صحتلائف سٹائل

فضائی آلودگی: پشاوریوں کی اوسط عمر میں ساڑھے تین سے سات سال کی کمی کا خدشہ

 

فہیم آفریدی

اِن دنوں زندگی اہلِ پاکستان کیلئے ایک ڈراؤنا خواب بنی ہوئی ہے؛ ملک کے ”حکمرانوں” اور موجودہ نگران حکومت کے لئے بھی اور عام عوام کیلئے بھی۔ حکمرانوں کو ملک میں جاری سیاسی بے یقینی کے خاتمے، اور بدترین معاشی بحران پر قابو پانے کی نہیں سوجھ رہی تو بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، اور بالواسطہ و بلاواسطہ ٹیکسوں کی بھرپائی پسماندہ طبقات ہی کیلئے نہیں بلکہ اَپر مڈل کلاس کیلئے بھی تقریباً ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے۔ رہی سہی کسر ملک، بالاالخصوص خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات پوری کر چکے ہیں۔ ماضی کے کئی حکمرانوں کا یہ مشہور روایتی نعرہ ”ملک اِس وقت ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے” آج ایک ناقابل تردید حقیقت بن چکا ہے۔

اِسی نازک موڑ سے گزرتا آج کا پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے۔ تاہم تشویشناک طور پر فضائی آلودگی کے حوالے سے، آئی کیو ایئر کی رپورٹ کے مطابق، بنگلہ دیش سرفہرست جبکہ پاکستان دوسرے نمبر پر آ چکا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے بڑے شہروں اور کاروباری مراکز میں سے ایک، لاہور، دنیا کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے جبکہ پشاور اس فہرست میں پانچویں نمبر پر آ چکا ہے۔

لیکن پاکستان کی عوام، بالخصوص اہل پشاور اگر کسی طرح اس حقیقت کا اعتبار کر لیں کہ ”پھولوں کے شہر” میں محض سانس لینے کی وجہ سے ان کی، اور ان کی آںے والی نسلوں کی اوسط عمر میں ساڑھے تین سے سات سال کی کمی کا خدشہ ہے تو شاید یہ ان کے لئے سب سے زیادہ بھیانک اور ڈراؤنا خواب ثابت ہو۔ ساتھ ہی لیکن اگر ان کو یقین آ جائے کہ اس ضمن میں حکومت کے بعد وہ ہی ایک کلیدی کردار ادا کر کے اپنی اوسط عمر میں تقریباً اُتنے ہی سالوں کا اضافہ کر سکتے ہیں تو بلاشبہ وہ اس خواب کو پانے کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانے، اور کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار ہوں گے۔

یونیورسٹی آف شکاگو کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے ائیر کوالٹی سٹینڈرڈز پر پورا اترتے ہوئے پاکستانی اپنی اوسط عمر میں 3.9 سالوں کا جبکہ پشاور کے لوگ 5.2 سالوں کا اضافہ کر سکتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر اس کے برعکس وہ اتنے ہی سالوں کی کمی سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے مگر یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان کے شہروں، لاہور، قصور، شیخوپورہ اور پشاور، میں فضائی آلودگی کی موجودہ شرح برقرار رہی تو ان شہروں کے باسیوں کی اوسط عمر میں سات سال تک کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔

بدقسمتی سے موجودہ شواہد ڈبلیو ایچ او کے محولہ بالا خدشے کی توثیق کرتے ہیں۔ آئی کیو ائیر نے گزشتہ روز، 2 نومبر، کو لاہور میں پارٹیکولیٹ میٹر (پی ایم 2.5) کی کنسٹریشن µg/m³ 331 ریکارڈ کی اور اسے خطرناک قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ یہ ڈبلیو ایچ او کے سالانہ ائیر کوالٹی ویلیو سے 66.2 گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح پشاور میں پی ایم ٹو پوائنٹ فائیو کی کنسٹریشن µg/m³ 82 ریکارڈ کی اور اسے ”ویری اَن ہیلتھی” قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ یہ ڈبلیو ایچ او کے سالانہ ائیر کوالٹی ویلیو سے 16.4 گنا زیادہ ہے۔

پارٹیکولیٹ میٹر (پی ایم 2.5) کیا ہے؟
25 مائیکرونز سے بڑا ہوا میں معلق رہنے والا پی ایم ائیر پالوشن کا ایک کامن پراکسی انڈیکیٹر ہے۔ انسانی بال سے تقریباً 30 گنا چھوٹے اس پی ایم کے انسانی صحت پر منفی اثرات کے کافی مضبوط شواہد موجود ہیں۔ اس کے بڑے اجزا میں سلفیٹس، نائٹریٹس، امونیا، سوڈیم کلورائید، بلیک کاربن، منرل ڈسٹ اور پانی شامل ہیں۔

فضائی آلودگی۔۔ ایک عالمی مسئلہ
ڈبلیو ایچ او کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں سے ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی بھی ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے خاص طور پر جنوبی ایشیائی ممالک ان کی لپیٹ میں ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق فضائی آلودگی خراب عوامی صحت کے پیچھے ماحولیاتی عوامل میں سرفہرست ہے اور دنیا بھر میں سالانہ سات سے نو ملین اموات بھی اسی کے باعث ہوتی ہیں۔ فضائی آلودگی کے خلاف صف آراء سول سوسائٹی کی رضاکارانہ تنظیم پشاور کلین ائیر الائنس (پی سی اے اے) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فضائی آلودگی سے سالانہ قبل از وقت اموات کی تعداد 22000 ہے۔
لیکن، ماہرین کے مطابق، فضائی آلودگی کے مستقل طور پر شکار لوگ اگر قبل از وقت موت کے منہ میں نہیں بھی جاتے تو بھی ان کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔ ان کی رسپائریٹری ہیلتھ بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ وہ گلے، سینے اور پھیپھڑوں کے امراض یہاں تک کہ پھیپھڑوں کے کینسر کا بھی شکار ہو سکتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق فضائی آلودگی میں کمی لاتے ہوئے مملک سٹروک، دل کی بیماریوں، پھیپھڑوں کے کینسر، اور بشمول دمہ سانس کی دائمی اور ایکیوٹ بیماریوں کا بوجھ کم کر سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں فضائی آلودگی جیسے اہم و سنگین مسئلے سے چشم پوشی اختیار کرنے والے ممالک کو اس بوجھ میں مسلسل اضافے کا سامنا ہو سکتا ہے۔

پشاور میں فضائی آلودگی کی وجوہات
پشاور، جسے کبھی پشاور ویلی کہا جاتا تھا، آج بھی بعض حلقوں باالخصوص ادبی حلقوں میں ‘پھولوں کا شہر’ کے سے نام یاد کیا جاتا ہے۔ تاہم موجودہ پشاور کی فضاؤں میں پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو کی بجائے دھوئیں، گردوغبار، اور جا بجا تعفن و بدبو پھیلی ہوئی ہے۔ شہر کی فضا زہر قاتل بن چکی ہے۔ پہلے افغان وار کے نتیجے میں بڑی تعداد میں افغان پناہ گزینوں کی مہمان نوازی، اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن سٹی کا کردار ادا کر کے اپنے قبائلی عوام کو اپنی آغوش میں لینے والا شہر پشاور اب ماضی کی طرح اپنی قدیم تاریخ اور سادہ مگر پرشکوہ روایات کا امین نہیں رہا بلکہ بے ہنگم آبادی اور حکومتوں کی ناقص پالیسیوں، اور سیاسی مفاد کے پیش نظر جاری کئے گئے منصوبوں نے اس کی سادگی اور حسن کو مسخ کر دیا ہے۔ آبادی میں اسی اضافے نے بنیادی طور پر اس مسئلے، فضائی آلودگی، کی سنگینی میں اضافہ کیا ہے۔
آبادی میں مسلسل اضافے، اور سوات، دیر اور چترال تک شاہراہوں کی تعمیر کے علاوہ ملحقہ خیبر، مہمند اور وزیرستان تک سڑکوں کی بہتر مرمت کا نتیجہ ہے کہ پشاور شہر میں گاڑیوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جن میں پرائیوٹ/شخصی موٹرسائیکل/موٹرکار سے لے کر چھوٹی بڑی مسافر و مال بردار گاڑیاں سب شامل ہیں۔ موٹرسائیکل اور سکوٹر کی تعداد میں 168 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ پی سی اے اے کی رپورٹ کے مطابق یہی ٹرانسپورٹ سیکٹر پشاور میں فضائی آلودگی کا سب سے بڑا زریعہ (58.46%) ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ان گاڑیوں میں سے بیشتر 30 سے 40 پرانی ہیں۔ پرانے انجن اور ان گاڑیوں میں مناسب ایمشنز منیجمنٹ سسٹمز کی کمی کے باعث ان گاڑیوں سے ہونے والے ایمشنز (اخراج) فضائی آلودگی کے دیگر زرائع پرسبقت لے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ خطرناک رکشے ہیں جو اپنے پیچھے دھویں کا غبار چھوڑنے کیلئے بدنام ہیں۔

پشاور کی فضائی آلودگی کیلئے دوسرے نمبر پر ذمہ دار گردوغبار ہے جس کی شرح 17.67 فیصد پائی گئی۔ اس کے بعد ڈومیسٹک سیکٹر (11.6 فیصد)، اندسٹری (6.58 فیصد)، گندگی کو سرعام نذرآتش کرنا (4.10 فیصد) اور آخر میں کمرشل سیکٹر کا حصہ 1.49 فیصد ہے۔

حکومتی بے حسی
صرف یہی نہیں بلکہ پے بہ پے حکومتیں بھی اپنی لاپرواہی، غفلت اور غیرذمہ داری کے باعث اس صورتحال کیلئے برابر کی ذمہ دار ہیں۔ حکومتوں کی لاپرواہی کی انتہا کا حال یہ ہے کہ متعلقہ اداروں کے پاس اس مسئلے کی بابت ٹھوس و جامع معلومات بھی نہیں ہیں۔ اور تو اور صوبے میں ماحولیاتی تحفظ اور کے پی ای پی اے ایکٹ 2014 پر عملدرآمد کیلئے ذمہ دار ادارہ، انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے)، خود وسائل و سٹاف کی کمی جیسے کئی اہم چیلنجز سے دوچار ہے۔ ای پی اے اِس وقت ایئر کوالٹی ریکارڈ کیلئے یو ایس قونصلیٹ پشاور میں نصب ایئر مانیٹر پر انحصار کر رہا ہے۔ خود ادارے کا اپنا واحد ایئر مانیٹر مبینہ طور پر گزشتہ تین سالوں سے خراب پڑا ہے۔
شناخت کو خفیہ رکھنے کی شرط پر ٹرائبل نیوز نیٹ ورک سے بات کرتے ہوئے انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ایک سینئر اہلکار نے شہر کی ہوا کے خراب معیار کا اعتراف کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ PM 2.5 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر کا ارتکاز خطرناک حد تک زیادہ ہے جو کہ انتہائی خراب ہوا کے معیار کی نشاندہی کرتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پشاور کی ہوا کا معیار، اگرچہ خراب ہے، لیکن پھر بھی اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں سے نسبتاً بہتر ہے۔
اہلکار نے پشاور کی بگڑتی ہوئی ہوا کے معیار کے لیے کئی اہم عوامل جیسے ٹریفک کا بڑھتا ہوا حجم، سی این جی فلنگ اسٹیشنز کی بندش اور ناکافی بارش کو ذمہ دار قرار دیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کی شرح نے بہت سے رہائشیوں کو رکشہ یا موٹر سائیکلوں کا انتخاب کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ دوسرے گاڑیوں کی سی این جی سے پٹرول میں منتقلی نے بھی شہر کی پہلے سے خراب ہوا کے معیار کو مزید خراب کر دیا ہے۔
"پشاور دھواں چھوڑنے والے ہزاروں دو سٹروک رکشوں سے دوچار ہے جن پر برسوں پہلے پابندی عائد کر دی گئی تھی، لیکن وہ اب بھی ہماری سڑکوں پر چلتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ دہائیوں پرانی بسیں، ٹرک اور ٹریکٹر بھی، یہ سب ہماری ہوا کو آلودہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔”
تاہم، اہلکار نے اکتوبر کے دوران بارش سے ہوا کے معیار میں معمولی بہتری کو نوٹ کرتے ہوئے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ہفتے کے آخر میں ممکنہ طور پر صنعتی سرگرمیوں اور گاڑیوں کی آمدورفت میں کمی کی وجہ سے ہوا کا معیار بہتر ہو جاتا ہے۔

فضائی آلودگی کو کم کرنے کی حکمت عملی
اپنی رپورٹ میں، پشاور کلین ایئر الائنس (پی سی اے اے) نے فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے کئی سفارشات پیش کی ہیں۔ ان میں نگرانی کی صلاحیتوں کو بڑھانے، عوامی بیداری کو فروغ دینے اور روک تھام کے اقدامات کو فعال کرنے کی فوری ضرورت شامل ہے۔
اس سلسلے میں بس ریپڈ ٹرانزٹ سروس ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے، اضافی فیڈر روٹس کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ بی آر ٹی سٹیشنوں تک نان موٹرائزڈ ٹرانسپورٹ کی رسائی کو بہتر بنانے کے لیے پیدل چلنے والوں کے لیے کراسنگ، بفر زون، سائیکل لین، اور پیدل چلنے والے علاقوں کے قریب اسپیڈ بریکر قائم کرنا بہت ضروری ہے۔
مزید برآں، کار پولنگ کو ایک حکومتی پالیسی کے طور پر متعارف کرایا جانا چاہیے، جس کا مطلب ہے کہ سکولوں اور دفاتر آنے جانے کے لیے گاڑیوں کے روزانہ ذاتی استعمال کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے، لکڑی کا استعمال کم کرنے کے لیے متبادل یا سبسڈی والے زرائع اختیار کیے جانے چاہئیں۔
ایک عوامی آگاہی مہم شروع کی جانی چاہیے تاکہ رویے میں تبدیلی کو فروغ دیا جا سکے۔ اس سلسلے میں متبادل وسائل کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کے لیے مراعات کی فراہمی سب سے اہم اقدام ہو گا۔
تاہم، ماہر ماحولیات عبدالرحمن خان نے پی سی اے اے کے کردار کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ حکومتیں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز اکثر بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں لیکن عملی اقدامات کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ان کے بقول پٹرول پمپوں پر ایندھن کے معیار پر کنٹرول اور پشاور شہر میں ٹریفک کی روانی کو منظم کرنے جیسے چھوٹے چھوٹے اقدامات اہم نتائج دے سکتے ہیں۔

فضائی آلودگی کے انسانی صحت پر اثرات
اہلِ پشاور کی صحت پر فضائی آلودگی کے اثرات کی شہادت شہر کے بڑے میڈیکل فیسلٹیز، بشمول صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال ایل آر ایچ کے، کے اعدادوشمار دیتے ہیں۔
ایل آر ایچ کے شعبہ پلمونولوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر انیلہ باسط نے حالیہ برسوں میں سانس کی رکاوٹوں، الرجک ری ایکشن، سینے کی الرجی، الرجک فلو، اور دمہ جیسی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ پر روشنی ڈالتے ہوئے اس امر کو تشویشناک قرار دیا کہ ان مریضوں میں سے تقریباً 90 فیصد فضائی آلودگی کی وجہ سے بیمار ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر انیلا کے مطابق فضائی آلودگی سے ہر عمر کے افراد متاثر ہوتے ہیں لیکن بچے خاص طور پر زیادہ غیرمحفوظ ہوتے ہیں۔ طویل عرصے تک فضائی آلودگی کے باعث بچوں میں پھیپھڑوں کی نشوونما رک جاتی ہے۔ مزید برآں، حمل کے دوران فضائی آلودگی بچے کے پھیپھڑوں کی نشوونما کو نقصان پہنچا سکتی ہے جس سے سانس کی صحت کے طویل المدتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ماہرین صحت نے متنبہ کیا ہے کہ مستقل فضائی آلودگی قلبی اور سانس کی صحت پر اس کے منفی اثرات کی وجہ سے متوقع عمر کو کم کر سکتی ہے۔ مزید برآں، یہ پھیپھڑوں کے کینسر کے خطرے کو بڑھاتی ہے لہٰذا یہ عوامی فلاح و بہبود کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔

احتیاطی تدابیر
ڈاکٹر انیلہ باسط فضائی آلودگی کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے احتیاطی تدابیر کا ایک سلسلہ تجویز کرتی ہیں۔ ان کے بقول موسم جیسے جیسے سرد ہوتا جاتا ہے، گرم لباس کا استعمال ضروری ہو جاتا ہے خاص طور پر بچوں کو بغیر آستین والی قمیضوں سے پرہیز کرنا چاہیے اور اس کے بجائے سویٹر یا دیگر گرم لباس کا انتخاب کرنا چاہیے۔ اگر کسی کو فلو ہے تو اسے بڑے اجتماعات سے گریز کرنا چاہیے۔ فلو میں مبتلا افراد کو ماسک پہننا چاہیے اور ان لوگوں کو بھی، چاہے ڈاکٹر ہوں یا دوسرے، جن کو ایسے مریضوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ڈاکٹر انیلا کے مطابق سردیوں سے پہلے فلو کی ویکسین لینا بہت ضروری ہے۔ تاہم، یہ ویکسین ہر سال نئی آتی ہیں اور مہنگی بھ ہو سکتی ہیں۔ اس سال فی ویکسین کی قیمت 2500 روپے تھی اور مارکیٹ میں قلیل تعداد میں دستیاب تھی جو اب ختم ہو چکی ہے۔

پی سی اے اے۔۔۔ امید کی ایک کرن
جس طرح کہتے ہیں کہ ہر کالی گھٹا میں امید کی ایک کرن ہوتی ہے بالکل اسی طرح حکومت و شہریوں کی بے حسی و لاپرواہی کے شکار پشاور کیلئے پشاور کلین ایئر الائنس امید کی ایک ایسی کرن ثابت ہوئی کہ جسے اگر تمام سٹیک ہولڈرز کا، بشمول عوام کے، تعاون حاصل ہو جائے تو پشاور اور اہل پشاور کی قسمت بدلی جا سکتی ہے۔ 130 سے زائد ممبرز پر مشتمل پی سی اے اے کا قیام 2020 میں عمل میں لایا گیا جس نے تب سے لے کر اب تک وہ خدمات انجام دیں جو درحقیقت حکومت کی ذمہ داری تھی۔ یہ پی سی اے اے ہی تھی جس نے گزشتہ سال پشاور میں ایئر کوالٹی کے سٹیٹس اور اس کے زرائع پر پر اپنی نوعیت کی پہلی تشخیصی رپورٹ شائع کی جسے کابینہ، چیف سیکرٹری، محکمہ ماحولیات وغیرہ کی جانب سے اپروول ملا۔
پی سی اے اے کی اس چشم کشا رپورٹ میں پہلی مرتبہ پشاور میں ایئر کوالٹی پر رئیل ٹائم ڈیٹا پیش کیا گیا، اور فضائی آلودگی کے زرائع کو نہ صرف سامنے لایا گیا بلکہ ان کے اثرات پر بھی روشنی ڈالی گئی اور ان پر قابو پانے کیلئے تجاویز بھی پیش کی گئیں۔

یہ پی سی اے اے ہی کا کارنامہ ہے کہ آج پشاور بھر سمیت پورے خیبر پختونخوا میں ایئر کوالٹی مانیٹرنگ کا ایک نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے۔ اس سے قبل اِس تنظیم نے فنڈنگ کر کے پشاور بھر میں مانیٹرز نصب کئے تھے۔ ان مانیٹرز سے حاصل ہونے والا ڈیٹا پی سی اے اے کی ویب سائٹ اور آئی کیو ایئر کے پلیٹ فارم پر لائیو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
غرضیکہ پی سی اے اے کی اب تک کی کاوشوں کی بدولت ‘پالوشن ہاٹ سپاٹس’ کی نشاندہی ممکن ہو گئی ہے۔ عوام ایئر کوالٹی پر قیمتی معلومات کے زریعے اپنی صحت اور بیرونی سرگرمیوں کے حوالے سے ‘انفارمڈ’ فیصلے لے سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی کے صحت پر اثرات اور آلودگی پر قابو پانے کیلئے کئے جانے والے اقدامات کی تاثیر کو جانچنے کیلئے محققین کا کام بھی پی سی اے اے نے آسان بنا دیا ہے۔ المختصر، پی سی اے اے نے پشاور میں فضائی آلودگی پر قابو پانے، اور اہل پشاور کو صاف ہوا کی فراہمی کیلئے ایک ایسی بنیاد فراہم کر دی ہے کہ جس نے فضائی آلودگی پر قابو پانے (ریگولیشن) کیلئے حکومتی مداخلتوں کیلئے راہ ہموار کر دی ہے۔
ماحولیات پر گہری نظر رکھنے والے صحافی محمد داؤد خان کے مطابق پی سی اے اے کی انتھک کوششوں کو محض تسلیم نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ پشاور کو اس کی سابقہ حالت میں بحال کرنے کے لیے حکومت، علمائے کرام، تعلیمی اداروں اور میڈیا کو فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک یا دو افراد کی صحت اور بہبود نہیں بلکہ ممکنہ طور پر لاکھوں افراد کی صحت کا معاملہ ہے۔
داؤد خان نے خبردار کیا کہ اگر پی سی اے اے کی مہم کو حکومت اور پشاور کے لوگوں نے نظرانداز کیا تو اِس قدیم شہر کا دم جلد ہی گھٹ جائے گا، اور ہزار سالہ پرانا یہ شہر ناقابل رہائش بن جائے گا۔

نوٹ: یہ رپورٹ طیب آفریدی کی نگرانی میں اور رپورٹ فار دی ورلڈ کے تعاون سے تیار کی گئی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button