ملک میں کاغذ نایاب، امتحانی پرچہ جات اور نصابی کتابوں کی چھپائی میں دشواری
عارف حیات
خیبرپختونخوا میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ امتحانات کے پرچہ جات کی تیاری میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ ملک میں کاغذ نایاب ہونے سے خیبرپختونخوا میں پرنٹنگ پریس مالکان کو جاری امتحانات کے لئے پرچہ جات کی چھپائی پورا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے پرچہ میں صفحات کی تعداد بیس سے چوبیس ہوتی ہے۔
خیبرپختونخوا میں آٹھ تعلیمی بورڈز ہیں جن کے زیر انتظام نجی و سرکاری تعلیمی اداروں کے میڑک بشمول انٹرمیڈیٹ کے 13 لاکھ 56 ہزار 24 طلباء امتحان دے رہے ہیں۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ رواں سال کے امتحانات میں پرچہ جات کی تعداد کم کی گئی ہے جسکی واضح وجہ کاغذ کی کمی بتائی جارہی ہے۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا میں سکول اور کالجز کے نصابی کتابوں کے لئے خیبرپختونخوا ٹیکسٹ بُک بورڈ نے ورک آڈرز جاری کیے ہیں مگر پرنٹنگ پریس مالکان کے پاس کاغذ کی کمی کے باعث نصابی کُتب کی چھپائی پر تاحال کام شروع نہیں ہوا ہے جس کی وجہ سے آئیندہ تعلیمی سال کے شروعات میں طلباء کو نصابی کتابوں کے حصول میں مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خیبرپختونخوا میں طلباء کی بڑی تعداد سرکاری سکولوں اور کالجز میں زیر تعلیم ہیں، جن میں سکولوں کے لئے نصابی کتابوں کی مفت فراہمی ہر سال ایک ماہ قبل ممکن بنائی جاتی تھی۔
خیبرپختونخوا میں تعلیمی نظام پر گذشتہ آٹھ سال رپورٹنگ کرنے والے صحافی سراج الدین نے ٹی این این کو بتایا کہ ہر سال نصابی کتابوں میں انگریزی یا اردو وغیر ایک کتاب کی فراہمی میں تاخیر ہوتی چلی آرہی ہے۔ زیادہ تر کتابوں کو غلطیاں ہونے کے باعث دوبارہ چھپائی کے لئے بھجوایا جاتا تھا جس ایک مذکورہ کتاب کی فراہمی دیر سے ہوجاتی تھی۔
سراج الدین نے کاغذ کے نایاب اور مہنگا ہونے پر تشویش ظاہر کیا کہ پہلے ہی دو سال کورونا وباء کے باعث طلباء کے تعلیم پر خراب اثرات پڑے ہیں مگر رواں سال نصابی کتابوں کی تاخیر کے باعث طلباء کے تعلیمی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ حکومت کے لئے آئندہ تعلٰیمی سال کے شروعات سے قبل نصابی کُتب کی بروقت فراہمی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
کاغذ کے مہنگا ہونے سے نوٹ بُک اور نجی تعلیمی اداروں کی نصابی کتابوں کی شارٹیج بھی ہوئی ہے۔ مردان کے رہائشی الیاس نے بتایا کہ اسٹیشنری کی دکان سے بچوں کے لئے نرسری تیسری، پانچویں اور چھٹی جماعت کے کتابیں اور نوٹ بُک قسطوں میں خریدیں ہیں۔ دکاندار کے پاس مطلوبہ اسٹاک موجود نہیں ہے جبکہ ہر دکاندار نے کاغذ کی شارٹیج کی وجہ بتائی۔ الیاس نے بتایا کہ میرے بچے تمام نجی اسکول میں زیر تعلیم ہیں اور نجی اسکولوں کی نصابی کتابیں بھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔
مہنگا اور نایاب ہونے کے باعث چھپائی صنعت متاثر ہونے لگا ہے۔ پشاور میں مارکیٹ سروے کے مطابق گذشتہ پانچ ماہ کے دوران کاغذ کی قیمت میں 80 روپے تک اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان میں اس وقت سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ معاشی و اقتصادی بحران نے بھی عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ اسی دوران کاغذ کی مانگ میں اضافہ اور رسد میں کمی سے پرنٹنگ صنعت میں جمود ہے۔
اس حوالے سے ٹی این این نے پشاور میں چھاپی صنعت کیساتھ وابستہ افراد سے کاغذ کی قلت کی وجوہات جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ صرف خیبرپختونخوا میں نہیں بلکہ پورے ملک میں ٹیکسٹ بُک بورڈز اور امتحانات بورڈز کو مشکلات کا سامنا ہے۔
پشاور میں پرنٹنگ کاروبار کرنے والے انور علی نے بتایا کہ ملک میں کاغذ کی ریٹ روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے، جس کی قیمت پانچ، چھ ماہ قبل فی کلو 130 روپے تھی اور آج 200 روپے سے زائد میں فروخت ہورہی ہے۔
“ گذشتہ سال دسمبر میں کاغذ مل کو آرڈر دیا تھا جو تاحال موصول نہیں ہوا”، انور علی نے بتایا۔
انور علی نے کہا کہ مل مالکان نے چھ ماہ قبل کاغذ مالکان نے جس ریٹ کے مطابق رقم وصول کی تھی تو قیمت میں اضافہ ہونے کے باعث وہی پرنٹنگ پریس مالکان کو واپس کردی۔ کورونا وباء کے دوران معیشت خراب ہونے سے کاغذ کے چھوٹے صنعت بند ہوگئے جبکہ بڑے مل مالکان من مانے قیمت کے ساتھ کاغذ فروخت کررہے ہیں۔ انڈونیشیا اور دیگر ممالک سے درآمدا ہونے والے کاغذ کی قیمت کو ڈالر کے اُڑان نے پر لگا دیے ہیں۔