جرائم

کوہاٹ میں ڈانس پارٹی میں شرکت کرنے پر 9 پولیس اہلکار نوکری سے برخاست

 

غلام اکبر مروت

ضلع کوہاٹ شکردرہ کے علاقے میں ایک بڑے کمرے میں ڈھول کی تھاپ پر ڈانس گرلز ناچتی ہے اور دو درجن کے قریب مسلح افراد ان پر نوٹ نچھاور کرتے ہیں۔ جیسے ہی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہے تو میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل میں طوفان برپا ہوتا ہے کیونکہ اس ویڈیو میں تھانہ عیسیٰ خیل کے مسلح پولیس اہلکار بھی دکھائی دیتے ہیں۔

میانوالی پولیس کے ترجمان میاں خرم شہزاد کے مطابق یہ ویڈیو ضلع میانوالی سے متصل خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کی ہے۔ کوہاٹ کے علاقے شکردرہ میں ڈانس پارٹی نہیں تھی بلکہ یہ شادی کا پروگرام تھا  اور یہ ایک دو ماہ قبل کی ویڈیو ہے۔
میانوالی پولیس کے اہلکار وہاں اشتہاریوں کی ریکی اور گرفتاری کیلئے گئے ہوئے تھے۔ یہ ویڈیو تین چار ہفتے پہلے منظر عام پر آئی ہے جس پر آرپی او سرگودھا شارق کمال صدیقی نے نوٹس لیا۔
آر پی او سرگودھا شارق کمال صدیقی نے انکوائری رپورٹ کی روشنی میں 9 پولیس اہلکاروں کو ملازمت سے برخاست کر دیا ہے۔

اشتہاریوں کی موجودگی میں خواجہ سراؤں کے ساتھ ڈانس کی وائرل ویڈیو پر آر پی او سرگودھا نے سخت ایکشن لیا اور تھانہ عیسی خیل سی آئی اے سٹاف کے 9 پولیس ملازمین کو انکوائری کے بعد ملازمت سے برخاست کر دیا۔
ملازمت سے برخاست ہونے والوں میں سب انسپکٹر ملک فیاض انچارج ایلیٹ فورس، سابق انچارج سی آئی اے عیسیٰ خیل اسسٹنٹ سب انسپکٹر مقبول خان، آصف خان 10 ایلیٹ فورس، شاہنواز خان 325 ایلیٹ فورس، محمد ایاز خان ایلیٹ فورس، ظفر اقبال ایلیٹ فورس، محمد عامر خان ایلیٹ فورس، جمشید خان 862 سی آئی اے اور ذکاءاللہ 359 سی آئی اے شامل ہیں۔

عیسی خیل کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس ترجمان میانوالی کا موقف اپنی جگہ ٹھیک ہوگا لیکن جب وائرل ہونے والی ویڈیو کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ کسی بھی صورت شادی کی تقریب نہیں لگتی کیونکہ کوہاٹ کے علاقوں میں شادی کے موقع پر موسیقی کے پروگرام اوپن ہوتے ہیں اور اس میں لوگوں کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے جبکہ اس ویڈیو میں 20 کے قریب مخصوص لوگ ہی شریک ہیں۔
ویڈیو سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ پروگرام پولیس اہلکاروں کے اعزاز میں منعقد کیا گیا ہے۔ برخاست ہونے والے 9 ملازمین میں شامل ایک ملازم نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سب انسپکٹر فیاض اس ویڈیو میں موجود ہی نہیں لیکن انچارج ہونے کی وجہ سے انہیں سزادی گئی ہے۔

عام طور پر پہلے چارج شیٹ ہوتی ہے پھر جواب کیلئے ملازم کو ایک ہفتہ کا وقت دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ریگولر انکوائری ہوتی ہے جس کا فیصلہ ایک مہینے میں ہوتا ہے۔ اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو ملازم کو فائنل شوکاز نوٹس دیا جاتا ہے اور متعلقہ افسر کے سامنے پیشی ہوتی ہے وہ جو مناسب سمجھے فیصلہ سناتا ہے۔
لیکن یہاں افسران بالا نےصرف ایک ہفتہ کے اندر سارا عمل مکمل کرکے ہم 9 پولیس اہلکاروں کو ملازمت سے برخاست کر دیا جو ہمارے ساتھ ناانصافی ہے۔ یہ فیصلہ قانون اور انصاف کی بجائے کسی دباؤ کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔
ہمیں ہمارے متعلقہ افسران ڈی پی او میانوالی اور ڈی ایس پی عیسیٰ خیل نے وہاں ملزمان کی ریکی اور گرفتاری کیلئے بھیجا تھا۔

سوال ہمارے متعلقہ افسران سے ہونا چاہیئے کہ ہم وہاں کس کے حکم پر اور کیوں گئے تھے؟ اگر ہم متعلقہ افسران کی اجازت کے بغیر وہاں گئے ہیں تو ہم پھر ہم سزاوار ہیں اور سزا کے مستحق ہیں۔

اس سلسلے میں ڈی ایس پی عیسیٰ خیل میاں محمد اقبال سے رابطہ کیاگیا تو انہوں نے موقف دینے سے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ اس سلسلے میں ڈی پی او میانوالی بہتر جواب دے سکتے ہیں۔

یہ اشتہاری کون ہیں؟
عیسیٰ خیل پولیس کے ایک اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اس پولیس گروپ نے علاقے میں انت مچائی ہوئی ہے۔ اشتہاری ناصر گروپ سے اس کے تعلقات ہیں۔ انہیں وارداتوں کی مکمل آزادی ہے اگر کوئی اور گروپ سر اٹھانے لگے تو پولیس اس گروپ کا جینا حرام کر دیتی ہے لیکن اشتہاری ناصر گروپ کو مکمل آزادی ہے کیونکہ ان کا پولیس سے گٹھ جوڑ ہے۔

برخاست ہونے والے پولیس اہلکاروں کا موقف ہے کہ ہم کوہاٹ کے خطرناک علاقے شکردرہ میں اشتہاری محمد مقبول ولد محمود قوم پٹھان سکنہ بانگی خیل تحصیل عیسیٰ خیل کی گرفتاری کیلئے گئے تھے جو چار قتل کرچکاہے۔ جو دہشت گردی اور پولیس مقابلہ میں بھی پولیس کو مطلوب ہے۔ آج بھی ایک پولیس اہلکار محمد کامران تین سال سے بیساکھی پر چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ ذیشان عرف خانا گروپ بھی جرم کے بعد شکردرہ چلا جاتا ہے۔ اس کیلئے افسران بالا کے حکم پر پولیس گئی تھی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button