پشاور میں نامعلوم موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سے سکھ برادی کے تاجر قتل
پشاور کے علاقے دیر کالونی میں نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے سکھ برادی سے تعلق رکھنے والے پنساری ہردیال سنگھ کو دکان کے اندر فائرنگ کرکے قتل کردیا۔
فائرنگ سے ہلاک ہونے والے دیال سنگھ پشاور کے محلہ جوگن شاہ کے رہائشی تھے، ہر روز ڈبگری سے کوہاٹ روڈ پر اپنی پنساری کی دکان پر جاتے تھے اور پانچ بجے واپس آتے تھے صرف دو ہزار روپے ماہانہ کرایے کی دوکان میں گھر والوں کا مشکل سے پیٹ پالتے تھے۔
پولیس کے مطابق فائرنگ کا واقعہ جمعہ کے روز تھانہ رحمان بابا کے حدود گڑھی عطاء محمد میں پیش آیا جبکہ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ایس پی صدر ڈویژن ملک حبیب خان مقامی پولیس کے ہمراہ فوری موقع پر پہنچ کر جائے وقوعہ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
واقعہ کے بعد فائرنگ سے قتل ہونے والے سکھ تاجر کی ورثاء سے اظہار تعزیت کیلئے ایس ایس پی آپریشنز ہارون الرشید خان ان کی رہائش گاہ پر گئے اور لواحقین سے ملاقات کے دوران اب تک ہونے والی تحقیقات سے آگاہ کیا اور انہیں قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کرنے کا یقین دلایا۔
ایس ایس پی آپریشنز ہارون الرشید خان کے مطابق واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کر لی گئی ہے اور اہم شواہد کی روشنی میں مختلف زاویوں پر جامع تفتیش کا آغاز کرتے ہوئے قاتلوں کی روٹس کا تعین کیا جا رہا ہے۔
ان کے بقول اقتلیوں کی جان و مال کا تحفظ اولین ترجیح ہے جس کے لئے پولیس تمام تر دستیاب وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا کو خیرباد، سکھ برادری میں نئی روش
دوسری جانب سکھ برداری نے فائرنگ کے واقعہ کو دہشتگردانہ قرار دیتے ہوئے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
اس حوالے سے مینارٹی رائٹس فورم پاکستان کے چیئرمین رادیش سنگھ ٹونی نے ایک مذمت بیان میں کہا ہے کہ اس پہلے 27 سکھ کمیونٹی کے لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے قتل کیا جا چکا ہے جبکہ یہ 28 واں واقع ہے جس کو حکومت مکمل طور پر روکنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
انہوں نے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ آج تک سکھ برادری کے قتل میں ملوث ایک بھی قاتل کو گرفتار نہیں کیا گیا جبکہ ریاست اقتلیوں کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔
ٹونی نے بتایا کل کراچی میں بھی ایک ہندو ڈاکٹر کو قتل کیا گیا اور آج سکھ دکاندار کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جو انتہائی افسوسناک واقعہ ہے۔
واضح رہے کہ اس پہلے بھی شاور میں نامعلوم ملزمان کی فائرنگ سے سکھ برادی کو نشانہ بنایا گیا ہے جس میں گزشتہ سال 5 مئ کو پشاور کے علاقہ سربند میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو قتل کر دیا تھا۔
یاد رہے کہ خیبر پختونخوا میں سکھ برادری کے ٹارگٹ کلنگ کا پہلا واقعہ جنوری 2014 میں پیش آیا تھا جب چارسدہ کے علاقے تنگی میں میڈیکل سٹور کے مالک بھگوان سنگھ کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔ مائنارٹی رائٹس فورم پاکستان کے چیئرمین رادیش سنگھ ٹونی کا دعویٰ ہے کہ 2014 کے بعد اب تک خیبر پختونخوا میں سکھ برادری کے 24 افراد قتل کیے جا چکے ہیں اور قاتلوں کی گرفتاری کے حوالے سے کسی ایک کیس میں بھی ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اقلیتوں میں سکھ چونکہ زیادہ آسانی سے پہچانے جاتے ہیں تو شائد اسی لئے ان کی ٹارگٹ کلنگ زیادہ ہو رہی ہے۔ رادیش سنگھ کہتے ہیں کہ سکھ برادری اب صوبہ خیبر پختونخوا کو اپنے لئے محفوظ نہیں سمجھتی اور دوسرے صوبوں اور بالخصوص پنجاب کا رخ کر رہی ہے۔
دوسری جانب 2017 کی مردم شماری میں سکھ برادری کا الگ ڈیٹا تو مرتب نہیں کیا گیا ہے لیکن پشاور کے باباجی گورپال سنگھ کا دعویٰ ہے کہ خیبرپختونخوا میں 11 سو تک سکھ برادری کے خاندان آباد ہیں جن کی مجموعی آبادی 25 سے 30 ہزار تک ہے۔ خیبر پختونخوا کی سکھ برادری زیادہ تر پشاور میں آباد ہے۔ اس سے پہلے قبائلی ضلع کرم اور خیبر میں بھی سکھ برادری کے سینکڑوں خاندان آباد تھے لیکن شدت پسندی اور فوجی آپریشنز کی وجہ سے ان میں سے بھی زیادہ تر پشاور ہجرت کر کے مختلف گردواروں کے ارد گرد آباد ہو چکے ہیں لیکن اب یہاں پر بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔