نوشہرہ: صحافی حسن زیب قتل،حکومت صحافیوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہے، صحافی برادری
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی حسن زیب کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔ صحافیوں کی تنظیموں نے واقعے میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ضلع نوشہرہ کے تھانہ اکبرپورہ کی پولیس نے بتایا کہ صحافی کے قتل کا واقعہ گزشتہ روز تقریباً شام کے وقت 5 بجے پیش آیا۔ تھانہ اکبرپورہ میں واقعے کا مقدمہ مقتول صحافی حسن زیب کے بھائی انور زیب کی مدعیت میں دفعہ 302 (قتل) اور 34 (ایک سے زائد افراد) کے تحت درج ہوا ہے۔ حسن زیب کے بھائی کا کہنا ہے کہ "اُن کے بھائی کا کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں ہے”۔
ٹی این این کو موصول شُدہ ایف آئی آر کے مطابق کہا گیا ہے کہ "یہ دونوں گاڑی میں بازار جا رہے تھے جہاں پر دو موٹرسائیکل سواروں نے حسن زیب کو گولیوں کا نشانہ بنایا اور فرار ہوگئے۔ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی وہ دم توڑ گئے تھے”۔
نوشہرہ پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیجز حاصل کر لئے ہیں جس میں حملہ آور موٹر سائیکل سے اُتر کر فائرنگ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
اخباری رپورٹس کے مطابق 40 سالہ حسن زیب خیبرپختونخوا کے اردو زبان کے روزنامہ آج کے ساتھ بطور جنرل رپورٹر وابستہ تھے۔ صحافیوں کی تنظیم خیبر یونین آف جرنلسٹس اور پشاور پریس کلب کے رُکن تھے۔ وہ عموماً صحت اور شہری مسائل پر رپورٹنگ کر رہے تھے۔
خیبرپختونخوا کی صحافتی تنظیموں اور صحافیوں نے حسن زیب کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی عدم توجہی سے خیبرپختونخوا صحافیوں کیلئے خطرناک ترین صوبہ بن چکا ہے۔
پشاور میں مقیم سینئر صحافی ارشد مومند نے ٹی این این کو بتایا کہ دنیا بھر میں پاکستان صحافیوں کیلئے ایک خطرناک ترین ملک بن چکا ہے اور یہاں پر آزادی سے صحافت کرنا انتہائی مشکل کام بن گیا ہے۔
ارشد مومند نے کہا کہ "آپ دیکھ سکتے ہیں گزشتہ ایک ماہ کے دوران صحافی کے قتل کا یہ دوسرا واقعہ ہے گو کہ ان واقعات کے محرکات کا علم نہیں۔ یہاں پر کافی ساری مسلح تنظمییں ہیں جو صحافیوں کو غیر جانبدار رپورٹنگ پر نشانہ بناتی ہیں”۔
مومند کا مزید کہا کہ "صحافیوں کا قتل عوام کو غیرجانبدار اور معلوماتی خبروں سے محروم کرنے کے مترادف ہے کیونکہ جب ایسے حالات میں صحافی کوئی خبر دیتا ہو تو سب سے پہلے وہ اُس میں اپنی جان کے تحفظ کو ذہن میں رکھے گا اور جان کے تحفظ سے امکان ہے کہ بہت سے معلوماتی مواد پر کٹ لگ جائے جس سے عوام محروم ہو جائے گی”۔
خیبرپختونخوا حکومت کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے اپنے ایک بیان میں صحافی کے قتل کے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی آمین گنڈاپور نے واقعے کا نوٹس لیا ہے اور حکم دیا ہے کہ واقعے میں ملوث افراد کو فوراً گرفتار کرکے سزا دی جائے۔
مشیر نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان صحافیوں کیلئے ایک خطرناک ملک ہے جہاں پر صحافیوں کو دھمکیاں دینا اور ان پر تشدد ہونا معمول بن چکا ہے۔ تاہم صحافیوں کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے خلاف تشدد کے بعد حکومت کے ایسے بیانات سامنے آنا حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور غیرسنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔
اسلام آباد میں مقیم واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ سینئر صحافی حق نواز خان کہتے ہیں کہ صوبے کی امن و امان برقرار رکھنا حکومت وقت کی زمہ داری ہوتی ہے مگر یہاں پر صرف بیانات کی حد تک حکومت کو محدود رکھنا باعث تشویش ہے۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ واقعات کے بعد بھی حکومت صرف اظہار افسوس تک محدود ہوا تھا مگر نہ کسی واقعے کی وجوہات کا پتہ لگایا اور نہ متاثرہ خاندانوں کی کوئی مدد کی۔
حق نواز کہتے ہیں کہ کم عرصے میں تین صحافیوں کے قتل پر حکومت کو ایک کمیشن بنانا چاہئے تاکہ معلوم ہوسکیں کہ کس نے اور کس مقصد کیلئے انہیں ٹارگٹ کیا گیا ہے۔
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈر کے مطابق حسن زیب سے پہلے پاکستان میں رواں سال کے دوران 5 صحافیوں کو قتل جبکہ ایک صحافی کو گرفتار کر کیا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر میں 18 جون کو نامعلوم افراد نے خیبر نیوز سے وابستہ صحافی خلیل جبران کو قتل کیا تھا۔