تعلیم

پشاور یونیورسٹی: ”کچھ نہیں پتہ یہ امتحانات ہوں گے بھی یا نہیں”

حسام الدین

صوبہ کی سب سے بڑی تعلیمی درس گاہ، پشاور یونیورسٹی، کی اساتذہ تنظیم پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن (پیوٹا) نے گورنر خیبر پختونخوا سے جامعہ کے وائس چانسلر کو فوری طور پر برطرف کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے نئے وائس چانسلر کی تعیناتی تک یونیورسٹی کو بند رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔

گورنر کو ارسال کئے گئے اپنے خط میں یونیورسٹی کی اساتذہ تنظیم نے شکایت کی ہے کہ موجودہ وائس چانسلر نے اپنے منظور نظر لوگوں کو نوازنے اور حقداروں کو کھڈے لائن لگایا ہے جس کا سارا اثر طلبہ و طالبات پر پڑ رہا ہے، کلیدی عہدوں پر سینئرز کی جگہ جونیئرز کو تعینات کر کے پیغام دیا گیا ہے کہ جو بھی وائس چانسلر کے حضور سرتسلیم خم کرے گا وہ حصہ پائے گا جبکہ باقی کسی کو کوئی حق نہیں ملے گا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ اس وقت سینئر اور حقیقی حقدار اساتذہ سرکاری رہائش گاہوں تک سے محروم رکھے گئے ہیں اور سرکاری مکانوں پر قبضے کی وجہ سے یہ اصل حقدار کرائے کے گھروں میں رہ رہے ہیں۔

خط میں گورنر سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ یونیورسٹی میں پڑھنے والے چودہ ہزار طلبہ کا مستقبل بچایا جائے۔

گورنر کو ارسال کردہ خط کا متن

سیکورٹی انچارج ثقلین بنگش کے قتل کے تیسرے روز پیوٹا نے گورنر کو ارسال کئے گئے خط میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ادریس خان کو برطرف کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ وائس چانسلر یونیورسٹی میں بدنظمی اور کرپشن میں ملوث ہیں۔

خط کے متن کے مطابق یونیورسٹی میں سیکیورٹی کی بدتر صورتحال کی ذمہ دار یونیورسٹی انتظامیہ ہے جبکہ ثقلین بنگش کے قتل کی شفاف تحقیقات کی جائے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ وائس چانسلر کی جانب سے سینڈیکیٹ میٹنگز کے منٹس میں ردو بدل کیا جاتا ہے، ایکٹ کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، غیرقانونی اور جبری طور پر ڈینز اور چیئرمینز کے تبادلے کئے جاتے ہیں، فیکلٹی ممبران کو بیرون ملک دوروں کے لئے این او سی نہیں دیا جاتا، غیرقانونی طور پر تنخواہوں میں کٹوتی اور الاؤنسز نہیں دیئے جاتے، فنڈز کو ضائع کیا جاتا ہے، منطور نظر ملازمین میں مکانات کی بندر بانٹ جاری ہے، غیرقانونی طور پر اساتذہ کی تعیناتی کو روکا گیا ہے۔

پشاور یونیورسٹی بند ہونے کی اصل وجوہات 

رواں ماہ کی 6 تاریخ سے پشاور یونیورسٹی کو پیوٹا نے اس وقت بند کیا جب یونیورسٹی کے سیکورٹی انچارج ثقلین بنگش کو ایک سیکیورٹی گارڈ نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔

اس قتل کے بعد پیوٹا نے سیکیورٹی انتظامات کو ناقص قرار دے کر کلاسز کا بائیکاٹ کر لیا۔ پیوٹا کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کی ملکیت پیوٹا ہال، کار پارکنگ، گیسٹ ہاؤس وغیرہ سے سالانہ 3 سے ساڑھے3 کروڑ روپے آمدنی ہوتی ہے جس کو انتظامیہ نے یونیورسٹی کی ملکیت مانتے ہوئے پیوٹا کو یونیورسٹی انتظامیہ کے حوالے کرنے کا حکم صادر کیا، یہ فیصلہ سینڈیکیٹ میں کیا گیا ہے۔

دوسری جانب پشاور یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق یونیورسٹی میں مالی بحران کے باعث اساتذہ کے مکانوں میں لوکل ٹیلیفون کے بل دینے بند کر دیئے جبکہ موبائل الاؤنس دیا جاتا ہے۔

پیوٹا کے سابق صدر جمیل احمد چترالی ایک اہم وجہ 

پیوٹا کے سابق صدر پروفیسر جمیل چترالی کے خلاف گورنر انسپکشن ٹیم کی انکوائری رپورٹ کے مطابق وہ مختلف قسم کی بے قاعدگیوں میں ملوث پائے گئے ہیں اور وہ ایک سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں۔

یہ انکوائری رپورٹ گورنر خیبر پختونخوا کو ارسال کی گئی ہے جس میں پروفیسر جمیل چترالی کے خلاف کاروائی کی سفارش کی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر جمیل چترالی سوشل میڈیا پر پاکستانی فوج کی ملک کے لئے قربانیوں پر تنقید کے ذریعے بدنامی کا باعث بنتے رہے ہیں اور وہ نظریہ پاکستان کا مذاق اڑاتے ہیں جبکہ اپنے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کر کے یونیورسٹی سے این او سی لے کر 24 مختلف ممالک کا دورہ بھی یونیورسٹی کے خرچے پر کر چکے ہیں۔

تنخواہوں میں اضافہ اور الاؤنسز

یونیورسٹی میں بے چینی کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پچھلے سال حکومت نے بجٹ میں یونیورسٹی کے ساڑھے پانچ سو اساتذہ کی جو تنخواہ بڑھائی تھی اس پر عمل نہیں ہو رہا۔

اس حوالے سے رابطے پر پیوٹا کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر سلیمان خان نے بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ایڈہاک الاؤنسز، ڈی آر اے نہیں مل رہے ہیں جبکہ یونیورسٹی کے مضبوط اور بااختیار سنڈیکیٹ نے اس بارے میں فیصلہ کیا تھا کہ ملازمین کو ان کا حق دیا جائے۔

ڈاکٹر سلیمان کے مطابق یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور رجسٹرار نے اساتذہ کا جینا محال کر دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وائس چانسلر ڈاکٹر ادریس خان نے رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صرف ذاتی عناد کی بنیاد پر شعبہ سوشیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر نور ثناءالدین کو شعبہ ریجنل سٹڈیز جبکہ شعبہ کیمسٹری کے ڈاکٹر کاشف کو شعبہ انوائرمینٹل سائنسز منتقل کر دیا ہے، ”وی سی ہائر ایجوکیشن کی جانب سے منظور شدہ کروڑوں روپے کی سکالر شپس بھی روکے ہوئے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے اساتذہ کے لئے ماہانہ 5 ہزار روپے الاؤنس بھی کسی استاد کو نہیں ملتا۔”

انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر کمزور منتظم ہیں جو یونیورسٹی کو نہیں چلا سکتے لہٰذا حکومت کو فوری طور پر وائس چانسلر کو برطرف کر کے نئے وائس چانسلر کی تعیناتی کرنی ہو گی بصورت دیگر ان کی اساتذہ تنظیم یونیورسٹی کو بند رکھے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ طلبہ و طالبات کا وقت اور مستقبل ضائع نہیں ہونے دیں گے۔

امتحان رکوا کر طلباء کو امتحان کے مرکز سے نکلوا دیا

اس رسہ کشی میں یونیورسٹی کے ہزاروں طلبہ و طالبات کی تعلیم کا شدید حرج ہو رہا ہے جن کی ایک بڑی تعداد ہاسٹلز میں رہائش پذیر ہے۔

ان طلباء میں سے ضلع شمالی اور جنوبی وزیر ستان، چترال اور دیگر اضلاع سے طلبہ و طالبات 13 مارچ کو شعبہ انگلش میں پرچہ دے رہے تھے کہ اس دوران وہاں آنے والے اساتذہ نے ان کو پرچہ دینے سے روکا اور ہال میں موجود طلبہ و طالبات کو کھری کھری سنا کر ہال سے چلے جانے پر مجبور کر دیا۔

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ریاضی کے 13 مارچ کو ہونے والے امتحانات اساتذہ کی جانب سے یونیورسٹی بند کرنے کی وجہ سے منسوخ ہو چکے ہیں۔

طالب علم فواد (فرضی نام) نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 13 مارچ کو ان کے فائنل ٹرم کے امتحانات طے تھے جو اس تنازعے کے باعث نہ ہو سکے اور یوں طلبہ کا وقت ضائع ہو رہا ہے۔

شعبہ کیمسٹری کے طالب نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 20 مارچ کو ان کے سالانہ امتحانات ہونے ہیں لیکن دو ہفتوں سے یونیورسٹی کی بندش کی وجہ سے انہیں کچھ نہیں پتہ کہ یہ امتحانات ہوں گے بھی یا نہیں کیونکہ اس وقت کلاسز کے ساتھ ساتھ لیبارٹریز بھی بند ہیں اور ان کا ریسرچ کا کام رکا ہوا ہے۔

پشاور یونیورسٹی کی طلبہ تنظیم، اسلامی جمعیت طلبہ، کے ناظم آفتاب عالم نے بتایا کہ یونیورسٹی کیمپس میں پندرہ دنوں کے دوران دوسرے قتل کے واقعے کے بعد انہوں نے سیکورٹی کے انتظامات بہتر کرنے کے مطالبے کے لئے کیمپ لگایا تاہم وہ کلاسز بند کرنے کے حق میں نہیں تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ کلاسز کے بائیکاٹ اور امتحانات ملتوی ہونے کا سب سے زیادہ نقصان ہزاروں طلبہ و طالبات کو ہونا تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا مستقبل تاریک ہو۔

آفتاب عالم کے مطابق جو اساتذہ پیوٹا میں نہیں ہیں وہ پیوٹا کا ساتھ نہ دینے کی قیمت ادا کرنے سے خوفزدہ ہیں کیونکہ پیوٹا کے اساتذہ کی ایک تعداد اس وقت سینڈیکیٹ اور دیگر باڈیز میں موجود ہے جو ان کے لئے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں، پیوٹا کے اساتذہ اپنے مفاد کی خاطر طلبہ و طالبات کے مستقبل کی بھی پرواہ نہیں کرتے جبکہ کلاس فور اور تھری کے ملازمین نے بھی بائیکاٹ میں پیوٹا کا ساتھ دیا ہے۔

پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا موقف 

اس سلسلے میں رابطہ پر پروفیسر ڈاکٹر ادریس خان وائس چانسلر پشاور یونیورسٹی نے ٹی این این کو بتایا کہ اساتذہ تنظیم نے یونیورسٹی کو یرغمال بنایا ہوا ہے، ان کو طلبہ و طالبات کے مستقبل کی کوئی پرواہ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پراونشل انویسٹی گیشن ٹیم (پی آئی ٹی) کی تحقیقات میں 15 سو ملین روپے کی کرپشن منظر عام پر آئی ہے جس میں انہوں نے 8 سو ملین برآمد کر لئے ہیں، ان تحقیقات میں بیسیوں اسسٹنٹ پروفیسروں کے جعلی کاغذات کی بنیاد پر بھرتی ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

وی سی نے کہا کہ ان کا اولین مقصد ان جعلی اساتذہ کو ملازمتوں سے برطرف کرنا ہے۔

ڈاکٹر جمیل چترالی کے متعلق انہوں نے بتایا حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی ٹیم جے آئی ٹی کی تحقیقات میں ان پر چار سنگین نوعیت کے الزامات ثابت ہو چکے ہیں جس کے بارے میں انتظامیہ جلد اپنا فیصلہ سنائے گی، یہ بائیکاٹ کرنا اور یونیورسٹی کو بند کرنا انہی جعلی اساتذہ کو بچانے کی چال ہے لیکن ہم کسی سے گھبرانے والے نہیں ہیں۔

وی سی کا کہنا تھا کہ سینٹ کے اجلاس میں پیوٹا کی املاک کو یونیورسٹی انتظامیہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور پیوٹا حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ کو بلیک میل نہیں کر سکتی۔

انہوں نے واضح کیا کہ یونیورسٹی سروسز رولز کے تحت وہ بائیکاٹ کرنے والے ملازمین کو ایک روپے تنخواہ بھی نہیں دیں گے۔

وائس چانسلر کے مطابق پیوٹا کہ سرکردہ پروفیسر جن کی پی ایچ ڈی میں 92 فیصد پلیجرازم تھا صرف سینڈیکیٹ میں ان کے خلاف بات کی تو پیوٹا ان کے پیچھے پڑ گئی۔

انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کو ابھی تک کوئی فنڈ جاری نہیں ہوا اور انہوں نے سینڈیکیٹ کے اجلاس میں واضح بھی کیا تھا کہ جب فنڈز جاری ہوں گے تو ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے گا۔

وائس چانسلر کے مطابق 4 ہزار ملازمین اور اساتذہ کے بچوں کی سکولوں میں فیس فری ہے جس سے یونیورسٹی کے خزانے کو تین کروڑ کا سالانہ خسارہ اٹھانا پڑتا ہے۔

وائس چانسلر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جب 2020 میں انہوں نے چارج سنبھالا اس وقت یونیورسٹی 669 ملین مقروض تھی، انہوں نے فیڈرل اور صوبائی حکومت سے 17 سو ملین اور سرپلس لے کر یونیورسٹی کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔

انہوں نے آگاہ کیا کہ اس ہفتے سے یونیورسٹی انتظامیہ نے تعلیمی سرگرمیاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وائس چانسلر اور اساتذہ تنظیم کے بیچ رسہ کشی کا یہ اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا، جبکہ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات مسلسل غیریقینی صورتحال کا شکار اور پریشان ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button