تعلیمکالم

صوابی یونیورسٹی کا المیہ

ڈاکٹر محمد ہمایوں ہما

انتخابات ضروری ہیں۔ ہیلی کاپٹر کون استعمال کرے گا۔ یہ موت و زندگی کا مسئلہ ہے۔ ہر انتخاب کا شائق مخالف کو ٹف ٹائم دینے کے لیے پرعزم!

ابھی پرسوں کی بات ہے ہمارے ایک دوست کا ایکسیڈنٹ ہوا، ایک ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ مردان کے میڈیکل کمپلیکس گئے۔ ڈاکٹر نے فوری طور پر ایکسرے تجویز کیا۔ پتہ لگا ایکسرے مشین کے لیے فلمیں موجود نہیں ہیں۔ روتے پیٹتے سامنے ایک دکان پر گئے، وہاں فلموں کے انبار پڑے تھے۔ ہاتھ پر پلستر تجویز ہوا۔ پتا لگا پلستر بھی ہسپتال میں نہیں۔ مریض کو کہا گیا بازار سے خرید لیں۔ وہ دوبارہ ہسپتال نہیں گئے، وہاں باہر ہی سے کسی سے پلستر ہاتھ پر چڑھا لیا۔

ہم مانتے ہیں کہ مردان کا متذکرہ ہسپتال ٹائلز سے مزین ہے مگر ان ٹائلز کے چاٹنے سے تو مریض اچھا نہیں ہوتا۔ صرف مردان ہی نہیں پختونخوا کے تمام ہسپتال قبرستان کا نظارہ پیش کر رہے ہیں اور ڈاکٹر مجاور بنے بیٹھے ہیں۔

مارکیٹ میں روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، 20 کلو آٹے کی قیمت 26 سو ہے اور گھی کا وہ ڈبہ جو دو تین سو میں دستیاب تھا اب اس کی قیمت تین ہزار تک پہنچ چکی ہے۔

وزیر اعظم صاحب اعلان فرماتے ہیں کہ میں اپنے کپڑے بیچ کر عوام کو آٹا فراہم کروں گا۔ ارے بھئی کپڑے نہیں۔۔۔ اپنے شوگرملز فروخت کر دو، منی لانڈرنگ کا سدباب کرو، آٹا سستا ہو جائے گا۔

وہ ایک احسن اقبال نے فرمایا ہے کہ دولت مند لوگوں کو ڈالرز مارکیٹ میں لانے کی ضرورت ہے۔ ڈالرز تو آپ جیسے بڑے لوگوں کے پاس ہین۔ نکال کر سامنے لائیں۔ آپ کو معلوم ہے پی آئی اے 480 ارب روپے کا مقروض ہے لیکن وہ اب بھی اپنے ملازمین کو دنیا کی سیر کے لئے لاکھوں روپے کے مفت ٹکٹ فراہم کرتے ہیں۔

اور اب اخراجات ملاحظہ کیجئے۔ وزیراعظم ہاؤس کے روزانہ اخراجات 55 لاکھ روپے ہیں۔ ایوان صدر کے اخراجات 22 سے 25 لاکھ روپے بنتے ہیں۔ کابینہ ڈویژن کے یومیہ اخراجات مبینہ طور پر ڈیڑھ کروڑ روپے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ممبران کی تعداد 342 ہے۔ صوبائی اسمبلیوں میں ہمارے 749 خیرخواہ تشریف فرما ہیں۔ ایوان بالا کے دو سو اراکین ہیں۔ اور ان سب قومی نمائندوں کی تعداد بارہ سو بنتی ہے جن پر بارہ ارب روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔ یہ ملک اور قوم کے لئے کیا خدمات سرانجام دیتے ہیں نتائج قوم کے سامنے ہیں۔

ملک میں بجلی ناپید ہے، گیس کا قحط ہے، پیٹرولیم مصنوعات کے بحران کی آمد آمد ہے۔ شنید ہے کہ حکومت اور اوگرا سر جوڑ کر بیٹھی ہے کہ کیا کیا جائے۔ اگر ہمارے قومی نمائندے اپنے ایک کروڑ روپے بھی قومی خزانے میں جمع کرا دیں تو مہنگائی میں 70 فیصد کمی آ سکتی ہے۔

یہ بھی سنتے چلیے کہ جب اس عاجز کو محکمہ تعلیم میں 35 سال کی ملازمت کے بعد گریڈ 20 میں پینشن ملی تو اس کے ہاتھ میں جمع پونجی صرف گیارہ لاکھ روپے تھما دی گئی۔

ہم نے یہ لمبی چوڑی تمہید ایک بہت بڑے المیے کا سن کر باندھی ہے اور وہ یہ کہ صوابی یونیورسٹی کے 35 اسٹنٹ پروفیسروں کو جو سب پی ایچ ڈی ہیں بیک جنبش قلم ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہے کیونکہ یہ اب تک ہائر ایجوکیشن کمیشن کے رحم و کرم پر تھے اور اس نے یونیورسٹی کو ان کی تنخواہ کی مد میں فنڈز فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کر دی ہے۔

دوستو! یہ صرف پینتیس افراد نہیں 35 خاندان ہیں اور ان سے وابستہ ہزاروں طلبہ جو ان کے علم سے استفادہ کرتے تھے۔ہم اس ظالمانہ فیصلے کے لیے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو بھی برابر کا ذمہ دار سمجھتے ہیں، یہ فیصلہ راتوں رات نہیں کیا گیا وائس چانسلر کو پیشگی اس کا علم ہو گا، انہوں نے ایچ ای سی اور حکومت کو اس سنگین فیصلے کے نتائج سے بروقت کیوں آگاہ نہ کیا؟

اب صوابی کی سماجی، تعلیمی اور ادبی اداروں پر لازم ہے کہ وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آواز بلند کریں تاکہ صوابی یونیورسٹی کو تباہی سے بچایا جا سکے۔

صوابی یونیورسٹی کا المیہ
ڈاکٹر محمد ہمایوں ہما کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ پی ٹی وی کے سنہری دور کا ایک چمکتا دمکتا ستارہ ہیں، وہ ایک شاعر، ادیب، کالم نگار اور سب سے بڑھ کر ایک استاد ہیں۔ قلم و کتاب سے ان کا رشتہ کافی پرانا ہے اور آج کل دل کا غبار و بھڑاس نکالنے کیلئے ان سطور کا سہارا لیتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button