بوڑہ کے واحد ہائی سکول کے طالبعلم خیمے سے کب باہر نکلیں گے؟
شمائلہ آفریدی
”گاؤں میں ٹرانسپورٹ کی سہولت موجود نہیں ہے، سکول دور ہونے کی وجہ سے میں نے پڑھنا چھوڑ دیا، اب زیادہ تر موبائل استعمال کرتا ہوں، کرکٹ یا فٹبال بھی کھیلتا ہوں اور مزدوری بھی کرتا ہوں۔”
یہ کہنا تھا سب ڈویژن پشاور کے علاقے بوڑہ سے تعلق رکھنے والے لطیف الرحمن کا جو گورنمنٹ ہائی اسکول بوڑہ میں آٹھویں کلاس کا طالب علم تھا۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں لطیف نے بتایا کہ میرے جیسے دیگر طلبہ کیلئے بھی سکول دور ہونے کی وجہ سے تعلیم کا حصول مشکل بن گیا ہے، بہتر تعلیمی نظام نہ ہونے سے علاقے کے بچوں کا غلط سرگرمیوں کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے، ہمارے مستقبل کو خطرہ ہے لیکن کسی کو بھی ہماری فکر نہیں ہے۔
واضح رہے کہ بوڑہ میں پہلے اسکول کا قیام 1964ء میں عمل میں لایا گیا۔ اس وقت اسکول پرائمری تھا، 1980 میں اسے ہائی سکول کا درجہ دیا گیا جو علاقہ کا واحد ہائی اسکول تھا۔ 2010 میں شورش کی لہر کے دوران اس سکول کو بم سے اڑا دیا گیا جو ایک سال تک بند رہا۔ امن قائم ہونے کے بعد یہاں 7 سال تک خیموں میں طلبہ نے تعلیم کا حصول جاری رکھا۔
2019 میں (یو ایس ایڈ) کی طرف سے امداد کے بعد اسکول کی بحالی پر کام شروع ہوا جس کی وجہ سے اسکول کے بچوں کو پرائمری سکول نمبر 3 میں، نبمر 3 کے بچوں کو 4 نمبر اسکول میں جبکہ نمبر 4 کے بچوں کو پرائمری سکول نمبر 5 میں شفٹ کر دیا گیا۔ یوں محکمہ تعلیم کے افسران کی عدم توجہی کی وجہ سے اسکول کی بروقت بحالی نہ ہونے سے علاقے کے 4 اسکولوں کے بچوں کو دربدر کر دیا گیا، ان کی پڑھائی کافی متاثر ہوئی۔
بوڑہ ہائی اسکول کے پرنسپل عبدالوحید کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اسکول کی مرمت میں تاخیر اور بچوں کی شفٹنگ کی وجہ سے طلبہ کیلئے فاصلہ زیادہ ہو گیا ہے، طلبہ اکثر سکول میں غیرحاضر رہتے ہیں، بچوں کے بیٹھنے کیلئے ڈیسک نہیں ہیں، چھوٹے بچے اپنے ساتھ بوریاں لا کر ان پر بیٹھتے ہیں جبکہ ہائی اسکول کے بچوں کیلئے بھی بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے ان کیلئے خیمہ لگوایا ہے جہاں بچے سردی گرمی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
پرنسپل عبد الوحید کے مطابق سکول میں بچوں کے ساتھ ساتھ ٹیچرز کیلئے بھی مشکلات ہیں، یہاں ٹیچرز کیلئے کوئی الگ اسٹاف روم نہیں ہے، آفس نہیں ہے، ایک کمرے کو اسٹاف روم بھی اور کچن بھی بنایا ہے، یہاں اساتذہ کیلئے نہ تو ٹیبل ہے اور ن ہی کرسیاں، ٹیچرز کئی بار حکام بالا سے شکایات بھی کر چکے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ کسی کو ٹیچرز کے مسائل اور بچوں کے مستقبل کی پرواہ نہیں ہے سب ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں، سمجھ نہیں آ رہی کہ مسائل کا ذمہ دار کون ہے؟
حسن خیل سب ڈویژن کے ڈی ای او خالد محمود نے بتایا کہ اسکول کی تعمیر (یو۔ ایس ایڈ) کروا رہا ہے، تعمیر میں تاخیر کی اصل وجہ ٹھیکیدار کے پاس بحالی کیلئے فنڈز کی عدم موجودگی ہے، ادارے اور ٹھیکیدار کے مابین بات چیت چل رہی ہے، ڈی سی پشاور اور اے سی حسن خیل سے بوڑہ ہائی اسکول سمیت ایف آر پشاور کے دیگر سکولوں کی تعمیر کے حوالے سے میٹنگ کر چکے ہیں، امید ہے کہ جلد ہی سکولوں پر کام شروع ہو گا۔
دوسری جانب علاقہ مکینوں نے محکمہ تعلیم پر لاپرواہی کا الزام عائد کیا اور کہا کہ بدقسمتی سے محکمہ تعلیم خواب غفلت میں سویا ہوا ہے اور انہیں ہمارے بچوں کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے، علاقے میں متعدد اسکولوں کی عمارتیں کھنڈرات بن چکی ہیں، ان میں ہمارے بچے زیر تعلیم ہیں، اسکول کی عمارت نہ ہونے کے باعث کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ایسی صورتحال میں وہ اپنی تعلیم کو باقاعدگی کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ محکمہ کی جانب سے اسکولوں کے لیے بہت سے فنڈ آتے ہیں لیکن ان کا صحیح استعمال نہیں کیا جاتا، یہی وجہ ہے کہ علاقے میں تعلیمی نظام بہتر نہ ہو سکا، یہ ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے، ”اگر مزید لاپرواہی کی گئی تو ہمارے بچوں کا مستقبل تاریک ہو سکتا ہے۔”