بلاگزلائف سٹائل

بیوی یہاں انتظار کرتی ہے اور شوہر باہر شادی

 

حدیبیہ افتخار

آج گھر کے کچھ کام نمٹا کر اور ظہر کی نماز سے فارغ ہوکر اپنی دوست کی طرف گئی جو اکثر مجھ سے اس بات کا شکوہ کرتی ہے کہ میں ان کی طرف نہیں جاتی۔۔

دوست کے گھر پہنچی تو اس نے خوب خاطر تواضع کی۔ کھانا بھی ان کے ساتھ کھایا اور خوب گپ شپ بھی لگائی۔ باتوں باتوں میں اس نے اپنی ایک دوست کا ذکر چھیڑا جو میری دوست کی طرح ایک سرکاری جاب پر ہے اور حال ہی میں اس کی پروموشن بھی ہوئی ہے۔

ان کا تعلق اچھے کھاتے پیتے خاندان سے ہے اور خودمختار ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی سلیقہ مند اور خوبصورت خاتون ہے۔ ان کی تصویر دیکھی تو پہلی نظر میں تعریف کئے بغیر نہ رہ سکی۔ اگر مجھے اپنی دوست سے پتہ نہ چلتا کہ وہ تین بچوں کی ماں ہے تو شاید میں کبھی یقین ہی نہ کر پاتی کہ اس کی شادی بھی ہوئی ہے۔

اس کے گھریلو مسائل پر بات آئی تو عقل دنگ رہ گئی کہ اتنا اچھا کمانے والی اپنے پیروں پر کھڑی خواتین بھی اس معاشرے کے ظلم و ستم سے محفوظ نہیں ہے۔

دوست بتا رہی تھی کہ اس کا شوہر بیرونی ملک میں ہے اور اس کے تین بچے ہیں جن کی تعلیم و تربیت کا خرچ وہ خود برداشت کررہی ہے مگر اس کے باوجود بھی کئی ایسے مسائل ہوتے ہیں جس میں اسے شوہر کی مدد اور پیار درکار ہوتی ہے مگر اس کا شوہر تو باہر جاکر جیسے بھول ہی گیا ہے کہ ان کی بیوی اور بچے بھی ہیں۔

خاتون چپ چاپ صبر کے ساتھ اپنے شوہر کا انتظار کر رہی تھی اور یہ امید لگائی بیٹھی رہی کہ اس کا شوہر واپس آئے گا تو اس کی زندگی کا اکیلا پن دور ہو جائے گا لیکن اس دوران اس کو معلوم ہوا کہ اس کا شوہر تو وہاں دوسری عورت سے شادی کر کے اپنی زندگی خوشی سے گزار رہا ہے۔ یہ خبر اس پر پہاڑ بن کر گری لیکن اس کے باوجود بھی وہ ہر گز شوہر کا گھر چھوڑنے پر آمادہ نہ تھی کہ اگر اس نے گھر چھوڑا تو لوگ طرح طرح کی باتیں بنائے گے۔

خاتون کے پیچھے باتیں بنانے کے لئے سسرال والے ہی کافی ہوتے ہیں جب شوہر نے دوسری شادی کرلی تو پھر گھر میں پہلی بیوی کی کیا اوقات رہ جاتی ہے وہ تو سب جانتے ہی ہیں۔

جب اسے معلوم ہوا کے اس کی ساس بھی دل سے اپنی دوسری بہو کو تسلیم کر چکی ہے اور ساتھ ساتھ اپنے بیٹے کے دل میں اسکے خلاف نفرت بھی ڈال رہی ہے تو اس نے سوچا کہ دیور سے بات کرے گی شائد وہ ان کی سائیڈ لینگے مگر دیور نے بھی ملامت ہونے کی بجائے بھائی کی شادی کی بات کو دبانے کے لئے الٹا اسی پر الزامات لگانے شروع کر دیئے کہ وہ تو کسی غیر مرد سے تعلق میں ہے۔

شوہر کا انتظار بھی بیوی خلوص کے ساتھ کرے اور الٹا باتیں بھی اسے سننی پڑے آخر عورت کی زندگی میں یہ تکالیف بھی باقی تھی۔۔۔؟

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو مرد حضرات پاکستان میں شادی کر کے اپنی بیوی کو یہاں اکیلا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، تو عورت تو چلو انتظار میں زندگی گزار ہی دیتی ہے لیکن کیا مرد بغیر عورت کے رہ لیتے ہیں؟؟

مجھے تو اس بات پر یقین نہیں ہوتا کہ ایک مرد سالوں بیرون ملک میں بغیر بیوی کے گزارتا ہو، یا تو وہ باقاعدہ وہاں شادی کرتا ہے، یا کسی گوری خاتون سے پیپر میرج کر کے اپنی خواہشات اور ضروریات پوری کرتا ہے۔ اگر صبر کرتی ہے تو وہ یہاں پاکستان میں اس کی بیوی کرتی ہے جسے کچھ ماہ بعد کچھ رقم بھجوا کر بہلا دیا جاتا ہے۔

میں یہاں مردوں کے باہر جانے پر اعتراض نہیں کر رہی ظاہر ہے اچھا مستقبل بنانے کے لئے کچھ تو کرنا پڑتا ہے آخر پیسہ بھی تو کمانا ہے لیکن پھر عورتوں کو بھی ساتھ لے جانے کی امید دے کر انہیں اکیلا چھوڑنا بہت غلط ہے۔ اس میں صرف لڑکوں کی ہی غلطی نہیں ہوتی بلکہ کچھ والدین بھی اپنی بیٹی کی زندگی برباد کرنے میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔

نہ جانے بیرون ملک مقیم مرد کے رشتے میں ایسی کیا خاصیت ہوتی ہے جو یہاں رشتہ آیا نہیں اور وہاں بغیر سوچے سمجھے بغیر کسی جانچ پڑتال کے رشتے کے لئے ہاں کردی جاتی ہے اور انتہائی فخر سے باقی رشتہ داروں کو کہا جاتا ہے کہ لڑکا باہر سے آیا ہے۔ لڑکا بیرون ملک میں تو ہے، مگر کرتا کیا ہے, اس میں اس وقت کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔

یہ صرف میری دوست کی کہانی نہیں بلکہ ایسی کئی لڑکیاں اپنی زندگیاں محض شوہر کے بیرون ملک سے واپسی کے انتظار میں گزار لیتی ہیں۔ لڑکیاں اپنا گھربار چھوڑ کر اپنی زندگی ساس سسر کے ساتھ گزارنے کے لئے نہیں بلکہ شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑنے کا اتنا بڑا قدم اٹھالیتی ہے عورت یہی چاہتی ہے کہ زندگی کے ہر لمحے چاہے خوشی کا ہو یا غم کا، ان کا شوہر ان کا ہاتھ تھام کر ان کے ساتھ کھڑا ہو۔

بیرونی ملک مقیم مرد حضرات اگر اپنی بیویوں کو ساتھ لے کر نہیں جا سکتے تو خدارا انہیں اپنی نکاح میں لاکر ان کی زندگیاں محض انتظار کی نذر نہ کریں۔

حدیبیہ افتخار ایک فیچر رائٹر اور بلاگر ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button