پشاور شہر میں جسم فروشی کا کاروبار کھلے عام، پوچھنے والا کوئی نہیں
ناہید جہانگیر
معاشرتی برائیاں ہر دور ہر قوم میں کسی نا کسی شکل میں موجود ہوتی ہیں جو ازل سے ابد تک جاری رہے گی ۔ کراچی اور لاہور میں جسم فروشی کے بارے میں سنا تھا لیکن پشاور جہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ سخت روایات کی وجہ سے یہ کاروبار اتنا آسان نہیں ہے لیکن اب جسم فروشی کا کاروبار نا صرف کھلے عام ہو رہا ہے بلکہ اضافہ بھی دیکھنے کو ملا ہے۔
پشاور شہر سے تعلق رکھنے والے رفیق جو پچھلے کئی سالوں سے ٹیکسی چلا رہے ہیں وہ بتاتے ہے کہ جسم فروشی کا کاروبار پہلے بھی پشاور میں تھا لیکن اس طرح کھلے عام نہیں تھا جس طرح اب ہے ۔ وہ بتاتے ہے کہ پشاور یونیورسٹی روڈ سپین جمات ،فردوس، ہشت نگری سے آگے گل بہار چوک مین سٹاپ ہیں جہاں خواتین اپنے گاہک کے لئے گھومتی پھرتی ہیں ۔ جب بھی ریڈ سگلنز پر گاڑی رکتی ہیں یہ پیشہ ور خواتین ہر گاڑی کے قریب جاتی ہیں۔
جسم فروشی آسان کام نہیں، روزانہ اپنے ضمیر پر پاوں رکھ اپنے جسم کا سودا کرنا پڑتا ہے۔
پشاور شہر جی ٹی روڈ (ہشت نگری) کے ایک فٹ پاتھ پر بیٹھی ایک خاتون جو اپنی عمر 28 سے 30 سال بتاتی ہیں کالے رنگ کے ابایا میں ہے جس کی آنکھیں بھی بمشکل نظر آتی ہیں، ساتھ میں ایک ٹوکری پڑی ہے جس میں چند ہی کنگیاں، سرمے دانی اور کاجل کی شیشی موجود ہے بظاہر بیچتی نظر آتی ہیں، بتاتی ہیں کہ وہ ایک پیشہ ور جسم فروش ہیں ۔
غربت کی وجہ سے یہ کام کرتی ہیں شادی ہوئی تو خاوند نشئی تھا بس اس لئے اب یہ دھندہ کرتی ہیں ۔ دن میں 2 سے 3 ہزار کما لیتی ہیں بعض پارٹی سے پیسے زیادہ بھی وصول کر لیتی ہیں ۔ لیکن 2 سے 3 ہزار سے کم نہیں کماتی۔
پولیس یا کوئی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے سے خاتون الزام لگاتی ہے اور بتاتی ہیں کہ کبھی بھی پولیس اہلکار نے انہیں نہیں پکڑا اگر پکڑنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو پکڑنے والے کو رشوت دی جاتی ہے چاہئے جسمانی تعلق کی شکل میں ہو یا کوئی رقم ، جو وہ (پولیس اہلکار) مطالبہ کریں۔
ماہر قانون دان طارق افغان ایڈوکیٹ خاتون کی اس بات سے اتفاق کرتے ہے کہ پولیس کبھی بھی ایسی خاتون یا مرد کو نہیں پکڑتے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ایک تو پولیس کے پاس ثبوت کا ہونا بہت ضروری ہے جس کی بنیاد پر خاتون کو ہراست میں لے اور دوسری اہم وجہ بعض پولیس اہلکار تھوڑی بہت رشوت لے کر خاموش رہتے ہیں ۔ جسکی وجہ سے یہ خواتین یا ان کے پیچھے جو بھی ہاتھ ہے ،اپنا کاروبار با آسانی کرتے ہیں۔
دوسری جانب آئی جی پولیس کے ترجمان حلیم ملک اس الزام کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آئی جی پولیس کی جانب سے تمام پولیس اہلکاروں کو سخت احکامات ہیں کہ اپنے اپنے متعلقہ علاقوں میں ہر قسم کی منفی سرگرمیوں پر نطر رکھیں اور وقت پر آگاہ کریں۔ ہمیں بہت سی ایسی رپورٹ ملتی ہیں جس میں جسم فروشی کے اڈوں یا ملوث افراد کے بارے میں اطلاعات ہوتی ہیں ۔ جن کے خلاف قانونی کاروائی کی جاتی ہیں۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ اکثر جسم فروشی کے اڈے جہاں بھی ہوتے ہیں وہ مکانات کرایہ کے ہوتے ہیں پہلے ان کو مانیٹر کیا جاتا ہے ثبوت ملنے کے بعد ان کے خلاف کاروائی کی جاتی ہیں۔ گھر کے مالک کو جس نے ایسے کاروبار کرنے والے کو گھر کرایہ پر دیا ہو اس کو بھی متعلقہ تھانہ بلایا جاتا ہے اور گھر جلد از جلد خالی کرانے کا حکم دیا جاتا ہے۔
جبکہ ایک اور پولیس اہلکار (نام ظاہر نا کرنے کی درخواست کی ہے) جو پچھلے 15 سالوں سے اپنی ڈیوٹی مختلف جگہوں پر سر انجام دے رہا ہے، نے بتایا کہ جسم فروش خواتین کی پہچان عام آدمی بآسانی کرتا ہے تو پولیس کا تو کام ہی مشکوک لوگوں پر نظر رکھنا ہے۔ ہم کیسے لا علم ہو سکتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں پر ہاتھ ڈالنا بہت ہی مشکل ہے یہ بہت اثر رسوخ والے لوگ ہوتے ہیں ان کے کاروبار کے پیچھے بڑے بڑے لوگ ہوتے ہیں تو پولیس کے لئے پکڑنا مشکل ہوتا ہے ۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی سروس کے دوران صرف ان جسم فروشوں کے خلاف پولیس کی کاروائی دیکھی ہے جن کے درمیان لین دین پر اختلافات ہوجائے جیسے رقم پر یا جو لڑکی ان کو پسند ہو اور وہ لڑکی ان کے ساتھ تعلقات بنانے کے لئے راضی نا ہو تو ایسی صورت حال میں پولیس کی کاروائی کی جاتی ہیں ورنہ نہیں۔ یہی وجوہات ہے کہ پشاور جیسے شہر میں بھی جسم فروشی کے کاروبار میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔
کچھ مہینے پہلے ہی کی تو بات ہے کہ پیلے رنگ کے سوٹ میں ملبوس اور چہرے پر گلاسز لگائے ہوئے ایک خاتون جو ایک سرکاری ہسپتال پشاور میں گھوم رہی تھی جن کی عمر 45 سے 50 سال تک ہوگی بتاتی ہیں کہ وہ جسم فروشی کا کاروبار کرتی ہیں۔
وہ اکثر اسی طرح کسی بڑے ادارے میں ہی گاہک کو ڈھونتی ہیں اگر گاہک کو کوئی لڑکی چاہئے تو ان کے پاس لڑکی کے ساتھ ساتھ جگہ بھی موجود ہے جو اپنے گاہک کو آفر کرتی ہیں۔ ان کے مطابق بعض لوگوں کو مناسب جگہ دستیاب نہیں ہوتی اس لئے ان کے پاس گھر بھی موجود ہے۔
اس خاتون نے مزید بتایا کہ وہ خواتین سپلائر ہے جو سیکس اور ڈانس پارٹی کے لئے مردوں کو ہر قسم کی لڑکی یا خاتون سپلائی کر سکتی ہیں۔ وہ اس لئے اکثر ایسی جگہ گھومتی پھرتی ہیں جہاں کوئی نا کوئی اچھا گاہک مل ہی جاتا ہے۔
ماہر قانون دان طارق افغان ایڈوکیٹ بتاتے ہیں کہ ملک کا آئین جو سب سے سپریم ہے ان کے آرٹیکل 37 جی کے مطابق ہر قسم کی پروسٹیٹوٹیشن سرگرمیوں کی روک تھام ریاست کی زمہ داری ہے۔ پاکستان کا پینل کوڈ 371 اے سیکشن اور 371 بی سیکشن کے مطابق جسم فروشی کا دھندہ کرنے والے جو خود کرتے ہیں یا پھر کسی کا استعمال کرتے ہیں جرم ہے۔ کسی بھی مرد و خاتون کو اگر قابل اعتراض حالت میں پکڑا جاتا ہے تو ان کے لئے قانون کے مطابق 25 سال قید بمہ جرمانے کی سزا ہے۔
اسی طرح 496 بی حدود قانون کے مطابق غیر شادی شدہ مرد اور خاتون کے درمیان ناجائز تعلقات ہو تو ان کے لئے 5 سال قید کے ساتھ ساتھ 10 ہزار روپے جرمانہ بھی ہے۔ سپریشن آف پروسٹٹیوشن آرڈیننس 1961 پنجاب یہ صرف اور صرف ہیرا منڈی کے لئے بنایا گیا تھا تاکہ ہیرا منڈی کے لئے رولز ریگولیشن بنائے جا سکے۔
طارق افغان ایڈوکیٹ نے کہا کہ پاکستان میں اب تک کوئی بھی ایسا کیس رپورٹ نہیں کیا گیا ہے جس میں کسی جسم فروش خاتون کو پکڑا گیا ہو وہ عدالت میں پیش ہوئی ہو اور ان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی ہوئی ہو۔ کیونکہ اس قسم کے کیسوں میں دونوں طرف ملوث افراد جسمانی تعلق اپنی مرضی سے رکھتے ہیں تو ان کو عدالت میں ثبوت کے ساتھ پیش کرنا مشکل ہے۔
طارق افغان بتاتےہیں کہ جسم فروشی کے کاروبار کے روک تھام کے لئے مزید سخت قوانین پر کام کرنا ہے لیکن بد قسمتی سے کوئی بھی اس کی طرف توجہ نہیں دیتے جسکی وجہ سے کاروبار میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔