سوات: 7 سال میں غیرت کے نام پر 229 افراد قتل
غیر سرکاری تنظیم "دی اویکننگ” سال دو ہزار بارہ سے سوات میں گھریلو جھگڑے، غیرت کے نام پر قتل، جنسی تشدد اور خودکشیوں کے واقعات پر کام کرتی ہے اور ان واقعات کے اعداد و شمار "دی اویکننگ” اپنے ممبرز، پولیس، اخبارات، صحافیوں اور وکلاء سے اکٹھے کرتی ہے۔
"دی اویکننگ” کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں گزشتہ سات سال کے دوران غیرت کے نام پر 229 افراد کا قتل کیا گیا جن میں 211 خواتین جبکہ مردوں کی تعداد 18 ہے۔
جنت نظیر وادی سوات میں غیرت کے نام پر قتل اور خواتین پر تشدد کے سینکڑوں واقعات سامنے آئے ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی شخصیات اور ادارے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ سوات کے مختلف علاقوں میں کئی مرتبہ انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں اور مقامی لوگوں نے غیرت کے نام پر قتل اور خواتین پر تشدد کے خلاف احتجاج بھی ریکارڈ کیا ہے۔
قتل کو بیماری کا نام دینا
سوات کی تحصیل مٹہ میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی لڑکی کی بہن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایک ماہ قبل میری چھوٹی بہن کو میرے بھائیوں نے غیرت کے نام پر قتل کیا، وہ فرسٹ ائیر کے طالبہ تھی اور پسند سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اپنے والدین اور بھائیوں کو اس بات پہ آمادہ کرنے میں ناکام رہی، ”بھائیوں کو ڈر تھا کہ کہیں وہ کورٹ میرج نہ کر لے لہذا انہوں نے اس کو مار دیا۔”
”حقیقیت یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور وہ خاندان میں رضامندی اور خوش اسلوبی سے رشتے کو استوار کرنا چاہتے تھے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ جس کا ڈر تھا وہی ہوا، خود میں نے اپنی بہن کو کئی مرتبہ سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ نہیں مانی، گھر والوں کو مجبور کرتی رہی کہ اس رشتے کو قبول کر لیں۔” مقتولہ کی بہن نے بتایا۔
انہوں نے بتایا کہ میری بہن کو چائے میں زہر دے کر مار دیا گیا پھر گاؤں اور محلے میں مشہور کیا گیا کہ وہ بہت عرصہ سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھی اس وجہ سے اس کا انتقال ہو گیا۔
سروے رپورٹ
انسانی حقوق کے کام کرنے والے ادارے "دی اویکننگ” کے مطابق 2016 میں 53، 2017 میں 50، 2018 میں 32، 2019 میں 32، 2020 میں 29، 2021 میں 18 اور 2022 میں 15 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔
دی اویکننگ ہر سال مختلف علاقوں سے تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات رپورٹ کرتی ہے اور یہ متاثرہ خاندان کے ساتھ مالی تعاون کے ساتھ ساتھ قانونی مدد بھی فراہم کرتی ہے، زیادہ تر افراد ان کے پاس اپنے مسائل لے کر آتے ہیں۔
کورٹ میرج زیادہ دیر تک چل سکتی ہے؟
سوات کے مرکزی شہر مینگورہ تحصیل بابوزئی سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ نوجوان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سال 2019 میں اس نے اپنی پسند سے لڑکی کے ساتھ کورٹ میرج کر لی اور اب وہ خوشی خوشی زندگی گزار رہے ہیں، ”شادی کو تین سال گزر گئے لیکن اب تک ہم سوات سے باہر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، دوست کے ذریعے ہمیں معلوم ہوا کہ لڑکی والے اب تک اس تلاش میں ہیں کہ کب ہم ملیں اور ہم دونوں کو قتل کر دیا جائے، ہمیں افسوس ہے کہ سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن میں پسند کی شادی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن اسلام ہمیں پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے، میں سوچتا ہوں کہ ہم کب اس سچائی کو سمجھیں گے۔”
غیرت کے نام پر قتل کا پس منظر
"غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی تاریخ کوئی چند سو سالہ نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہے۔ قدیم رومن زمانے سے ہی غیرت کے نام پر عورت کو مار دینے کی تاریخ ملتی ہے۔”
واقعات رپورٹ کیوں نہیں ہوتے؟
دی اویکننگ ایگزیکٹو ڈاریکٹر عرفان حسین بابک نے بتایا کہ غیرت کے نام پر قتل شدہ مرد و خواتین کو زیادہ تر زہر دے کر مارا جاتا ہے، بعد میں ایسے واقعات کو خودکشی کا رنگ دیا جاتا ہے، یہ واقعات زیادہ تر سوات کی تحصیلوں چارباغ، مٹہ، خوازہ خیلہ اور تحصیل کبل کے دورداز علاقوں میں رونما ہوتے ہیں۔
عرفان حیسن بابک کے مطابق دی اویکننگ نے اسپیشل فیملی کورٹس بنائے ہیں جن میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات، خواتین کے ساتھ بدسلوکی، گھریلو تشدد، وراثت میں حصہ نہ دینا، طلاق، ذہنی ہم آہنگی، کم عمری میں شادی اور دیگر گھریلو ناچاقیوں جیسے مسائل حل کئے جاتے ہیں، اس کی روک تھام کے لئے علاقہ عمائدین انسانی حقوق کی تنظمیں اور سب سے بڑھ کر سماجی کارکن اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، ان کے ساتھ مل کر ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ قانون سازی میں عام لوگوں کی رائے انتہائی اہم ہوتی ہے کیونکہ قانون سازی عام لوگوں کے لئے ہی ہوتی ہے، جب تک حکومت کو عوام کے حقیقی مسائل سے آگاہ نہیں کیا جاتا اس وقت تک قابل عمل قوانین بنانا ممکن نہیں۔
عرفان حسین بابک کے مطابق اب تک ان کے پاس سات سالوں میں 228 کیسز رپورٹ ہوئے اور اب تک 80 فیصد مجرموں کو قانونی طور پر سزائیں بھی سنائی گئی ہیں لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ عدالت کی جانب سے ملزمان کو سزا سنانے کے بعد متاثرہ افراد راضی نامہ کر لیتے ہیں۔
بقول عرفان حسین بابک تشدد، غیرت کے نام پر قتل اور واقعات پر کام کرنا آسان نہیں، ”ہم سال 2012 سے سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن کے مختلف اضلاع میں کام کر رہے ہیں، ہمیں بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ واقعات ہمیشہ دو خاندانوں کے درمیان آتے ہیں تو زیادہ تر افراد ہمارے ممبرز اور وکلاء کو دھمکاتے ہیں، سوات سمیت مختلف علاقوں میں ہمارے خلاف کمپین بھی لانچ کی جاتی ہے کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ پشتون کلچر کی وجہ سے یہاں کام کرنا مشکل ہے لیکن ہم انسانی حقوق اور عدم برداشت کے لئے جہدوجہد جاری رکھیں گے۔”
کرونا وباء اور خواتین پر تشدد
دی اویکننگ کی سروے رپورٹ کے مطابق سال 2020 میں کورونا وائرس کے دوران لوگ اپنے گھروں تک محدود تھے اس وجہ سے خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو گیا تھا۔ سال 2020 میں خواتین پر 410 واقعات رپورٹ ہوئے، سال 2020 کے دوران سوات میں 14 ریپ کیسز بھی رپورٹ ہوئے، پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق 21 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان کو سزائیں بھی سنائی گئی تھیں۔
خواتین کو غیرت کے نام پر کیوں قتل کیا جاتا ہے؟
خیبر پختونخوا میں اپنی نوعیت کا پہلا "خویندو جرگہ” کے بانی اور خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی تبسم عدنان نے بتایا کہ سب سے پہلے تو ہمارے معاشرے کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چاہے لڑکا ہو یا لڑکی ہر انسان کو اپنی زندگی چینے کا پورا پورا حق حاصل ہے لہذا ہمیں اپنی سوچ اور رویے کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔
تبسم عدنان نے بتایا کہ ہم خواتین کے گھریلو مسائل حل کرنے کے لئے جرگے منعقد کراتے ہیں جن میں ہم مختلف قسم کے مسائل حل کرتے ہیں، ”ہمارے پاس زیادہ تر کیسز ایسے آتے ہیں جو حقیقت میں خودکشی یا بیماری نہیں ہوتی بلکہ ان لڑکیوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہوتا ہے۔”
قتل میں کون ملوث ہو سکتا ہے؟
غیرت کے نام پر قتل اور قانون سازی کے حوالے سے ایڈوکیٹ سیف اللہ السلام نے بتایا کہ غیرت کے نام پر قتل مرد و خواتین کے قتل میں ملوث بیشتر ملزمان رشتہ دار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے پہلے تو وہ رپورٹ درج نہیں کرواتے اور جب پولیس کے دباؤ میں رپورٹ درج کروا بھی دیتے ہیں تو اس میں شہادت نہیں ہوتی اس وجہ سے زیادہ تر ملزمان سزا سے بچ جاتے ہیں اور غیرت کے نام پر قتل کرنے والے مزمان کا راضی نامہ بھی عدالت تسلیم نہیں کرتی، اس طرح قتل کے واقعات میں ملوث ملزمان کم زور شہادت یا شہادت نہ ہونے کی وجہ سے سزا سے بچ جاتے ہیں۔
سیف الاسلام ایڈوکیٹ کے مطابق ناقص تفتیش کے باعث عدالت میں یہ ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے کہ آیا ایک عورت نے خودکشی کی ہے یا اسے قتل کیا گیا ہے۔
غیرت کے نام پر قتل اور اسلامی نقطہ نظر
مہتمم اور عالم مولانا سکندر احمد نے غیرت کے نام پر قتل کے واقعات بارے بتایا کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور روایتی تہذیب نہ غیرت کے نام پر قتل کی وجہ ہیں اور نہ اس عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، یہ دین اسلام کی تعلیمات سے لاعلمی اور ناآشنائی کا نتیجہ ہے، عورتوں پر تشدد کی اصل وجہ کو نہ جاننا بہت سے سنگین نتائج کو جنم دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دین اسلام کو ان جرائم کا ذمہ دار ٹھہرانا مسلمانوں کو غیرضروری طور پر مشتعل کرانے کے مترادف ہے، بشتر مسلم ممالک میں اس پروپیگنڈے کو بنیاد بنا کر انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے جھنڈے تلے مغربی ثقافت کو فروغ دیا جا رہا ہے، "اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو اور اس کے آشنا کو زنا کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھ کر قتل کیا تو اس کو قتل ہی مانا جائے گا اور مجرم کو وہی سزا دی جائے گی جو ایک قاتل کو دی جاتی ہے۔”
غیرت یا بیماری؟
ماہر نفسیات ڈاکٹر میاں نظام علی نے بتایا کہ بعض شوہروں اور بھائیوں کو ذہنی بیماری ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی بیویوں اور بہنوں پر شک کرتے ہیں، جب وقت گزرنے کے ساتھ بیماری میں اضافہ ہوجاتا ہے تو وہ بیوی یا بہن کے قتل تک جا سکتے ہیں جو انتہاہی قابل تشویش عمل ہے۔
میاں نظام علی نے بتایا کہ ڈپریشن اور انزائٹی قابل علاج امراض ہیں، جن میں مردوں و خواتین کو اس بیماری کی علامات ہوں تو قریبی ماہر نفسیات سے علاج کرانا ضروری ہے۔
سوات پولیس کی سروے رپورٹ
ڈسٹرکٹ پولیس آفس سے آر ٹی آئی کے تحت حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2016 میں 07، 2017 میں 06، 2018 میں 05، 2019 میں 09، 2020 میں 07، 2021 میں 08 اور 2022 میں 06 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 5 مرد اور 37 خواتین شامل تھیں۔
اعداد و شمار کے مطابق اب تک عدالت میں 20 کیسز چل رہے ہیں جبکہ 69 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس قتل کو حادثاتی موت رپورٹ کرتی ہے؟
اس سلسلے میں کئی مرتبہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر شفیع اللہ گنڈاپور سے فون اور مسیجز کے ذریعے رابطہ کرنے کے کوشش کی لیکن انہوں نے موقف دینے سے انکار کر دیا۔
ایس پی سوات ارشد خان نے بتایا کہ پولیس اس طرح کے واقعات پر سنجدگی سے کام کر رہی ہے، غیرت کے نام پہ قتل میں ملوث ملزمان کو بروقت گرفتار کیا جاتا ہے اور ان کو سزا بھی دی جاتی ہے، کچھ کیسز اب بھی عدالتوں میں چل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ باتیں بھی ہو رہی ہیں کہ پولیس زیادہ تر واقعات کو حادثاتی موت قرار دے رہی ہے، یہ بالکل بے بنیاد اور من گھرٹ ہے، اگر کوئی بھی پولیس اہلکار اس طرح کے واقعات میں ملوث ہے تو ہم اس کو قانونی طور پر برطرف کریں گے اور اس کے لئے عدالتوں میں باقاعدہ نظام بھی موجود ہے، کسی بھی اہلکار پر یہ الزام ہے تو متاثرہ افراد عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں ہم بھی ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
بقول ایس پی ارشد خان ہم نے اب تک تمام تر کیسز میں ملوث ملزمان کے خلاف کاروائیاں جاری ہیں اور 20 کیسز عدالت میں چل رہے ہیں ان کو جلد از جلد عدالت کی طرف سے سزائیں دی جائیں گی۔
خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں غیرت کے نام پر مرد و خواتین کے قتل کی روک تھام کے حوالے سے سیاسی و سماجی شخصیات، مذہبی سکالر، ڈاکٹرز، نفسیاتی ماہرین اور سیکورٹی ادارے اس بات پر منتفق ہیں کہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے سب کو ایک بیج پر ہونا چاہیے اور اس طرح کے واقعات میں ملوث ملزمان کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے، اکثر کیسز میں بغیر تفتیش اور ثبوت کے محض ذاتی اختلافات کی بنیاد پر بے گناہ افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو انتہاہی افسوس ناک اور ناقابل معافی فعل ہے۔
نوٹ: یہ سٹوری پی پی ایف فیلوشپ کا حصہ ہے۔