جرائم

2022 کے پہلے 9 ماہ میں دہشتگردی کے 66 فیصد ملزمان بری؛ رپورٹ

رفاقت اللہ رزڑوال

خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹریٹ آف پراسیکیوشن سے جاری کردہ معلومات کے مطابق رواں سال کے پہلے نو مہینے میں دہشت گردی کے مقدمات میں 66 فیصد ملزمان عدم ثبوت اور شکوک کی بناء پر عدالتوں سے بری کر دیئے گئے ہیں۔

محکمہ پراسیکیوشن کے مطابق جنوری 2022 سے ستمبر 2022 تک 34 فیصد ملزمان کو سزائے موت اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔

پراسیکیوشن حکام کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے مقدمات کو انجام تک پہنچانے کیلئے ٹھوس شواہد اکٹھا کرنے کیلئے فارنزک لیبارٹری اور دیگر ٹیکنیکل سہولیات موجود نہیں جبکہ پولیس ماہرین کہتے ہیں کہ دہشت گردی کو ڈیل کرنے والے ادارے کے اہلکار عدم تحفظ کی وجہ سے تفتیش میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔

محکمہ پراسیکیوشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر مانیٹرنگ ذیشان اللہ آفریدی نے ٹی این این کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں فارنزک لیبارٹری کے ساتھ مختلف چوراہوں پر سی سی ٹی وی کیمروں کی عدم موجودگی کی وجہ سے شواہد اکٹھا کرنے میں کمی آ جاتی ہے جس کے نتیجے میں ملزم بری ہو جاتا ہے۔

ذیشان نے بتایا "جب دہشت گردی کا کوئی واقعہ سامنے آتا ہے تو ہم موقع سے شواہد پولیس کے ذریعے اکٹھے کر کے مزید تفتیش کیلئے پنجاب فارنزک لیبارٹری بھیج دیتے ہیں جس میں کافی وقت لگ جاتا ہے مگر یہاں پر ہم نے 30 دن کے اندر اندر اپنے شواہد عدالت کے سامنے پیش کر دینے ہوتے ہیں تو ایسے میں ہم کیسے بغیر ٹھوس ثبوت کے عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں؟”

انہوں نے بتایا کہ صوبے میں سیف سٹی پراجیکٹس کے منصوبے پر بھی عمل نہیں کیا گیا اور دہشت گردی کے جتنے بھی واقعات رونما ہوتے ہیں تو ان کی تصاویر اور ویڈیوز موجود نہیں ہوتیں، ان کے مطابق اگر اس منصوبے پر عمل درآمد ہو جائے تو وہ تفتیشی ایجنسیوں کو کافی فائدہ پہنچائے گا۔

ذیشان آفریدی کہتے ہیں کہ جاری کردہ رپورٹ سے پہلے گزشتہ سال مجرمان کی سزاؤں کی شرح 19 فیصد تھی تاہم وسائل کی عدم موجودگی کے باوجود کافی محنت کے بعد ہم اسے 36 فیصد تک لے آئے مگر ہماری کوشش ہے کہ کنوکشن کی شرح کو مزید بڑھائیں۔

ڈپٹی ڈائریکٹر پراسیکوشن کہتے ہیں "دہشتگردی کے واقعات میں کبھی بھی آپ کو عینی شاہدین نہیں ملیں گے بلکہ آپ نے سائنسی طریقوں سے تفتیش کرنی ہو گی اور سائنسی طریقہ یہ ہے کہ آپ موبائل، واٹس ایپ پیغامات، فیس بک میسنجر، سی ڈی آر اور ایمیل ڈیٹا تک رسائی حاصل کریں جس کے لئے ٹیلی کام کمپنیوں کی مدد ضروری ہے مگر یہاں پر ان کی طرف سے عدم تعاون ہے اور سارا فائدہ ملزم کو پہنچتا ہے جبکہ تفتیشی اہلکاروں کی سیکورٹی اور اکاموڈیشن بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔”

محکمے کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے کی 13 انسداد دہشت گردی عدالتوں میں 778 مقدمات میں 143 فیصلے ہو چکے ہیں جن میں سے 48 مقدمات میں نامزد مجرمان کو سزائیں دی گئی ہیں۔

محقق اور سابق پولیس ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ڈاکٹر سید اختر علی شاہ کا ماننا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے قائم کاؤنٹر ٹیررازم ادارے کے پاس تمام تر اختیارات اور وسائل موجود ہیں مگر صلاحیتوں اور قابلیت کو بروئے کار لائے بغیر تفتیش ادھوری رہنے سے ملزم بری ہو جاتا ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ دہشت گردی کو قابو کرنے کیلئے سی ٹی ڈی ایک لیڈنگ ادارہ ہے جس کے پاس اینٹی ٹیررازم ایکٹ 297 کے تحت انٹلی جنس، آپریشن اور تفتیش کا مکمل اختیار ہے اور اس ضمن میں ان کے لئے اپنے تھانے بھی قائم کئے گئے ہیں جن کی نگرانی ڈی آئی جی لیول کا افسر کر رہا ہے۔

سید اختر علی شاہ نے ٹی این این کو بتایا "میں نے اب تک کوئی بھی تفتیشی افسر نہیں دیکھا جو جائے وقوعہ پر دستانے پہنے فنگر پرنٹس اور فُٹ پرنٹس اکٹھے کر رہا ہو بلکہ اسی پرانے اور روایتی طریقے سے شواہد اکٹھے کر رہے ہیں جس کی عدالت میں کوئی حیثیت ہی باقی نہیں رہتی۔”

انہوں نے کہا کہ دیگر جرائم کی طرح دہشت گردی کے واقعات میں کوئی شہادت دینے کیلئے تیار نہیں ہوتا بلکہ تفتیشی بھی خوف میں مبتلا ہوتا ہے کہ کل اگر ملزم بری ہوا تو اس کا تحفظ کیسے ہو گا مگر مسئلہ کمٹنمنٹ کا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button