے وہ سکولوں میں ضرورت کی کمی کو پورا کرسکے۔

حکومت کے اقدامات
ضلع خیبر سمیت قبائلی اضلاع میں پاک آرمی اور غیر سرکاری ادارے بھی تعلیم کی کمی کو پورا کرنے کے کوشش کررہے ہیں۔ وادی تیراہ میں غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے فرنٹیئر کور تیراہ ملیشیا کے زیر نگرانی سینکڑوں طلباء کے لیے عرصہ دراز سے غیر فعال 6 کمیونٹی بیسڈ سکولز کو دوبارہ فعال کردیا گیا۔

وادی تیراہ کے رہائشی اور سماجی کارکن فضل ربی کا کہنا تھا کہ رواں سال اکتوبر 2013 وادی تیراہ اور اپر باڑہ میں دری ونڈی، سوخ، غلام علی، جڑوبے اور باغ حرم کے علاقوں میں ایف سی تیراہ ملیشیا ہیڈ کوارٹر 213 ونگ نے کئی سالوں سے غیر فعال 6 سکولز کو کھول کر ان کو 35 وائٹ بورڈز، 1150 سلیٹ، سیکنڑوں سیٹ کتابیں اور کاپیوں سمیت طلباء کو دیگر اشیاء فراہم کیے اور ان کے لئے ابتدائی طور پر مقامی متعلقہ قبیلے کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بطورِ معلم لیا گیا ہے جبکہ طلباء کی تعداد بڑھنے کی صورت میں مزید مقامی اساتذہ کو لیا جائے گا۔

محکمہ تعلیم خیبرپختونخوا قبائلی اضلاع سے حاصل ہونے والے معلومات کے مطابق قبائلی اضلاع کے بچوں کو سرکاری خرچ پر نجی سکولوں میں پڑھانے کا منصوبہ شروع کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ منصوبے کے تحت قبائلی علاقوں میں شرح خواندگی بڑھنے کے ساتھ مقامی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر آسکیں گے۔

محکمہ تعلیم کی دستاویزات کے مطابق صوبے کی سابق قبائلی اضلاع میں صباون سکولز اینشیٹو پروگرام شروع کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ صباون سکولز اینشیٹو پروگرام کے تحت سکولوں سے باہر طلبہ کو نجی سکولوں میں سرکاری خرچ پر پڑھایا جائے گا۔ اس سلسلے میں کلاسز کی درجہ بندی کی گئی ہے اور کلاس کے مطابق طلباء کی فیس حکومت ادا کرینگی۔
کے جی طلبہ کا 1 ہزار، پہلی سے پانچوں جماعت کے طلبہ کا 1500 اور ہشتم سے ہفتم تک کے طلبہ کا ماہانہ 2 ہزار روپے کا فیس حکومت ادا کریگی۔ صباون سکولز اینشیٹو پروگرام ان علاقوں میں شروع ہوگا جہاں کوئی سرکاری سکول موجود نہ ہو یا ان علاقوں میں جہاں کوئی نجی سکول بھی موجود نا ہو وہاں یہ پروگرام شروع کیا جائے گا۔
ابتدائی طور پر پہلے مرحلے میں رواں سال 7 سابق قبائلی اضلاع اور 6 ڈویژن میں صباون سکولز اینشیٹو پروگرام کا آغاز کیا جائے گا جس کے تحت باجوڑ میں 4، مہمند اور خیبر میں 3،3 اورکزئی ،کرم، نارتھ وزیرستان میں 2،2 سکولوں میں صباون سکولز اینشیٹو پروگرام کے تحت طلبہ کو سرکاری خرچ پر نجی سکولوں میں داخل کرایا جائے گا یا ان طلبہ کے لئے نجی سکول کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
سکولوں میں طلبہ کا انتخاب کرنے کا اختیار ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کے زیر قیادت بننے والی کمیٹیوں کو ہوگا جنہیں باقاعدہ گائیڈ لائنز جاری کردی گئی ہے۔ وہ علاقے جہاں کوئی سرکاری یا نجی سکول نہ ہو تو وہاں کے مقامی تعلیم یافتہ نوجوان کو 1 لاکھ روپے تک گرانٹ دیا جائے گا تاکہ وہ سکول کھولے اور وہاں پر طلبہ کو سرکاری خرچ پر مفت تعلیم فراہم کریں۔

ایجوکیشن فاونڈیشن قبائلی اضلاع کے منیجینگ ڈائریکٹر عبدالکرم کا کہنا ہے کہ محکمہ تعلیم کا ویژن ہے کہ سابق قبائلی اضلاع کے طلبہ کو بھی تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کریں یہی وجہ ہے کہ وہاں صباون سکولز اینشیٹو پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ جس میں صرف رواں سال اس پروگرام پر 80 ملین روپے کی لاگت آئے گی اور اس سے شرح خواندگی میں کافی حد تک اضافہ ہو جائے گا۔

نوٹ۔ یہ سٹوری پاکستان پریس فاونڈیشن کی فیلوشپ کا حصہ ہے۔ 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button