566 غیرقانونی آسامیوں؛ 253 کے ناموں میں جعل سازی: محکمہ خزانہ خیبر پختونخوا کو 48 کروڑ سالانہ کا ٹیکہ
نگران حکومت میں بھرتیوں پر پابندی کے باوجود یہ آسامیاں تخلیق کی گئیں اور بیشتر امیدواروں کے تقررنامے پرانی تاریخوں میں جاری کئے گئے جن کے ثبوت بھی موجود ہیں۔ انکوائری رپورٹ
خیبر پختونخوا کی حالیہ نگران حکومت کے دوران سکیل 3 سے 19 تک 566 غیرقانونی آسامیوں کی تخلیق اور 253 آسامیوں کے نام اور ذمہ داریوں میں جعل سازی پکڑی گئی جس سے سرکاری خزانے کو 48 کروڑ روپے سالانہ کا بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق سب سے زیادہ غیرقانونی آسامیوں کی تخلیق اور اس پر بھرتی محکمہ صحت میں کی گئی ہے جبکہ پولیس اور آبپاشی سمیت 19 محکموں میں جعل سازی کی گئی ہے۔
محکمہ خزانہ خیبر پختونخوا کی جانب سے مرتب کردہ 5 رکنی انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ صوبائی حکومت کو ارسال کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 8 نائب قاصدوں کی غیرقانونی بھرتی کی شکایت پر انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے مالی سال 23-2022 اور مالی سال 24-2023 سمیت رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ کے دوران آسامیوں کی تخلیق اور نام و ذمہ داریوں کی تبدیلی کی چھان بین شروع کی۔
یہ بھی پڑھیں: اسلحہ کیلئے فریقین 15 روز میں لائحہ عمل دیں گے؛ کل پہلا قافلہ پاراچنار روانہ ہو گا
انکوائری کے دوران بجٹ آفسر پانچ، چھ، گیارہ اور ایڈمن سیکشن کے جوابات تسلی بخش نہیں تھے جس پر بجٹ سیکشن پانچ اور چھ کے ریکارڈ کی دوبارہ چھان بین کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ دو سالوں کے دوران 11 ہزار 197 آسامیاں تخلیق کی گئیں جن میں 566 آسامیاں جعل سازی کر کے تخلیق کی گئیں۔ اسی طرح آسامیوں کے نام اور ذمہ داریوں میں 13152 تبدیلیاں کی گئیں جن میں 253 جعل سازی اور غیرقانونی طور پر کی گئی ہیں۔
انکوائری رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ نگران حکومت میں بھرتیوں پر پابندی کے باوجود یہ آسامیاں تخلیق کی گئیں اور بیشتر امیدواروں کے تقررنامے پرانی تاریخوں میں جاری کئے گئے جن کے ثبوت بھی موجود ہیں۔ اکاﺅنٹنٹ جنرل اور متعلقہ دفتر کے اکاﺅنٹ آفیسر نے بھی ان ملازمین کی تنخواہیں جاری کیں۔ اس اقدام سے سرکاری خزانے کو سالانہ 48 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے جبکہ محکمہ خزانہ کی بھی بدنامی ہوئی ہے۔ 19محکموں میں غیرقانونی طور پر آسامیوں کی تخلیق یا پھر ان کے نام اور ذمہ داریوں میں تبدیلی کی گئی؛ سب سے زیادہ محکمہ صحت میں 181 غیرقانونی آسامیاں تخلیق کی گئیں۔
اسی طرح آبپاشی میں 126، پولیس میں 59، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ میں 42، اینیمل ہسبنڈری میں 47، ابتدائی و ثانوی تعلیم میں 29، توانائی و برقیات میں 20، بلدیات و اطلاعات میں 14، 14، انتظامیہ میں 12، زراعت میں 8، خزانہ میں 7، اعلی تعلیم اور ترقی و منصوبہ بندی میں 3، 3 جبکہ کھیل و سیاحت میں ایک غیرقانونی آسامی تخلیق کی گئی۔
آسامیوں کے نام اور ذمہ داریوں میں تبدیلی سب سے زیادہ، 83، محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم میں کی گئی۔ اسی طرح پولیس میں 70، صحت میں 38، اینیمل ہسبنڈری میں 22، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ میں 17، زراعت میں 6، آبپاشی میں 5، تعمیرات و مواصلات میں 4، ریونیو میں دو جبکہ اعلی تعلیم، ہاﺅسنگ، بلدیات، انتظامیہ، ترقی و منصوبہ بندی اور ٹرانسپورٹ میں ایک ایک آسامی کے نام اور ذمہ داری میں غیرقانونی تبدیلی کی گئی۔ غیرقانونی آسامیوں کی تخلیق یا پھر آسامیوں کے نام اور ذمہ داری میں تبدیلی سکیل 3 سے سکیل 19 تک میں کی گئی۔ سکیل تین میں 386 غیرقانونی آسامیاں تخلیق، جبکہ 40 میں تبدیلی کی گئی۔ اسی طرح سکیل 4 کی 72 آسامیاں تخلیق اور 14میں تبدیلی کی گئی، سکیل 5 میں 15 کی تخلیق اور ایک میں تبدیلی، سکیل 6 میں تین کی تخلیق اور ایک میں تبدیلی، سکیل 7 میں 27 کی تخلیق اور دو میں تبدیلی، سکیل 9 میں 14 کی تخلیق اور 8 میں تبدیلی، سکیل 10 میں ایک میں تبدیلی، سکیل 11 میں 4 کی تخلیق اور 4 میں تبدیلی، سکیل 12 میں 15 کی تخلیق اور 10 میں تبدیلی، سکیل 14 میں تین کی تخلیق اور 5 میں تبدیلی، سکیل 15 میں دو کی تخلیق اور 13 میں تبدیلی، سکیل 16 میں 17 کی تخلیق اور 149میں تبدیلی، سکیل 18میں ایک میں تبدیلی جبکہ سکیل 19 کی ایک آسامی غیرقانونی طور پر تخلیق کی گئی۔
انکوائری رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ غیرقانونی بھرتی ملازمین کو پہلے سے کام کرنے والے ملازمین کی آئی ڈی دے دی گئی جبکہ موجودہ قانونی ملازمین کو نئی غیرقانونی آئی ڈی دی گئی تاکہ غیرقانونی ملازمین کو قانونی قرار دیا جا سکے۔
اسی طرح ان غیرقانونی بھرتیوں کے بعد مذکورہ ملازمین کو فوری طور پر دیگر محکموں میں تبدیل کر دیا گیا تاکہ ان سے متعلق کسی کو شک و شبہ نہ رہے۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ہر مالی سال کے اختتام پر آسامیوں کی تخلیق اور نام و ذمہ داری میں تبدیلی کے حوالے سے ایک جائزہ ضروری ہے جس کا فقدان پایا گیا ہے۔
اسی طرح ہر ماہ کی 5 تاریخ کو تخلیق کردہ آسامیوں سے متعلق رپورٹ مرتب کرنے کی سفارش کی گئی ہے جبکہ متعلقہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر آئی ٹی کیخلاف انضباطی کارروائی سمیت تمام غیرقانونی تخلیق کی گئیں آسامیوں کو فوری طور پر ختم کرنے، اکاﺅنٹنٹ جنرل کو اپنے تئیں الگ سے انکوائری کرنے اور جن محکموں میں غیرقانونی بھرتیاں کی گئی ہیں ان محکموں میں الگ الگ انکوائریاں کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔