ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کے بعد پبلک سروس کمیشن ٹیسٹ میں بھی نقل کا انکشاف
آفتاب مہمند
خیبر پختونخوا میں ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ میں نقل سکینڈل کے بعد اب پبلک سروس کمیشن کے ایبیلٹی ٹیسٹ میں بھی جدید طریقے سے نقل کرنے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔ ایبیلٹی ٹیسٹ خیبرپختونخوا پبلک سروس کمیشن کی زیر نگرانی 24 جون 2023 کو گریڈ 17 کے عہدوں کے لئے منعقد ہوا تھا۔ پبلک سروس کمیشن کی زیر نگرانی محکمہ آبپاشی، سی این ڈبلیو میں ملازمت کے لئے منعقدہ امتحان میں 18 امیدوار نقل کرتے پکڑے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں پبلک سروس کمیشن حکام نے باقاعدہ طور پر ایک پبلک نوٹس بھی جاری کر دیا ہے۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ نقل کرنے والے امیدواروں نے الیکٹرانک ڈیوائسز، ماسٹر کارڈز اور نقل کرنے کے دوسرے مواد کا استعمال کیا۔
پبلک سروس کمیشن کیجانب سے انکوائری کرکے ان امیدواروں کو اپنا موقف دینے کیلئے باقاعدہ طور پر بلایا گیا جہاں ان پر لگائے گئے الزامات ثابت ہو چکے ہیں۔ پبلک سروس کمیشن کے نوٹس کے مطابق نقل میں پکڑے گئے امیدواروں کے پرچے منسوخ کردئیے گئے ہیں۔ اب ان پر ایک سال سے تین سال تک کسی بھی امتحان میں شرکت کرنے پر پابندی بھی عائد کیجائے گی۔
امیدواروں کے خلاف کارروائی وزیراعظم پورٹل پر شکایت درج کرانے کے بعد عمل میں لائی گئی ہے۔ اسی طرح 24 جون 2023 کو منعقد ہونے والا ٹیسٹ منسوخ کرکے اب 23 دسمبر 2023 کو دوبارہ منعقد کیا جائے گا۔
اس حوالے سے رابطہ کرنے پر سابق سپرنٹنڈنٹ محکمہ ایریگیشن انجینئر عبدالولی یوسفزئی نے ٹی این این کو بتایا کہ پبلک سروس کمیشن کیلئے منعقدہ ٹیسٹ میں بھی نقل کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ ہمارے ہاں جتنے بھی امتحانات کا نظام چل رہا ہے، سارا نظام ہی کرپٹ ہے۔ یہ کوئی پہلی مرتبہ تو نہیں کہ امیدواروں نے پبلک سروس کمیشن کے امتحان یا ٹیسٹ میں نقل کیا ہوگا۔ ملکی تاریخ میں آج تک جتنے بھی لوگ پبلک سروس کمیشن کے مراحل سے گزرے ہونگے، اکثریت ہی نے نقل، سفارش جیسے طریقوں ہی سے کامیابیاں حاصل کی ہونگی۔
عبدالولی یوسفزئی نے بتایا کہ آج کے نوجوان نقل ہی کریں گے کیونکہ انکی تربیت ایسی ہوچکی ہے۔ ہمارے ہاں تو ایسے ہی لوگوں کو سپورٹ کیا جاتا ہے جو زیادہ کرپٹ و بدنام ہو۔ کہنے کا مقصد یہ کہ ہمارا معاشرا اور پورا نظام ہی کرپٹ ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ آجکل کے نوجوان محنت و پڑھائی کی بجائے شارٹ کٹ کے طور طریقے اپنا کر کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نقل ہی کے طریقے اپناتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہاں اگر پڑھنے والوں کا یہ حال ہے تو پڑھانے والے بھی ان نوجوانوں کی تربیت نہیں کر رہے۔ جہاں امتحانی عملے کا تعلق ہوتا ہے وہ عملہ نقل کیسے روکے گا جو خود سفارش یا پیسے کا استعمال کرکے اپنی ڈیوٹیاں لگائے گی۔
عبدالولی یوسفزئی نے مزید بتایا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جدید ٹیکنالوجی مثبت کاموں کیلئے استعمال کیا جارہا ہے جبکہ ہمارے ہاں لیپ ٹاپس، کمپیوٹر، بلوٹتھ یا دیگر الیکٹرانک مواد کاپی پیسٹ و نقل جیسے حربوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ترقی کی بجائے زوال پذیر ہیں۔ اب ہونا چاہئیے کہ صرف پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں نقل کرنے والے امیدواروں کے خلاف کاروائی نہ ہو بلکہ پورے عملے کے خلاف بھی سخت کاروائی کیجائے۔ جہاں نقل کی روک تھام کا تعلق ہے تو ایسا ممکن ہی نہیں کیونکہ بطور معاشرہ و قوم ہم سب کرپٹ ہیں۔
یاد رہے کہ رواں سال 10 ستمبر کو ایٹا کے زیر اہتمام خیبر پختونخوا کے میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں داخلوں کیلئے ایک ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کا انعقاد ہوا تھا جسمیں مجموعی طور پر 46 ہزار سے زائد مرد و خواتین امیدواروں نے حصہ لیا تھا جہاں 219 طلباء و طالبات بلوٹتھ کے ذریعے نقل کرکے پکڑے گئے تھے۔ جنکے خلاف باقاعدہ ایف آئی آرز درج کرائے گئے ہیں اور انکو آنے والے ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کیلئے بلیک لسٹ کرکے انکی شرکت کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ خیبر پختونخوا میں بلوٹتھ سکینڈل سامنے آنے کے بعد نگران صوبائی حکومت نے 10 ستمبر کو منعقد ہونے والا ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کو منسوخ کرکے اب دوبارہ 26 نومبر کو منعقد ہوگا جسکے لئے صوبہ بھر سے 46 ہزار سے زائد مرد و خواتین امیدواروں نے رجسٹریشن کی ہے۔