جب دیکھا کہ میری ہم عمر لڑکیوں کو تعلیم سے روکا جارہا ہے تو اس کے خلاف آواز اٹھانا شروع کی: شاوانہ شاہ
خالدہ نیاز
‘کالج کے دوران یہ دیکھنے کو ملا مجھے کہ میری کزنز اور دوستوں کو تعلیم سے روک دیا گیا، اس وقت لڑکیوں کی تعلیم کی جانب کسی کی توجہ نہ تھی اور کم عمری یا زبردستی کی شادیاں عروج پرتھی تو مجھے لگا کہ اس پہ کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس طرح میں خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا شروع کی’
پشاور سے تعلق رکھنے والی شاوانہ شاہ اس وقت ایک فلاحی تنظیم ‘ د حوا لور’ کے ساتھ پروگرام منیجر کے حیث پہ کام کررہی ہیں۔ د حوا لور ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو خواتین اور خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کررہی ہیں۔
شاوانہ شاہ کہتی ہیں کہ 2007 کے دوران جب حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو اس وقت سکول میں تھی تب سے انہوں نے نظمیں لکھنا شروع کیں جس پر انکو سراہا گیا اور انکو شناخت ملی اس کے بعد انہوں نے کسی نہ کسی شکل میں خواتین کے حقوق پہ بات کی اور آج تک کررہی ہیں۔
‘ بحیثیت پروگرام منیجر د حوا لور اب ہم ایک منظم طریقے سے خواتین کے حقوق کے لیے کام کررہی ہیں، اس میں سائیکو لیگل سپورٹ کا قیام شامل ہیں جس میں ہم ان خواتین اور خواجہ سراؤں کو جن کو کسی بھی قسم کے صنفی تشدد یا جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہو اور انکے پاس وسائل اتنے نہیں ہوتے کہ وہ یا تو کسی سائیکالوجسٹ کے پاس جائے یا اپنے لیے وکیل کرے تو انکو ہم مفت سائیکو لیگل سپورٹ فراہم کرتے ہیں’ شاوانہ شاہ نے کہا۔
اس کے ساتھ ساتھ ان کے ادارے نے ہوم بیسڈ ورکرز کے حقوق اور انکی قانون سازی کے لیے بھی بہت کام کیا ہے، جنسی ہراسانی کے قانون پر عمل درآمد اور اس حوالے سے خواتین میں شعور اجاگر کرنے کے لیے بھی کافی کام کرچکے ہیں۔
شاوانہ شاہ نے ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے میں بھی کردار ادا کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اب بھی کئی دیہات میں ایسے گھرانے موجود ہیں جہاں حاملہ خواتین کی صحت کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔
شاوانہ شاہ بتاتی ہیں کہ ادارے سے ہٹ کر بھی انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم پہ کافی کام کیا ہے اور ابھی بھی کررہی ہے اور اس کی وجہ سے انکو یو این کی جانب سے گلوبل یوتھ ٹاسک فورس کا ممبر بھی منتخب کیا گیا 2019 میں، اس کے بعد میں نے باقی ممبرز کے ساتھ مل کر اس پہ کافی کام کیا کہ ہمیں نوجوانوں کو صرف ایک ٹوکن کے طور پر نہیں استعمال کرنا چاہیئے کہ انکو سیمنارز میں بٹھا دیا یا انکو کانفرنس میں بٹھا دیا بلکہ انکے جو مسائل ہیں اس پہ بھی بات ہونی چاہیئے اور اس کا حل بھی انکو بتانا چاہیئے اور اس سارے پراسیس میں انکی شمولیت بہت ضروری ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 5 سے 16 سال کی عمر میں 2 کروڑ سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں۔ سکولوں سے باہر بچوں کا سب سے زیادہ تناسب بلوچستان میں 47فیصد ہے جبکہ سندھ میں 44فیصد ، خیبر پختونخوا میں 32فیصد ، پنجاب میں 24فیصد ، اسلام آباد میں 10فیصد بچے تعلیم کے زیور سے محروم ہیں۔
پاک الائنس فور میتھ اینڈ سائنس کی رپورٹ کے مطابق سکول نہ جانے والے 5سے 16سالہ کی عمر کے ان دوکروڑ بچوں میں سب سے زیادہ یعنی تقریباً77 لاکھ بچے پنجاب میں موجود ہیں جس کے بعد سندھ میں 64لاکھ 82ہزار سے زائد، خیبرپختونخوا میں 38لاکھ ، بلوچستان میں 20لاکھ،جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 52ہزار بچے سکول نہیں جاتے۔
شاوانہ شاہ کہتی ہیں کہ کرونا وائرس کے بعد خواتین کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے، کم عمری کی شادی میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، بچیوں کے سکول چھوڑنے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، گھریلو تشدد اور غربت میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے اور جو محنت کی تھی انسانی حقوق اور غیرسرکاری اداروں نے تو اس پہ کافی اثر پڑا ہے کرونا وائرس کی وجہ سے لیکن ابھی بھی کچھ نہیں ہوا بلکہ اب ہمیں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جن لڑکیوں نے کرونا کے دوران سکول کو چھوڑا ہے وہ دوبارہ سکولوں میں داخلہ لے سکیں۔
خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے عورت فاونڈیشن کے ایک سروے کے مطابق 2020 میں خیبرپختونخوا میں 2297 خواتین تشدد کا نشانہ بنی جن میں 624 قتل کے بھی واقعات ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین پر تشدد کے اضافے کی بڑی وجہ کورونا وبا کے دوران لاک ڈاون کا لگنا تھا جس میں زیادہ تر مرد گھروں پر بیٹھ گئے اور ان کو معاشی تنگی نے آگھیرا اور انہوں نے پہلے سے مظلوم طبقے خواتین اور بچوں پر تشدد شروع کیا۔
لڑکیوں اور خواتین کو پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب ہم کوئی چھوٹا سا قدم اٹھاتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ اس سے کچھ نہیں ہوگا لیکن میں یہی کہوں گی کہ چاہے چھوٹا کام ہی کیوں نہ ہو آپ ضرور کریں کیونکہ قطرہ قطرہ سے مل کر ہی سمندر بنتا ہے، خود پہ یقین رکھیں اور ایک مقام تک پہنچنے کے لیے محنت ضرور کریں کیونکہ محنت شرط ہے۔