جرائم

سیکورٹی ایڈوائزر قتل: یونیورسٹی تاحکم ثانی بند رہے گی۔ پیوٹا

یونیورسٹی میں تعینات سیکورٹی اہلکاروں کا ذہنی و جسمانی معائنہ کیا جائے۔ مظاہرین

رفاقت اللہ رزڑوال

پشاور یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن (پیوٹا) نے سیکورٹی ایڈوائزر کے قتل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یونیورسٹی کے کلاسز سے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا اور کہا کہ واقعے کی جوڈیشل انکوائری کے ساتھ یونیورسٹی کے اساتذہ، طلباء اور دیگر عملے کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

پیوٹا کے صدر پروفیسر محمد عزیر نے ٹی این این کو بتایا کہ سیکورٹی ایڈوائز کے قتل کے واقعہ پر یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباء میں خوف و ہراس پھیل گیا جس پر تمام کلاسز سے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس احتجاج میں کلاس فور اور کلاس تھری سمیت طلباء نے بھی شرکت کی ہے جہاں پر انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری کی جائے جس میں ججز، سیکورٹی فورسز کے تحقیقاتی ماہرین اور یونیورسٹی کے اساتذہ شامل ہوں تاکہ وہ معلوم کر سکیں کہ کہاں پر سیکورٹی لیپس ہیں، "یہ دو ہفتوں کے دوران کیمپس میں سکیورٹی گارڈز کے ہاتھوں قتل کا دوسرا واقعہ ہے، اس سے قبل 19 فروری کو پشاور کی اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں شعبہ انگریزی کے پروفیسر بشیر کو ایک سیکورٹی گارڈ نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔”

محمد عزیر کے مطابق بشیر احمد کے قتل کے بعد انہوں نے کئی بار مطالبہ کیا کہ یونیورسٹی میں تعینات سیکورٹی اہلکاروں کا ذہنی و جسمانی معائنہ کیا جائے تاکہ یہ باور ہو کہ بچے اور اساتذہ ایک پرسکون اور پرامن ماحول میں پڑھ سکیں ورنہ وہ کلاسز کا بائیکاٹ جاری رکھیں گے۔

پشاور یونیورسٹی کے سنٹرل کیمپس کے اندر چار یونیورسٹیاں، چھ کالجز اور 13 اسکول ہیں اور کل آبادی دو لاکھ کے قریب ہے، کیمپس کے اندر تقریباً 350 پولیس اہلکار تعینات ہیں۔

یونیورسٹی کے اعدادوشمار کے مطابق یونیورسٹی میں 58 اور اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں 75 سیکیورٹی گارڈز تعینات ہیں۔

پیوٹا اور دیگر سٹاف کے احتجاج سے قبل گزشتہ روز یونیورسٹی کی طلباء تنظیموں نے بھی احتجاج کیا تھا جس میں اسلامی جمعیت طلباء، پاکستان تحریک انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن، پختون سٹوڈنٹ فیڈریشن، پیپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن و دیگر نے شرکت کی۔

پختون سٹوڈنٹ فیڈریشن کی آرگنائزنگ کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں طلباء غیرمحفوظ ہیں، یہاں پر موجود سیگا کے نام سے پرائیویٹ سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے اور آئے روز کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے جس سے ہم خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ثقلین بنگش کے قتل کے معاملے کی شفاف تحقیقات کی جائیں کیونکہ ان کے خیال میں ثقلین کا قتل ایک سازش ہے اس لئے کہ ان کے پاس وی سی کی کرپشن کے کئی ثبوت موجود تھے۔

اسلامی جمعیت طلباء کے سیکرٹری جنرل جنید اقبال کا کہنا تھا کہ کیمپس میں طلباء ایک پرامن ماحول کے خواہاں ہیں، یونیورسٹی میں بدامنی کے واقعات کو ایک سوچی سمجھی سازش سمجھتے ہیں، پہلے ایک پلان کے تحت خیبر پختونخوا اور اب یونیورسٹی میں حالات خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، "اس یونیورسٹی میں پہلے ایک سابق فوجی افسر کو سیکورٹی افسر تعینات کیا گیا اور اب سیگا سیکورٹی نافذ کر دی گئی، ہم اپنے خرچوں سے انہیں پالتے ہیں اور یہ اوپر سے ہمارے اساتذہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ اگر ذمہ داران کو سزائیں نہ دی گئیں تو ہم سڑکوں پر نکلیں گے جس کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

یونیورسٹی ترجمان محمد نعمان نے ٹی این این کو بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ ثقلین بنگش کے قتل کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتی ہے جس کی تحقیقات کیلئے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی گئی ہے جو دس دن کے اندر اندر اپنی رپورٹ وی سی کو پیش کرے گی۔

محمد نعمان کا کہنا تھا کہ ثقلین کے قتل کے بعد انتظامیہ نے غور شروع کیا ہے کہ یونیورسٹی میں موجود تمام سیکورٹی اہلکاروں کا دوبارہ ذہنی اور جسمانی معائنہ کیا جائے اور جو اہلکار سیکورٹی کے قواعد و ضوابط کے ساتھ مطابقت نہ رکھتا ہو اسے فارغ کیا جائے۔

پشاور پولیس کے مطابق سیکورٹی ایڈوائزر ثقلین بنگش کے قتل میں ملوث سیکورٹی گارڈ کو ضلع خیبر سے گرفتار کیا گیا ہے جس نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button