جرائم

خیبر پختونخوا میں گزشتہ سال کی نسبت عورتوں پر تشدد کے واقعات میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے کیوں؟

 

نادیہ یوسفزئی

خیبر پختونخوا میں خواتین پر تشدد اور غیرت کے نام پر انکے قتل کے واقعات میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 2587 خواتین نے گریلو تشدد کے لئے کال کئے جبکہ 2023 میں خواتین پر تشدد کے واقعات کے لئے 5465 کالز موصول ہوئے۔ سماجی بہبود کے بولو ہیلپ لائن اور پولیس کو ہونے والی شکایات میں گھریلو تشدد جنسی زیادتی، ہراسمنٹ اور غیرت کے نام پر قتل جیسے الزامات شامل ہیں۔

2022 میں 313 عورتوں کو انکے کیسز میں قانونی امداد فراہم کی گئی اور 386 کیسز میں سروسز ریفریل کی گئی جب کہ 168 عورتوں کی نفسیاتی کونسلنگ کی گئی۔ سال 2023 میں 6599 عورتوں نے بولو ہیلپ لائن سے مدد وصول کی، 399 عورتوں کو لیگل امداد فراہم کی گئی اور 879 عورتوں کو نفسیاتی کونسلنگ فراہم کی گئی جبکہ 411 عورتوں کے لئے ریفرل سروسز کی گئی۔

خواتین پر تشدد اور ہراسمنٹ کے سب سے زیادہ کیسز پشاور میں 581 کیسز درج ہوئے۔ ایبٹ آباد میں 76، سوات میں 64،چارسدہ میں 60، بنوں میں 17 کیسز درج ہوئے۔ دستاویزات کے مطابق صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی کیسز سامنے آئے ہیں مختلف کیسز میں 399 خواتین کو قانونی امداد فراہم کی گئی ہے۔

ماہرنفسیات ڈاکٹر اقتدار کے مطابق معاشرے میں عدم برداشت، غربت، تعلیم کی کمی ، شعور کی کمی اور نوجوان نسل کی منشیات کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے اس طرح کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

20 جولائی 2023 کو پشاور کے علاقے ٹاؤن میں 25 سالہ خاتون (س) کو اس کے شوہر اور اس کے سسرال والوں نے مار پیٹ کر قتل کر دیا۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے ایسے واقعات معمول کا حصہ بن چکے ہیں اور کمی کی بجائے اس میں اضافہ ہورہا ہے۔

ایک طرف گھریلو تشدد میں کمی نہ انے کی وجہ شعور کا نہ ہونا ہے تو دوسری جانب اداروں کی کمزوری اور سالوں سال عدالت میں خواتین کے کیسز کا فیصلہ نہ انے کی وجہ سے اس طرح کے جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔

سوشل ویلفیئر پروجیکٹ کی میںجر سحر خان نے بتایا کہ بولو ہیلپ لائن اور پولیس ڈیپارٹمنٹ مل کر گھریلو تشدد اور جنسی تشدد کی شکار خواتین کو بولو ہیلپ لائن اور پولیس ڈیپارٹمنٹ 15 یا بولو ہیلپ لائن کے۔ 080022227 کے ہیلپ لائن پر مفت قانونی مدد ، سائیکالوجی کونسلنگ اور شیلٹر فوری طور پر فراہم کرتی ہیں۔
سحر خان نے بتایا کے اگر کوئی خاتون کال کرتی ہے اور کہتی ہے ہمیں پولیس کی مدد کی ضرورت ہے تو ہمارے معاشرے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے وہ تھانے کس طرح جائے گی کیونکہ گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کی رسائی تھانے تک نہیں ہوتی۔

ایس ایس پی آپریشن کاشف آفتاب نے بتایا کہ خواتین پر تشدد اور ہراسمنٹ کے کیسز پہلے بھی ہوتے تھے مگر شعور نہ ہونے کی وجہ سے رپورٹ نہیں ہو پاتے تھے۔ ہمارے ہیلپ لائن پر 24 گھنٹے خواتین کی شکایات درج کرنے کے لئے ہمارے اہلکار بیٹھے ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ غیرت کے نام پر قتل کے کیسز میں سخت دفعات شامل ہو چکے ہیں کہ اگر گھر والے معاف بھی کرے تو ملزم کے خلاف حکومت کیسز کی پیروی کرتی ہے اور جرم ثابت ہونے پر اس کی سزا سزائے موت ہے۔  سال 2023 میں غیرت کے نام پر 12 کیسز سامنے آئے ہیں جس میں ہم نے 9 ملزمان کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button