لائف سٹائل

خیبر پختونخوا کی خواتین صحافیوں میں ڈیجیٹل میڈیا کا رجحان بڑھنے لگا 

کامران علی شاہ

صابیحہ شیخ  کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔ صابیحہ نے گومل یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹر کیا ہوا ہے اور ایک عرصہ سے برقعہ جرنلسٹ کے نام سے سماجی رابطوں کے ویب سائٹ فیس بک پر پیج چلاتی ہے۔

صحابیحہ کہتی ہے موجودہ دور میں مین سڑیم میڈیا کے ساتھ کے کام کرنے کے مواقعے ملنا بہت ہی مشکل ہے۔ اگر کسی ٹی وی چینل یا بڑے اخبار میں بطور رپورٹر کام کرنے کا موقعہ مل بھی جائے تو فنانشل یا جاب سیکورٹی بہت بڑا مسئلہ ہے جبکہ صحافیوں سے 24 گھنٹے ڈیوٹی لیے جانے کا رواج بھی عام ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مین سٹریم میڈیا میں پسماندہ علاقوں کے خبروں کو بہت ہی کم وقت دیا جاتا ہے۔ مرضی کے مطابق علاقائی مسائل کو ٹھیک طریقے سے اجاگر نہیں کیا جاتا۔ اس کے برعکس ڈیجیٹل میڈیا میں بطور فری لانس جرنلسٹ گھر بیٹھے بھی کام کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی علاقائی مسئلے کو اجاگر کرنے کے لئے وقت اور جگہ ملتی ہے اور سب سے اچھی بات یہ کہ محنت کا صلہ بھی اچھے طریقے سے مل جاتا ہے۔

اور اگر آپ مسائل کو اجاگر کرنا جانتے ہیں۔ بطور خاتون صحافی معاشرے کیلئے کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتی ہیں تو سوشل میڈیا سے بہتر کوئی جگہ نہیں جہاں آپ صحافتی اصولوں کے مطابق آزادی و خودمختاری کے ساتھ بے دھڑک کام کر سکتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر نئی نسل کے لوگ اور خصوصا خواتین صحافی ڈیجیٹل میڈیا کو پسند کرتی ہیں۔

خبر کی تصدیق اور اشاعت کے حوالے سے صابیحہ کہتی ہے کہ صحافتی اصولوں کے مطابق  ڈیجیٹل  میڈیا پر خبروں کی اشاعت کی جاتی ہے۔ کسی بھی خبر کو شیئر کرنے سے پہلے مختلف بااعتماد ذرائع سے تصدیق کی جاتی ہے اگر خبر کسی ادارے کے حوالے سے ہو تو اس ادارے کے سربراہ یا فوکل پرسن سے موقف ضرور لیا جاتا ہے اور ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد خبر کو شائع کیا جاتا ہے۔

جب صابیحہ سے پوچھا گیا کہ کیا پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کے صحافی آپ کو اپنے جیسی ترجیح دیتے ہیں یا نہیں تو انکا کہنا تھا  کہ شروع شروع میں ایکسپٹنس کا بہت زیادہ مسئلہ تھا لیکن جب انہیں پتا چلا کہ میں بھی ایک صحافی ہوں اور وقتی طور پر صحافت نہیں کر رہی ہوں  تو اس کے بعد سینئر صحافیوں کا رویہ میرے ساتھ بہت اچھا ہوگیا۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ مجھے بطور صحافی قبول کیا ہے بلکہ بہت زیادہ تعاون بھی کررہے ہیں۔ اگر بات کی جائے سرکاری افسران ،سیاست دانوں یا سماجی کارکنان کی تو یہ تمام لوگ مجھے بطور صحافی بہت زیادہ عزت دیتے ہیں کسی بھی خبر کی تصدیق یا کوئی اور صحافتی کام ہو تو میرے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔

صابیحہ نے بتایا کہ سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا پر ایک لعزش آپ کے لئے بہت بڑے مشکل کا باعث بن سکتا ہے لہذا ایک تو جرنلزم گریجویٹ ہونے کی وجہ سے بھی بہت زیادہ خیال رکھتی ہوں۔ دوسری بات یہ کہ اس حوالے سے مختلف اداروں کی جانب سے خصوصی تربیت بھی حاصل کی جس کی وجہ سے ان قوانین کے حوالے سے جاننے کا موقعہ ملا ہے اور خبر دیتے وقت ان تمام چیزوں کا خیال رکھنا اب میری عادت بن گئی ہے۔

پشاور میں نجی ٹی وی چینل کی بیورو چیف اور سینئر صحافی فرزانہ علی سے جب پوچھا گیا کہ نئی نسل خصوصا لڑکیاں مین سٹریم میڈیا میں آنے کی بجائے سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا کو کیوں پسند کرتی ہے تو انکا کہنا تھا کہ بڑا مسئلہ روایات کا ہے۔ لڑکیاں ٹی وی سکرین پر آنے سے کتراتی ہیں۔ دوسرا مسئلہ وقت کا ہے کہ مردوں کی نسبت خواتین  8 سے 4 بجے تک کی جاب کو ترجیح دیتی ہے۔ تیسرا مسئلہ تنخواہ یا صلہ ملنے کا ہے۔ آج کل اخبارات میں بہت کم تنخواہیں دی جاری ہے جبکہ ٹی وی چینل میں لازمی آپ نے 8 گھنٹے کی نوکری کرنی ہے جو زیادہ تر خواتین کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس ڈیجیٹل میڈیا میں اگر کوئی خاتوں صحافی گھر سے بھی کام کریں تو انہیں اچھا خاصا معاوضہ مل جاتا ہے۔ ایسے میں لڑکیوں کے لئے ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔

وزیرستان سے ڈیجیٹل میڈیا پر کام کرنی والی رضیہ محسود بھی خواتین کی مین سٹریم میڈیا میں نہ ہونے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہتی ہیں "مین سڑیم میڈیا میں خواتین کو فنانشل سیکورٹی حاصل نہیں۔ ٹی وی جرنلزم میں صحافتی ادارے مردوں کی طرح خواتین سے بھی توقع رکھتے ہے کہ وہ بھی بغیر تنخواہ کی کام کرے گی جو خواتین کے لیے مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ علاقائی مسائل کو قومی میڈیا میں وقت نہیں دیا جاتا اور نہ ہی علاقائی مسائل کو بہتر انداز میں اجاگر کیا جاتا ہے۔ اپنے طریقے سے کام کرنے کی آزادی حاصل نہیں اور نہ ہی گھر سے آپ کام کرسکتی ہیں۔”

وہ کہتی ہیں سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا میں اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ وقت اور جگہ کی کوئی قید نہیں اور علاقائی مسائل کو بہتر انداز میں اجاگر کیا جاسکتا ہے۔ ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ علاقائی روایات کو برقرار رکھ کر کام کیا جاسکتا ہے۔ مین سٹریم میڈیا کی ایک سنگل خبر دینے کی بجائے سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم پر بلاگز، مضامین، ٹیکسٹ سٹوریز، آڈیو زیا ویڈیوز کے ذریعے مسائل کو بہتر انداز میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز پر اگر فری لانس جرنلسٹ کے طور پر بھی کام کیا جائے تو محنت کا صلہ ضرور ملتا ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا پر کام کرنے کے جہاں فوائد ہیں تو وہی وزیرستان جیسے علاقے میں کسی خاتون صحافی کا باہر نکل کر فیلڈ میں کام کرنے کے بہت سے نقصانات بھی ہے۔ سب سے پہلے تو معاشرہ آپ کو قبول نہیں کرتا۔ رضیہ محسود نے بتایا کہ انکے علاقے میں صحافتی ذمہ داریاں نبھانے پر انہیں قتل کی دھمکیاں بھی ملی ہے تاہم گھر والوں اور خصوصا والدین اور شوہر کے سپورٹ نے انکا حوصلہ بلند رکھا ہے جبکہ رضیہ کا شوہر فلیڈ انکے ساتھ بطور کیمرہ مین کام کر رہا ہے۔

رضیہ محسود کہتی ہیں کہ سیکورٹی تھریٹ سے محفوظ رہنے کے لئے ایک تو انہیں والدین اور شوہر کا سپورٹ حاصل ہے اور دوسرا علاقائی روایات کے مطابق فیلڈ میں کام کرنے سے بھی ایسے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

جامعہ پشاور کے شعبہ صحافت کے استاد فیض اللہ جان کہتے ہیں کہ آج کل کے دور میں صحافت سوشل و ڈیجیٹل میڈیا کے ساتھ جڑ ہوا ہے۔ اس میڈیم پر کوئی بھی صحافی چاہے نیا کیوں نہ ہو بہت جلد اور بہتر انداز میں اپنا پروفائل بنا سکتا ہے۔ سب سے بڑی وجہ سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا کا انٹریکٹیو ہونا ہے۔ کوئی صحافی کیریئر کے ابتدائی دنوں سے بھی عوام کے ساتھ براہ راست جڑ سکتا ہے جس کے لئے اس کو صرف سوشل میڈیا  اکاونٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور اسکے بعد اسکا کام مزید انکا پروفائل بنا دیتا ہے۔

سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا میں نوجوانوں کی دلچسپی یا خواتین کا اس جانب راغب ہونے کی وجوہات سے اختلاف کرتے ہوئے خیبر یونین آف جرنلسٹ کے صدر ناصر حسین کہتے ہیں کہ سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا میں بھی خواتین کو شو پیس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی صحافتی یا سنجیدہ کونٹینٹ ہو تو اس کو اتنا زیادہ نہیں دیکھا جاتا۔ بہت ہی کم خواتین سوشل میڈیا پر کامیاب رہی ہے تاہم کچھ ادارے ایسے ہیں جہاں خواتین کو اچھا کونٹینٹ بنانے پر پذیرائی بھی ملتی ہے اور معاوضہ بھی۔ اس میں خواتین کے لئے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر وہ اہلیت رکھتی ہے تو گھر سے بھی کام کرکے نہ صرف اپنا صحافتی پروفائل مضبوط کرسکتی ہے بلکہ اچھا معاوضہ بھی کما سکتی ہے اور کسی کے حسد کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا۔

خیبر یونین آف جرنلسٹ بغیر کسی تفریق کے صحافیوں کو ڈیجیٹل میڈیا میں آگے جانے کے لئے نہ صرف استعداد کار بڑھانے کی تربیت دیتا ہے بلکہ ایکوپمنٹ بھی یونین کے ممبران کو فراہم کیا گیا ہے تاکہ ڈیجیٹل میڈیا کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے صحافتی سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔ پشاور پریس کلب میں ڈیجیٹل سٹوڈیو کا قیام صحافیوں کو خودمختار بنانے کی ایک کڑی ہے تاکہ صحافی چاہے و مرد ہو یا خواتین اپنے دم پر صحافت میں آگے بڑھ سکے۔

خواتین صحافیوں کی ڈیجیٹل میڈیا کی طرف رجحان کی بڑی وجہ دفاتر ،کام کی جگہوں اور عام پبلک میں سامنے آنے والی مشکلات ہیں جبکہ معاشی آزادی بھی ایک بڑا عنصر ہے جس کی وجہ سے خواتین اب ڈیجیٹل میڈیا کی طرف جارہی ہے۔

خواتین صحافیوں کی تعداد یا ڈیجیٹل میڈیا میں انکے کردار کے حوالے اعداد و شمار کسی بھی صحافتی تنظیم یا محکمہ اطلاعات کے پاس موجود نہیں۔

محکمہ اطلاعات خیبر پختونخوا کے پریس رجسٹرار انصار خلجی نے بتایا کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے رجسٹریشن کے حوالے سے فیصلہ حکومت نے کرنا ہے تاہم ابھی تک مجھے کسی بھی سوشل میڈیا انفوئینسر نے رجسٹریشن کے لئے کوئی درخواست نہیں دی نہ ہی کسی کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے جبکہ ڈیجیٹل میڈیا پر کام کرنے والے اکثر صحافی جو پریس کلبز کے ساتھ رجسٹر ڈ ہوتے ہیں محکمہ اطلاعات ان صحافیوں کو رجسٹرڈ کرکے ایکرڈیشن کارڈ جاری کرتی ہے۔

انصار خلجی نے مزید واضح کیا کہ بطور پریس رجسٹرار میں صحافیوں، پریس کلبز، نیوز پیپرز، ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں اور پرنٹنگ پرس کے معاملات دیکھتا ہوں۔

فریڈم نیٹ ورک کے 2017 میں "تھریٹ ،ہراسمنٹ اینڈ ریجکشن "کے نام سے پبلش رپورٹ میں پورے پاکستان کے بیس ہزار صحافیوں میں خواتین کی تعداد 5 فیصد سے بھی کم دکھائی گئی ہے جبکہ خیبر پختونخوا سے خواتین کے لئے گئے انٹرویوز کے مطابق 12 خواتین اس وقت مختلف ٹی وی چینلز اور دیگر آوٹ لیٹ کے ساتھ کام کر رہی تھی جس میں اب گنتی کے چند نام فیلڈ میں موجود ہے۔ جبکہ زیادہ تر خواتین یا تو بیرون ملک چلی گئی ہے یا کسی دوسرے فیلڈ میں ملازمت کر رہی ہیں اور یا ڈیجیٹل میڈیا میںٰ قسمت آزمائی کر رہی ہے۔

نوٹ۔ یہ سٹوری پاکستان پریس فاونڈیشن کی فیلوشپ کا حصہ ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button